تقسیم ہند کے بعد بدقسمتی سے ہمارے مقتدر طبقے نے علاقائی مادری زبانوں کو اس حد تک قربان کرنے کا فیصلہ کرلیاکہ نتیجے میں نئی نسل کو اپنی مادری زبان سے علاقہ محض اپنے گھر کی چار دیواری تک محدود ہوکر رہ گیا۔قیام پاکستان کو اب سات دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ بیت چکاہے لیکن بچوں کو اپنی مادری زبان میں تعلیم دینا اب بھی ایک خواب و خیال تصور کیا جاتا ہے۔ اب اگر کوئی ریاست سے اپنی مادری زبان میں بچوں کو تعلیم کا مطالبہ کر تاہے تو انہیں خود بھی یقین نہیں آتاکہ ان کا یہ مطالبہ مستقبل بعید میں بھی ریاست کی طرف حل کیا جائے گا کیونکہ بارہا مساعی کے باوجود ایسے مطالبات صدا بہ صحرا ثابت ہوئے ہیں۔ ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ اردوکے علاوہ ملک میں انگریزی زبان کو اہمیت دی گئی کہ یہاں پر بسنے والی اقوام کی مادری زبانیں بیچ میں مزید دب کر رہ گئی بلکہ انگریزی ہی کے ذریعے اردوزبان کابھی استحصال کیاگیا۔بھلا ہو پھر بھی ہمارے اہل ادب کا ،جنہوں نے اپنی مددآپ کے تحت اپنی اپنی زبان اور ادب کے احیا میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اوراس حوالے سے پیہم سعی کرتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر پشتو زبان کی ترقی وترویج کے لئے ہمارے ہاںبے شمار ادبی تنظیموں کے علاوہ خیبرپختونخوا میں پشتو اکیڈمی پشاور جبکہ بلوچستان میں پشتو اکیڈمی کوئٹہ زبان کی نشروشاعت اور ترویج کیلئے روزاول سے کوشاں ہیں۔ان اکیڈمیز کی طرف سے ہر چند سال بعدزبان وادب کے حوالے سے عالمی سمینار وں کا انعقاد کیا جاتاہے اور ساتھ ساتھ صوبے کی سطح پر بھی ادبی پروگرامز منعقد ہوتے رہتے ہیں۔یہاں یہ دعویٰ کرنا شاید مبالغہ نہیں ہوگا کہ پشتو اکیڈمی کوئٹہ نے پچھلے چندبرسوں میں بے شمار کتابوں کی اشاعت اور ’’لیکنے ‘‘ کے نام سے ضخیم سہ ماہی رسالے کے اجرا کے علاوہ کئی قابل ستائش اقدامات کیے ہیں جن میں ایک پشتو زبان کی بنیادی رسم الخط اورادب اور تاریخ سے نوجوانوں کوآگاہ کرنے کیلئے پشتون اضلاع میں ٹیچنگ کورسز کا آغاز ہے۔ کوئٹہ میںاس نوعیت کے کورسزکا اہتمام اکیڈمی نے دوسال پہلے اکیڈمی کی عمارت کے اندرہی کیاتھا تاہم دیگر پشتون اضلاع میں اکیڈمی کی طرف سے ایسے کورسزکی شروعات پچھلے سال مارچ میں اکیڈمی کے صدرسید خیر محمد عارف اور سیکرٹری جنرل خلیل باور کی سرپرستی میںضلع ژوب سے ہوئی۔ہمارے دوست شاعراوراچھے لکھاری شہیم کاکڑ کو اکیڈمی کی طرف سے ہفتے میں چار روزہ کلاسز کی ذمہ داری سونپی گئی جس کو وہ اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجودبلا ناغہ بڑی دلچسپی اور لگن کے ساتھ سرانجام دے رہے ہیں۔ کورونا وبا کی وجہ سے تعلیمی اداروں کے طویل تعطل کے باوجود بھی ان کورسزکے طفیل نوجوانوں نے اپنی زبان اور ادب کے حوالے سے بہت کچھ سیکھا اور مزید جانکاری حاصل کررہے ہیں ۔گوکہ اس سے پہلے پشتو زبان و ادب سے صرف شاعر اور ادیب حضرات کی شناسائی تھی یا پھرخال خال وہ طالب علم اس میں دلچسپی لیتے تھے جو کالج میں پشتو ادبیات کی کلاسز میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے تھے۔ اکیڈمی کی اس کاوش کی بدولت اب عمومی طور پر نوجوانوں میںاپنی مادری زبان سے علاقہ استوار کرنے کا ولولہ دیکھنے کو ملتا ہے۔اسی طرح فارغ التحصیل طلباء کو وقتاً فوقتاً اسناد اور انعامات سے نوازنے کی روایت بھی اکیڈمی کا ایک قابل مدح اقدام ہے جو نوجوانوں کی حوصلہ افزائی اور تالیف قلب کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ زبان وادب کے حوالے سے ایسے کورسز کے اجراء کادوسرا بڑا فائدہ یہ بھی سامنے آرہاہے کہ اختراعی صلاحیتوں سے مال مال نوجوانوں نے ابھی سے اپنی زبان میں لکھنے کی طبع آزمائی شروع کی ہے۔ پروگرام کو ژوب میں کامیابی سے ہمکنارہوتے دیکھ کر پشتواکیڈمی نے بلا کسی تامل کے پچھلے سال ستمبر کو اس نیٹ ورک کا دائرہ کارسنجاوی اور لورالائی تک بھی بڑھایا۔سننے میں آیا ہے کہ اکیڈمی اُن نوجوانوں کو بھی پشتو زبان سیکھنے کا ارادہ رکھتی ہے جن کی مادری زبان اگرچہ پشتو نہیں ہے لیکن پشتو زبان سیکھنے کیلئے بے تاب ہیں۔خدا کرے کہ انتہائی اہمیت کے حامل اس متوقع اقدام کا عملی مظاہرہ بھی بہت جلددیکھنے کو ملے ۔فارسی زبان کی طرح اگر پشتو اکیڈمی نے غیر پشتون لوگوں کوپشتو زبان سکھانے کا اہتمام کیا تو اس سے زبان وادب کو بہت فروغ ملے گا۔خدا کرے کہ اکیڈمی کے جملہ ساتھی آئندہ بھی بلا کسی طمع ولالچ کے اپنی خدمات کو پیہم جاری رکھیں تا کہ اُن کے او پرمرحوم احمدفراز کا یہ شعر ہمیشہ ہمیشہ صادق آئے ، ہزار شکر کہ ہم اہل ِ حرف زندہ نے مجاورانِ ادب سے سند نہیں مانگی مضمون کے آخر میں مَیں جناب سید باچا المعروف باچا جی کی ادب دوستی اور فیاضی کا اعتراف کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے بغیر کسی تامل کے اپنے انگلش لینگوئج سنٹر کے تنگ مکان کا ایک کمرہ پشتوزبان کے ان کلاسز کیلئے وقف کردیا۔ اپنی زبان کیساتھ جنون کی حد تک لگائو رکھنے والے باچاجی پچھلے چند مہینوں سے علیل ہیں ، ہماری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ پشتو ادب کے اس بے غرض خادم کو شفائے کاملہ نصیب فرمائے ۔