موجودہ نظام تعلیم کا ایک بڑا نقص یہ بتایا جاتا ہے کہ اس میں تعلیم پر زور ہے اور تربیت کا فقدان ہے۔ ساتھ ہی تعلیم کے ضمن میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اس میں اصرار حافظے پر ہے اور طلباء و طالبات کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر نہیں کیا جاتا۔ ہر چند کہ حافظہ بھی ذہانت کا حصہ ہے لیکن صرف حافظے پر زور دینا تعلیم کی مجموعی افادیت کو متاثر کرتا ہے۔ نئی حکومت پورے ملک میں ایک نصاب کو رائج کرنے کے لئے فکر مند ہے۔ لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ محض نصاب کچھ نہیں ہوتا تاوقتیکہ اساتذہ کے معیار کو بلند نہ کیا جائے ۔ایک ناکافی نصاب ایک اچھے استاد کے ذریعے عمدہ نتائج پیدا کر سکتا ہے اور ایک بہت اچھا نصاب ایک برے استاد کے ہاتھوں طلبہ کی تعلیم کو برباد کر سکتا ہے۔ عام مشاہدہ یہی ہے کہ سکولوں سے یونیورسٹیوں تک اچھے اساتذہ تعینات نہیں کئے جا رہے۔ تعلیمی اداروں میں اچھے اساتذہ اس لئے دستیاب نہیں ہیں کہ اچھے اذہان کے لئے درس و تدریس کے پیشے میں کوئی کشش باقی نہیں رہی۔ کم تنخواہیں‘ کام کا بوجھ اور کڑی شرائط ملازمت کی وجہ سے اب وہ لوگ اس پیشے میں آ رہے ہیں جنہیں کہیں اور ملازمت نہیں ملتی۔ ماضی کے اساتذہ اپنے شوق سے اس پیشے میں آتے تھے اور نئی نسل کی تعلیم و تربیت جیسے اہم فریضے کے آگے تنخواہ و مراعات ان کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے لیکن تعلیم جیسے جیسے تجارت بنتی گئی سوچنے سمجھنے اور ترجیحات زندگی کے بدلنے کے سبب اب درس و تدریس کا شعبہ اپنی کشش کھو بیٹھا ہے۔ اکا دکا پرائیویٹ ادارے جو اچھی تنخواہوں کی پیش کش کرتے ہیں‘ وہیں اچھے اساتذہ میسر ہیں باقی دیگر تعلیمی اداروں کا حال پتلا ہے۔ اچھی تعلیم اور عمدہ تربیت کے بغیر کسی ملک کا شاہراہ ترقی پر آگے بڑھنا محال ہے۔ ہمارے ملک میں مدتوں سے یہی رونا رویا جاتا ہے کہ حکومت اپنے بجٹ میں سب سے کم رقم تعلیم پر مختص کرتی ہے۔ اس کے برعکس ترقی یافتہ ملکوں میں تعلیم ہی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ تعلیم جب تک اساتذ ہ کے لئے Passion(جذبہ و شوق) نہیں بنتی تعلیم کا ترقی کرنا دشوار ہے۔ زر پرستی کے کلچر نے جہاں معاشرے کی دیگر قدروں کو پامال کیا ہے وہیں تعلیم کا خانہ بھی خراب ہوا ہے۔ آج کا استاد تعلیم کو کلاس روم لیکچر تک محدود سمجھتا ہے۔ اسے اس سے غرض نہیں کہ طالب علم کلاس روم سے نکل کر کیا کرتا ہے؟ روک ٹوک‘ ممانعت اور سمجھانا بجھانا‘ نصیحت کرنا اب یہ سارا معاملہ استاد کے دائرہ کار سے باہر ہو گیا ہے۔ آج کے اخبار میں وزیر مملکت برائے داخلہ کا یہ بیان کہ دارالحکومت کے تعلیمی اداروں میں 75فیصد لڑکیاں اور 45فیصد لڑکے آئس نشے کے عادی ہو چکے ہیں‘ خطرے کی گھنٹی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر ایسا ہے تو ان تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اور اساتذہ کیا کر رہے ہیں؟ کسی بھی تعلیمی ادارے میں چلے جائیے لڑکے لڑکیاں احاطے میں جو کچھ کر رہے ہوتے ہیں‘ اس پہ اساتذہ اور انتظامیہ کا رویہ لاتعلقی اور بیگانگی کا ہے۔استاد سمجھتا ہے کہ اس نے کلاس روم میں اپنی ڈیوٹی دے دی اس سے آگے اس کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ استاد کو تو چھوڑیے اب والدین بھی اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت سے غافل ہیں۔ بچوں کی جائز و ناجائز فرمائشوں کو پورا کرنا والدین اپنا فریضہ سمجھتے ہیں تاکہ وہ اپنے بچوں کی نظروں میں سرخرو ہو سکیں۔ اکا دکا والدین اگر بچوں کی کسی فرمائش کو جائز نہ سمجھیں اور اسے پورا کرنے کے بجائے سمجھانے کی کوشش کریں تو انہیں جواب ملتا ہے کہ میرے فلاں فلاں دوست کے پیرنٹس تو اس سے منع نہیں کرتے آپ کو کیوں اعتراض ہے۔ یہ ہماری کم نصیبی ہے کہ آج تک ایک سے زائد تعلیمی پالیسی بننے کے باوجود کسی ایک تعلیمی پالیسی کو بھی مکمل طور پر نافذ نہیں کیا گیا۔ ان تعلیمی پالیسیوں میں جو سفارشات پیش کی گئیں‘ انہیں بھی روبہ عمل نہ لایا گیا‘ نتیجہ یہ ہے کہ تعلیم کا خانہ خراب ہوا اور تعلیم بتدریج تجارت بنتی گئی۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں نے طالب علموں سے بھاری بھاری فیسیں تو وصول کیںلیکن ان فیسوں کے عوض ڈیلیور کچھ بھی نہ کیا۔ ایک استاد ہونے کی حیثیت سے میرا اپنا مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ طالب علم کو کچھ اور آتا ہو یا نہ ہو لیکن زبان بالکل نہیں آتی۔ نہ انگریزی نہ اردو۔ کسی طالب علم سے چھٹی کی درخواست دونوں زبانوں میں لکھوا لیجئے اندازہ ہو جائے گا کہ اس نے اسکول اور کالج اور آخر میں یونیورسٹی میں آ کر کیا سیکھا؟ ہماری ساری توجہ ملکی معاشیات کو سنبھالنے میں صرف ہوئی ہے۔ تعلیم کے شعبے کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ نئی حکومت جب تک اس شعبے کو اہمیت نہیں دیتی اور ترجیحاً اس کے مسائل حل نہیں کرتی‘ پاکستان کو بدلنے کے سارے دعوے صرف دعوے ہی رہیں گے۔ اب تک تعلیم کے شعبے میں اصلاحات نافذ کرنے کا کوئی اقدام نظر نہیں آ رہا اور تعلیمی اداروں کی زبوں حالی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ تعلیمی ادارے بہ کثرت ہیں‘ ان کے ہونے میں کوئی کمی نہیں اصل بات یہ ہے کہ اچھی تعلیم quality educationمیسر نہیں ہے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا پہلو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ کراچی میں دوپہر کے وقت کسی بھی تعلیمی ادارے کے نزدیکی کیفے‘ پارکوں اور تفریح گاہوں میں چلے جائیے طلباء و طالبات کے جوڑے آپ کو بہ کثرت نظر آئیں گے جن کے یونیفارم سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ طالب علم ہی ہیں۔ تعلیمی اداروں کے اندر بھی نشے کا استعمال عام ہے۔ کیا یہ عادتیں کسی قسم کی قانون سازی سے بدلی جا سکتی ہیں؟ یا اس کے لئے تعلیمی ادارے کے ماحول کو بدلنا اور اساتذہ و انتظامیہ کو اپنا فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔ میری رائے میں تو ہر تعلیمی ادارے میں ایک مانیٹرنگ سیل قائم ہونا چاہیے جو طلباء و طالبات پر نظر رکھے اور ایسی کسی اطلاع پر فوری کارروائی کرے۔ لیکن یہ تو جبھی ہو سکے گا جب تعلیمی اداروں کے مالکان اور ان کی انتظامیہ ’’منافع‘‘ کمانے سے ہٹ کر یہ بھی سوچ سکے کہ طلبہ کی اخلاقی زندگی کو بہتر بنانا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ طلبا وطالبات کو تعلیمی اداروں میں بالکل آزاد چھوڑ دینا اور وہ کلاس روم سے باہر نکل کر کیا کر رہے ہیں اور کیا نہیں کر رہے ہیں‘ اس طرف سے لاپرواہی برتنا کم سے کم لفظوں میں مجرمانہ فعل ہے۔ جن تعلیمی اداروں میں طلبا و طالبات کے نشے کے عادی ہونے کی اطلاع ملے ان تعلیمی اداروں کے خلاف کارروائی کرنا حکومت کے محکمہ تعلیم کی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری والدین کی بھی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں سے باخبر رہنے کی کوشش کریں۔ وہ تعلیمی اداروں میں جا کر کیا کرتے ہیں‘ ان کی دوستی‘ تعلقات اور مراسم کن کن سے ہے اور جن سے ہیںان کی اخلاقی حالت کیا ہے‘ جب تک والدین اس سے باخبر نہ ہوں گے‘ محض تعلیمی ادارے پر سارا معاملہ چھوڑ دینا کسی طرح بھی درست نہ ہو گا۔ تعلیم صرف ادارے کا فریضہ نہیں اس میں حکومت اور والدین دونوں کو اپنا حصہ بٹانا چاہیے ورنہ یہ تعلیمی ادارے تعمیر معاشرہ کے بجائے تخریب معاشرے کا سبب بنیں گے اور اس کی ذمہ داری پورے معاشرے پر عائد ہو گی۔