کیوںکہوں کہ پتہ نہیں میں نے کیوں کہا تھا کہ وجہ تو شعر کے اندر موجود ہے مگر اب کے یہ شعر اپنا اپنا سا لگتا ہے کہ جب حالات نے ایک دوسرے کو دور دور رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب شعر دیکھیے: دور بیٹھا غبار میرؔ اس سے عشق بن یہ ادب نہیں آتا اس ادب عالیہ کے شعر کے ساتھ نہ جانے مجھے ایک ادبی مجلہ کا نمائندہ شعر کیوں یاد آ گیا’’کیوں دور دور ہندے او حضور میرے کولوں۔ کوئی دس دیو ہویا کیہہ قصور میرے کولوں‘‘ بہر حال عافیت تو دور دور رہنے میں ہی۔ دیکھیے کیا ہمارا دوست عدیم ہاشمی آن ٹپکا: بہت نزدیک آتے جا رہے ہو بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا مگر ہم نزدیک آئے کب تھے یہ تو بس ہماری حسرت ہی رہی۔ نزدیک آنے کی ہی تو ضرورت تھی۔کاش ہم ایک دوسرے کے بہت نزدیک ہوتے تو بچھڑنے کا بھی مزہ آتا۔ ہم کبھی قریب آئے بھی تو حالات سے تنگ آ کر جیسا کہ موجودہ صورت حال نے ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیا۔ پھر ہمارے درویش دوست منیر سیفی سامنے آ گئے: یہ تو رستے مجھے لے آئے ہیں تیری جانب یہ ملاقات ملاقات نہ سمجھی جائے میں نے بات کیا چھیڑی کہ شعروں کی برسات ہونے لگی۔ اصل میں ذکر کرنا تھا مجھے آصف شفیع کے ایک شعر کا جس نے سوشل میڈیا پر بہت توجہ حاصل کی اور اس پرکمنٹ بھی مزید آئے۔ خوشی مجھے یہ ہوئی کہ وبا کے اس موسم میں جہاں لوگ اپنے اللہ کے نزدیک ہو گئے ہیں اور محو دعا و صلات ہیں۔ وہیں ان میں زندہ دلی بھی نظر آتی ہے اور یہ بہت اچھی بات ہے۔ انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے شاہکار کو مایوس نہیں کرے گا۔ اس کو اس کی حیثیت بتانا بھی تو ضروری ہے۔ پھر غالب کی شوخی مجھے گدگداتی ہے: حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے آخر گناہ گار ہوں کا فر نہیں ہوں میں آپ سوچتے ہوں کہ وہ آصف شفیع کا شعر کہاں گیا تو وہ بھی پڑھ لی جئیے: کتنے بے مصرف ہیں گھر میں ہم ہیں یا سامان پڑا ہے اب یہ بتانے کی تو چنداں ضرورت نہیں کہ لاک ڈائون کے باعث بڑے بڑے شیطان بھی گھر ہی میں قید کر دیئے گئے ہیں۔ وہ جو گھر میں گھستے نہیں تھے اب نکلتے نہیں ہیں۔ بیویاں آتے جاتے اپنے شوہروں کو ڈرائنگ روم یا سٹڈی روم میں بے بس پڑا دیکھتی ہیں اور زیر لب مسکراتے ہوئے گزر جاتی ہیں۔ انہیں اپنی بیویوں کا ہاتھ بھی بٹانا پڑ جاتا ہے۔ کسی وقفے میں سودا سلف لانا پڑتا ہے تو منہ پر ماسک چڑھا کر اور جا کر دکاندار سے ایک فاصلے پر رہ کر بات کرنا پڑتی ہے۔ بہرحال یہ احتیاطی تدابیر ضروری بھی ہیں کہ وقفے کی طرح یہ فاصلہ بھی ضروری ہو گیا ہے۔ مجھے اظہار شاہین بھی یاد آئے کہ ان کے ایک شعر کا مصرع ثانی ہے! ’’گھر میں رکھے ہوئے ساماں کی طرح‘‘ میرے معزز محترم قارئین! یہ سب کچھ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس معاملے میں پریشان ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں جس میں آپ بے بس و لاچار ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم احتیاط برتیں۔ دوسرا یہ کہ جو بھی ممکن بن پائے خود کو خوراک کے ذریعہ ہیٹ اپ رکھیں۔ نہا دھو کر تروتازہ رہیں۔ اللہ سے بہت اچھے موسموں کی امید رکھیں۔ آپ یقین جانیے سوہنا رب ویسا ہی پیش آتا ہے جیسی کوئی اس سے امید رکھتا ہے۔ میں تجربے کی بات کر رہا ہوں! کیا بتائوں نوازشات اس کی ایک پتھر پہ پھول گرتے رہے میں تو اخبار والوں سے بھی یہی گزارش کروں گا کہ وہ کچھ اور بھی شائع کریں صرف وبا کا ذکر ہی کیوں۔ وہ لوگ جو اپنے اپنے گھروں میں معتکف ہو گئے ہیں یا آسولیٹ ہو گئے ہیں وہ بھی اخبار دیکھتے ہیں تو محسوس کرتے ہیں کہ جس عفریت سے بچ کر وہ پردہ نشیں ہوئے ہیں وہ اخبار کے ذریعہ ان تک پہنچ گئی ہے۔ یہ درست کہ لوگوں کو حالات سے باخبر رکھنا از حد ضروری ہے مگر یہ بھی تو اچھا نہیں کہ سیاست، کھیل، شوبز، جرائم، غرضیکہ ہر نوع کی خبروں میں کرونا ہی کرونا کا رونا۔ کچھ اچھی اچھی باتیں کرنا منع تو نہیں۔ آپ اخبار کو کرونا گزٹ نہ بنائیں۔ شاید اس پہلو پر کوئی سوچتا ہی نہیں۔ گھر میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو ان کا کوئی مصرف بتایا جا سکتا ہے۔ میرا مقصد یہ نہیں کہ اب وہ سلائی کڑھائی سیکھنے لگیں۔ پہلی دفعہ کتاب پڑھنے والوں کو موقع ملا ہے وگرنہ ان کو کتابی کیڑے کہا جاتا تھا۔ اب وہ لوگ جو صرف فارغ بیٹھتے ہیں اپنے آپ کو بھی عجیب لگتے ہیں: بے مقصد جہے ہو گئے نیں میرے شام سویر بے مقصد میں بیٹھا رہناں کنی کنی دیر ایک خبر یہ بھی پوسٹ کی گئی ہے کہ اپریل فول نہ منایا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو شخص بھی اپریل فول پر کوئی چھوٹی خبر سے مذاق کرتا ہے تو اس سے زیادہ بے حس کون ہو گا کہ پوری انسانیت پہلے ہی ایک اذیت میں ہے۔ اب اس پر کسی کو مذاق سوجھے کہ جس میں دوسروں کو اذیت پہنچائی جائے بے ذوقی ہی نہیں درندگی ہے۔ موجودہ صورت حال میں ایک دوسرے کے لیے سہارا بن جائیے، مدد کی جئیے، اچھے بول بولیئے اور ایک دوسرے کی مشکل محسوس کر کے اسے حل کرنے کی کوشش کی جئیے۔ آپ یقین جانئے اس سے بڑا نہ کوئی ٹانک ہے اور نہ کوئی ویکسئین، دُکھ بانٹ لیے جائیں تو وہ دکھ نہیں رہتے۔ پھر یہ بھی طے ہے کہ مشکل کشا تو سب کی سنتا ہے جسے پکارو تو وہ پکار کا جواب دیتا ہے۔ میرا خیال ہی نہیں مجھے یقین ہے کہ وہ گناہگاروں کی زیادہ سنتا ہے کہ یہ آواز کدھر سے آئی! اسے اپنے بندے پر پیار آتا ہے۔ غالب نے کتنی باریک بات کہی تھی کہ وہ کعبے سے بھی الٹا پھر آیا مگر کسی اور در پر نہیں گیا: بندگی میں وہ آزادہ و خود بیں ہیں کہ ہم الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا اب تو طواف بھی بند ہے مگر اللہ کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے محروم تو ہم ہو گئے۔ یقینا وہ ناراض تو ہے اور وہ جلد مان بھی جاتا ہے۔ آئیے اسے مناتے ہیں، اس کے محبوب کو وسیلہ بناتے ہیں جس کے لیے اقبالؔ نے کہا: لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب