ممکن ہے ابھی کچھ لوگ باقی ہوں اور انہیں یاد بھی ہو کہ کسی زمانے میں شیخ منظور الٰہی پنجاب کے چیف سیکرٹری ہوا کرتے تھے۔ صرف چیف سیکرٹری ہونا ان کی واحد خوبی نہیں تھی۔ وہ بہت ہی خلیق‘ نفیس‘ نستعلیق اور ادب وآداب سے گوندھے ہوئے انسان تھے۔ بہت دھیما لہجہ‘ بہت منکسر اطوار‘ کہیں بھی بیوروکریسی کا کلف لگا ہوا نہیں تھا۔ کام اور دھیان میں مستعدی‘ فرائض کی ادائیگی میں جلدی‘ شوہر بے مثال اور دوست باکمال..... اس وقت وہ ہمارے بزرگوں میں شمار ہوتے تھے۔ جب میری ان سے اور ان کی سلیقہ شعار بیگم صاحبہ زہرا آپا سے ملاقات ہوئی۔ شیخ منظور الٰہی اور ان کی بیگم زہرا منظور دونوں اعلیٰ پائے کے ادیب تھے۔ شیخ منظور الٰہی بہت ہی مرصع نثر لکھتے تھے۔ خاندانی وجاہت کی شائستگی ان کے چہرے پر بھی تھی اور ان کی تحریر کے اندر بھی___ جب وہ اپنی ملازمت میں تھے تو کبھی انہوں نے ادیبانہ شان دلربائی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ اور جب وہ ریٹائر ہو کر ادیب برادری سے آملے تو ان کے چہرے پر بیوروکریسی کی کوئی بدنما پھبن باقی نہیں تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد گلبرگ کے ایک خوشنما گھر میں رہتے تھے..... جہاں وہ اپنے قریبی دوستوں کی پُروقار محفلیں سجاتے تھے۔ اور ان کی بیگم صاحبہ نہایت عمدہ اور لذیذ کھانوں سے سب کی تواضع کرتی تھیں۔ مشتاق احمد یوسفی ان کے جگری دوست تھے۔ جب کبھی وہ کراچی سے لاہور تشریف لاتے‘ شیخ منظور صاحب ان کے اعزاز میں ایک مہکتا ہوا ادیبانہ قسم کا ڈنر ہو سٹ کرتے۔ اور اکثر مجھے اس میں شرکت کی دعوت دیتے۔ وہ کیسے سرکاری افسر تھے۔ میں نے ان کا زمانہ نہیں دیکھا۔ مگر لوگوں سے ہمیشہ ان کی کارکردگی کی تعریف ہی سنی۔ کارکردگی کی خوشبو اُس وقت تک خلقت تک نہیں پہنچتی جب تک انسان عملی طور پر اور کرداری طور پر دیانتدار نہ ہو۔ جن لوگوں نے زندگی اور کارکردگی میں دیانت اور امانت کو یعنی 62/63 کو اپنی ذات پر لاگو رکھا۔ ہمیشہ ان کے وجود کی روشنی باہر نکلتی رہی..... شیخ منظور الٰہی بہت کم گو تھے۔ کہتے ہیں کہ بہت زیادہ کام کرنے والے لوگ بہت کم باتیں کرتے ہیں۔ اور بہت بڑے بڑے دعوے کرنے والے لوگ یاد رہ جانے والا ایک کام بھی نہیں کر سکتے۔ اور کون کہتا ہے کہ اس زمانے میں اعلیٰ کردار اور بہترین کارکردگی کا کوئی صلہ نہیں ہے___ زمانہ ہمیشہ ایسے لوگوں کو ڈھونڈنے نکلتا ہے۔ بالکل اسی طرح ہوا کہ نوے کی دہائی میں‘ نگران وزیراعلیٰ کے لئے ہر شعبۂ زندگی کی نظر ان پر گئی۔ اور گھر بیٹھے پرسکون زندگی گزارنے والے‘ نپے تلے قدم اُٹھانے والے‘ بہت محتاط انداز میں زبان کو استعمال کرنے والے شیخ منظور الٰہی کو پنجاب کا نگران وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔ اسی طرح جیسے اس بار قرعۂ فال جناب حسن عسکری صاحب کے نام نکل آیا ہے۔ کوئی لکھے نہ لکھے ‘ کوئی جانے نہ جانے‘ یہ کائنات ہر اُس شخص کے ساتھ چل رہی ہوتی ہے جس نے خلقِ خدا کے ساتھ انصاف کیا ہو۔ نسلوں کا حساب صاف کیا ہو۔ اور رزق حلال کی دستار پہن کر کمال کیا ہو___ ..... ان دنوں میں نے چیف منسٹر ہاؤس میں فون کیا تاکہ اُن کو مبارکباد دے سکوں۔ پروٹوکول میں گوندھے مقامات کا وطیرہ میں جانتی تھی کہ چیف منسٹرہاؤس کے اندر‘ جلدی کال کا مل جانا‘ ملا دینا اور وزیراعلیٰ سے بات کر لینا کس قدر مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ اہل اقتدار نے تو اسے الف لیلیٰ کا کوئی قصہ بنا کر رکھا ہوتا ہے___۔ یہ کیا ہوا‘ آپریٹر کو نام بتانے کی دیر تھی۔ منظور بھائی خود لائن پر بوتل کے جن کی طرح حاضر ہو گئے___۔ ارے : منظور بھائی یہ آپ ہیں۔ آپ تو وزیراعلیٰ ہیں۔ اتنی جلدی فون پر آ گئے..... میں نے آپ کو مبارکباد دینے کے لئے فون کیا ہے..... بھائی کوئی اہل اقتدار والے لچھن سیکھئے..... اس پر وہ اپنے اسی مخصوص دھیمے دھیمے انداز میں ہنسنے لگے..... اور کہنے لگے یہ میرے لئے ایک آزمائش ہے۔ دُعا کیجئے مَیں اس آزمائش میں پورا اُتر سکوں اور اپنا فرض ادا کر کے چلا جاؤں۔ لیجئے آپ ابھی سے جانے کی باتیں کرنے لگے..... اس چیف منسٹر ہاؤس سے جانا کون چاہتا ہے۔ وہ بولے! زہرا آپ کو سلام کہہ رہی ہیں۔ ان سے بات کیجئے۔ انہوں نے فون زہرا آپا کو دے دیا۔ ان سے کچھ باتیں ہوئیں اور پھر وہ بولیں۔ بشریٰ میں بہت گھبرائی ہوئی ہوں۔ آج رات تم ہمارے ساتھ کھانا کھاؤ۔ تم سے کرنے کی بہت باتیں ہیں۔ (ان دنوں میں پنجاب اسمبلی سے فارغ ہوئی تھی) میں نے کچھ تکلف کیا وغیرہ وغیرہ___ تو وہ بولیں۔ میں رات کھانے پر تمہارا انتظار کرونگی۔ اس چیف منسٹر ہاؤس میں باری باری جتنے وزرائے اعلیٰ متمکن ہوئے تھے۔ میرا سب کے ہاں آنا جانا تھا۔ غلام حیدر وائیں سے لے کر عارف نکئی تک..... جب میری گاڑی گیٹ کے اندر داخل ہو رہی تھی تو میرے ذہن میں وہی ماحول‘ وہی کروفر‘ لوگوں کا ہجوم‘ ضرورت مندوں کی دھوم اور سرکاری ودرباری ملازموں کی آنیاں جانیاں تھیں۔ موٹروں کاروں کی چکا چوند تھی۔ اور دل میں سوچ رہی تھی۔ ممکن ہے اپنی شان وشوکت دکھانے کے لئے شیخ منظور الٰہی نے لاہور کے بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں کو بھی بلا رکھا ہو۔ بھئی ہمارے ہاں تو دستور ہے۔ اللہ اگر مقام دے تو بندہ اس پر اترانے کا پورا پورا اہتمام کر لیتا ہے___۔ مگر یہ کیا۔ میں اس گیٹ سے اندر داخل ہوئی۔ بس ضرورت کی چند بتیاں جل رہی تھیں۔ باقی دور مار ساری مشعلیں بجھی ہوئی تھیں۔ بس ایک گاڑی کھڑی تھی۔ ایک ہی نوکر کھڑا تھا۔ ایک ہی گیٹ کیپر تھا۔ چیف منسٹر ہاؤس عام آدمی کا گھر لگ رہا تھا___ ڈرائننگ روم میں داخل ہوئی تو اور بھی حیران ہوئی۔ میرے سوا کوئی اور نہیں تھا۔ زہرا آپا دروازے پر ملیں۔ اور یوں جیسے برسوں کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی ہوں۔ کھانے کی میز پر ہم تینوں تھے۔ صرف دو سالن تھے اور ایک میٹھا تھا۔ سروس کے لئے صرف ایک بیرا اندر آ رہا تھا۔ میں نے کہہ ہی دیا۔ آپ درویشی کی زندگی گزارنے آئے ہیں یہاں___ ہمارے ہاں تو جو نگران سیٹ اپ میں آ جائے وہ بھی پروٹوکول کے مزے لوٹتا ہے۔ خزانے پہ ہاتھ صاف کرتا ہے۔ ایسے وزیراعظم بھی چند دنوں کے لئے آئے جنہوں نے اپنے گاؤں والے گھر کو پرائم منسٹرہاؤس ڈیکلئر کروا لیا۔ اور جلدی جلدی وہاں شہر سے منسلکہ سڑک بھی بنوالی۔ رینوویشن کروالی۔ برج اونچے کروا لئے___ وغیرہ وغیرہ____۔ تو زہرا آپا جیسے رو پڑیں اور کہنے لگیں۔ شیخ صاحب کی وجہ سے مجھے اس گھر میں آکر رہنا پڑا ہے۔ یہاں مجھے وحشت ہوتی ہے۔ ہم نے اپنے دوستوں اور عزیزوں کو منع کر دیا ہے کہ ہمیں یہاں کوئی ملنے نہ آئے۔ کوئی سفارش کروانے نہ آئے۔ ہم کسی کا کوئی کام کرنے کے لئے نہیں آئے۔ ہمیں ایک ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ متعین وقت میں ادا کر کے چلے جائیں گے۔ مجھے اپنے پرسکون گھر میں رہنے کی عادت ہے۔ اتنے بڑے بے ڈھنگے محل میں میرا دل نہیں لگتا۔ میں نے کہا۔ آپ کی جگہ کوئی اور اس قبیلے کا بندہ آ جاتا تو یہاں ادیبوں شاعروں کی محفلیں جم رہی ہوتیں۔ سرکاری خرچے پر بڑے بڑے ڈنر ہو رہے ہوتے۔ مشاعرے ہو رہے ہوتے۔ دوسرے شہروں سے دوست واحباب بلوا کے اپنی حیثیت کے سکے چلائے جا رہے ہوتے۔ آپ دونوں میاں بیوی تو اسطرح بیٹھے ہیں جیسے آپ کو سزا کے طور پر بھیج دیا گیا ہو۔ اور آج وہی دال گوشت چپاتی‘ ہم نے تو اس ہاؤس میں ہر روز جشن کے سے سماں دیکھے ہیں۔ جیسے ہر کوئی محض کھانے پینے کو آ رہا ہے۔ کام ہو نہ ہو..... ہجوم بڑھتا چلا آ رہا ہے۔ تب انہوں نے مجھے بتایا۔ ایک چیف منسٹرہاؤس میں بغیر ضرورت کے ساٹھ ستر ڈرائیور ہیں۔ کئی خانسامے اور کئی بیرے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی اسسٹنٹ اور کاریگر قسم کے لوگ ہیں۔ ان کی ضرورت تو کبھی کبھی پڑتی ہے۔ کچھ بھی نہیں کرتے۔ ان کے لئے باورچی خانہ سارا دن چلتا ہے۔ تنخواہیں باقاعدہ لیتے ہیں۔ جتنی بڑی گاڑیوں کی لائن ہوتی ہے اُتنے ڈائیور‘ کلینر اور گن مین ہوتے ہیں۔ سارے یہیں قیام کرتے ہیں۔ یہی حال گورنر ہاؤس کا بھی ہوتا ہے۔ یہ لوگ خزانے پر بوجھ ہیں۔ حقیقت میں جب لوگ اقتدار کی کرسی پر بیٹھتے ہیں تو اپنے حلقے اور گاؤں کے لوگوں کو نوازنے کے لئے بغیر ضرورت کے لوگوں کو رکھتے جاتے ہیں۔ جہاں دو خانسامے‘ دو مالی‘ چارگن مین‘ چار ڈرائیور کام کر سکتے ہوں۔ وہاں بیس خانسامے‘ چالیس مالی___ اور اسی حساب سے ملازمین کی فوج ظفر موج اپنے اردگرد رکھ لیتے ہیں۔ کچن پر بھی بوجھ___ خزانے پر بھی بوجھ___ حکومت کرنے کے لئے کیا شہنشاہ بن کر دکھانا ضروری ہوتا ہے___۔ وہ دونوں میاں بیوی اپنی زندگی سے مطمئن اور قناعت پسند تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنی رہائش کے دوران اس گھر میں بھی سادگی اختیار کی۔ اور غیر ضروری چمک دمک کو علیحدہ کر دیا۔ مگر کتنے لوگ عالیٰ ظرف ہوتے ہیں کہ بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھوئیں۔ سرکاری مراعات نہ لیں اور سرکاری خزانے پرہاتھ صاف نہ کریں۔ میں کئی ایسے خواتین وحضرات کو جانتی ہوں۔ جو ہمیشہ اقتداری لوگوں کے وطیروں پر ناک بھوں چڑھایا کرتے تھے۔ پروٹول کا منہ چڑاتے تھے۔ مگر اتفاق سے جب انہیں نگران سیٹ اپ میں عہدہ مل گیا تو انہوں نے شیخ منظور الٰہی جیسی کوئی مثال قائم نہیں کی___ بلکہ چند دن کے پروٹوکول کے اندر ہی ان کے بھی گردن میں سریا آ گیا۔