ہر طرف اک شور برپا اور لوگوں کا ہجوم ہم نے گویا شہر سارا اپنی جانب کر لیا یہ شعر میں نے تازہ تازہ سابق ہونے والے چیف جسٹس ثاقب نثار کی مہم جوئیوں کے تناظر میں درج کیا ہے کہ ان کے عمل سے مترشع تھا کہ ’’سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘‘ ہر پرایا کام بھی انہوں نے اپنے ذمہ لے لیا تھا۔ ان پر نہایت جامع کالم تو محترم عارف نظامی تحریر فرما چکے اور کوئی گنجائش باقی نہیں چھوڑی۔ مگر انہوں نے کالم کے آخر میں جو طرح دی ہے کہ ثاقب نثار کی جگہ آنے والے نئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ سابق چیف جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کے داماد ہیں تو ہماری خوشگوار یادوں نے ہمیں آن لیا۔ کچھ تذکرہ ان یادوں کا آپ کو اچھا لگے گا جن کا تعلق جسٹس نسیم حسن شاہ سے ملتا ہے۔ ڈاکٹر جسٹس نسیم حسن شاہ بڑے مزے کے آدمی تھے۔ انہوں نے اپنی کوتاہ قامتی کو کبھی آڑے نہیں آنے دیا۔ چھوٹا قد بھی انہیں جچتا تھا کہ وہ بڑے آدمی تھے۔ نسیم حسن شاہ نے بھی بڑے بڑے کام کئے نواز شریف کو بحال بھی تو کیا تھا۔ میں تو مگر اپنے حوالے سے کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ مگر اس سے بھی پہلے ایک نہایت دلچسپ بات جسٹس صاحب کے حوالے سن لیں۔ ایک مرتبہ وہ لیکچر دے رہے تھے ۔مافوق الفطرت کے بارے میں بات ہوئی۔ کلاس میں سے ایک لڑکا کہنے لگا ’’سر میں تو مافوق الفطرت چہروں پر یقین رکھتا ہوں‘‘ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ کل مال روڈ پر ایک گاڑی بغیر ڈرائیور کے آ رہی تھی جس کا نمبر یہ تھا یعنی اس لڑکے نے نسیم حسن شاہ صاحب کی گاڑی کا نمبر بول دیا‘‘ شاہ صاحب نے قہقہہ لگایا۔ وہ اپنا مذاق اڑانا بھی جانتے تھے۔ صحیح معنوں میں جولی فیلو تھے۔ میں نے انہیں ایک دو محفلوں میں آتے دیکھا۔ وہ بڑے اعتماد سے چلتے ہوئے‘ لوگوں کے جھرمٹ میں نمایاں نظر آتے علم و قابلیت نے انہیں ممتاز کیا تھا اور ان کی سوچ نے انہیں اعتماد بخشا تھا۔ ایک روز تنویر ظہور مجھے ان کے ہاں گھر پر لے گیا۔ تنویر ظہور جسٹس صاحب پر ایک کتاب تالیف کر رہا تھا۔ اس ضمن میں یہ ایک ملاقات تھی۔ سچی بات ہے کہ میں شاہ صاحب کی گرمجوشی اور محبت پر حیران ہوا۔ معانقہ کیا اور بیٹھنے کو کہا۔ چائے آئی انہوں نے کیک اپنے ہاتھ سے کاٹ کر پیش کیا۔ شاید یہ شاہ کو شاہ ملا تھا۔ چائے کے بعد گپ شپ ہونے لگی۔ ان کی مسز بھی وہاں تھیں۔ ان باتوں میں حاصل گفتگو بات ان کی کتاب کے ٹائٹل کے حوالے سے تھی۔ کتاب کا نام ’’یہ کیا شے ہے‘‘ طے ہوا تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے شاہ صاحب سے پوچھا کہ یہ نام آپ نے خود رکھا ہے تو اس کی وجہ تسمیہ بھی بتا دیں۔ کہنے لگے ’’اصل میں‘ میں نے اپنی پریکٹس کے آغاز ہی میں ایک بڑا مقدمہ جیتا تو ایک بیرسٹر نے کہا کہ ’’یہ کیا شے ہے‘‘ یعنی اس بیرسٹر کا حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ایک قسم کی یہ تعریفی داد دی تھی۔ میں نے عرض کی’’شاہ صاحب۔ آپ کی بات یقیناً اپنے سیاق و سباق میں درست محسوس ہوتی ہے مگر جب کتاب کا سرورق بنے گا تو آپ کی تصویر اس پر ہو گی اور پھر اوپر لکھا ہو گا’’یہ کیا شے ہے‘‘ شاہ صاحب نے بے ساختہ زور دار قہقہہ لگایا۔ وہ سب کچھ سمجھ گئے ۔ کہنے لگے’’شاہ صاحب! یہ تو ہم نے سوچا ہی نہیں۔ وہ کافی دیر تک ہنستے رہے۔ تب ان کے استفسار پر میں نے کہا کہ ’’جرأت کا پیکر‘‘ کیسا رہے گا۔ اس طرح تنویر ظہور کی تالیف کردہ کتاب کا یہی نام طے پایا۔ شاہ صاحب میں ادب کا شوق بھی تھا اور ذوق بھی اور اس حوالے سے جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی اچھی شہرت رکھتے ہیں کہ ان کے ہاں فیصلوں میں اکثر ادبی حوالے آ جاتے ہیں۔ گاڈ فادر اور سیسلین مافیا جیسے القاب انہوں نے نواز شریف لوگوں کے لیے لکھے مگر یہ حوالے کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ امریکہ ‘ برطانیہ اور دوسرے ملکوں کی عدالتوں میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔ ادب کی زبان میں بات کرنا تو سونے پہ سہاگے والی بات ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی روش اختیار کرتے ہیں یا پھر اپنی راہ اختیار کریں گے۔ بات کچھ یوں ہے کہ اس کے باوجود کہ ثاقب نثار کی رخصتی کے بعد بہت سے لوگ دل کے پھپھولے پھوڑ رہے کہ انہوں نے سالہا سال سے پینڈنگ مقدمات کو نہیں ہلایا بلکہ وہ کام اپنے ذمہ لے لئے جو ان کے نہیں تھے۔ لیکن غالب تعداد ان لوگوں کی ہے جو ثاقب نثار کی فعالیت پر خوش تھے کیونکہ جب روز مرہ کے اہم مسائل کو حل کرنے میں حکومت ناکام ہو جائے یا وہ ان فرائض سے غفلت برتے اوریکسر نظر اندازکرے تو پھر ثاقب نثارسوموٹو عوام کو کیوں پسند نہ آئے۔ ’’ہم آ گئے تو گرمئی بازار دیکھنا‘‘ بڑے بدمعاشوں اور قبضہ مافیا پر اور کسی نے ہاتھ ڈالا۔ ناقص پانی اور ہسپتالوں کی ناگفتہ بہ حالت‘ حکومت کی کس کس نالائقی کا ذکر کریں۔ ڈیم فنڈ کے بارے میں کوئی کچھ بھی پروپیگنڈا کرے مگر ثاقب نثار نے لوگوں کو شعور ضرور دیا کہ قطرہ قطرہ دریا بن جاتا ہے۔ یہ فنڈ وہ ساتھ نہیں لے گئے مگر قرض اتارو ملک سنوارو والے فنڈ کا آج تک کچھ پتہ نہیں چلا۔بہرحال ڈیم از بس ضروری ہے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہی ہے۔ اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے: نہیں ہے امن کی آشا سے زخم سِلنے کا بغیر جنگ پانی نہیں ہے ملنے کا صحیح راستے پر چلتے رہنا منزل ہی کے مترادف ہوتا ہے۔ عدلیہ کا کام زیادہ ہے کہ اسے عوام کے مسائل بھی حل کرنا ہے اور نیب کو بھی کنٹرول کرنا ہے۔ ایک پراسرار سی کیفیت ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ حکومت کی صورت حال بھی ایسی ہے۔ اس نظام کو دھیرے دھیرے ہی بدلا جا سکتا ہے کہ اس کو بدلنے کے خواہش مند سوائے عمران کے سب وہی تربیت رکھتے ہیں جو کہنہ نظام نے انہیں دی ہے۔ آخری بات کرنی ہے کہ اب چیف جسٹس صاحب کو پینڈنگ مقدمات کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔آخر میں دو شعر: اک نہ اک روز اُتر جائیں گے ہم موجوں میں اک سمندر نہ سہی اس کا کنارا ہی سہی ہم کو جلنا ہے بہر رنگ سحر ہونے تک اک تماشہ ہی سہی‘ ایک کنارا ہی سہی