بی جے پی میں ان ہی کے قبیل کے ایک اور لیڈر جن کا میڈیا کے ساتھ ایک طرح سے ہم جولی کا رشتہ تھا پرمود مہاجن تھے، جن کا 2006ء میں ان کے اپنے ہی بھائی نے کسی گھریلو تنازعہ کی وجہ سے قتل کردیا۔ میں چونکہ ان ہی دنوںجرمن ریڈیو ڈائچے ویلے کی اردو سروس کیلئے بھی پارٹ ٹائم کام کرنے لگا تھا، تو اسٹوری کیلئے لیڈروں کے ساونڈ بائٹس کی ضرورت پڑتی تھی۔ جب بھی جیٹلی کو فون کیا، وہ کبھی منع نہیں کرتے تھے۔ کسی وقت ان کے گھر پر فون کرکے معلوم ہوتا تھا کہ مصروف ہیں یا باہر گئے ہوئے ہیں۔ مگر ان کے دفتر میں یہ ہدایت ہوتی تھی کہ فون کرنے والے صحافی کا نام و فون نمبر نوٹ کر لیا کریں۔ ان کے گھر پر فون کرنے کا مطلب ہوتا تھا کہ وہ واپس ضرور یاد کریں گے۔ سشما سوراج اور وینکیا نائیڈو ان کی طرح میڈیا فرینڈلی تو نہیں تھے، مگر کسی بھی سوال کا جواب دینے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ نریندر مودی بھی ان دنوں پارٹی جنرل سیکرٹری اور ترجمان تھے۔ مگر وہ مشکل سوالات پر چڑ جاتے تھے اور اکثران کی بریفنگ صحافیوں کے ساتھ جھگڑے پرہی ختم ہوجاتی تھی۔ بریفنگ کے بعد ڈی بریفنگ کا سلسلہ بی جے پی دفتر میں ارون جیٹلی نے ہی متعارف کروایا۔ ریگولر بریفنگ کے بعد وہ صحافیوں کے بیچ میں آکر یا اپنے کمرے میں بلاکر آف دی ریکارڈ گفتگو کیا کرتے تھے۔ اگلے دن ذرائع کے حوالے سے صفحہ اول کی خبر یہی ڈی بریفنگ ہوتی تھی۔کبھی کبھی اس میں وہ اپنی ہی پارٹی کے افراد کا بھی کچا چٹھا کھولتے تھے۔سادھوی اوما بھارتی اس سے خاصی مضطرب تھی، اور اس ڈی بریفنگ کو رکوانے کیلئے اس نے اپنا پورا زور لگایا ۔مگر کامیاب نہیں ہوسکی۔ پچھلے کئی سالوں سے دہلی میں مشہور تھا ، کہ کئی مقتدر اخبارو ں اور چینلوں کے ایڈیٹر جیٹلی خود ہی ہیں، کیونکہ ان کے پروگراموں کے موضوعات اور اگلے دن اخباروں کی کوریج وہی طے کرتے ہیں۔ جس میں کچھ حقیقت بھی تھی اور اس کا میں چشم دید گواہ بھی ہوں۔ایک بار میں ان کے ساتھ ٹور پر تھا۔ شام کو ڈنر کرتے وقت ، ٹی وی پر ہم مختلف چینلوں پر نیوز شو زدیکھ رہے تھے۔ فون ہاتھ میں لئے وہیں سے ہی نیوز اینکر کو فون پر ہدایت دے رہے تھے، کہ فلانی گیسٹ سے یہ سوال پوچھا جائے۔ ’’پاکستانی گیسٹ کو تھوڑا چڑاوئ۔ بس اب ٹینشن زیادہ ہائی ہو گیا ہے، اب کم کردو وغیرہ ‘‘ کھانے پینے کے شوقین جیٹلی دہلی میں گوسپGossipکنگ کے نام سے بھی مشہور تھے۔ کسی وقت ان کے دفتر یا گھر سے فون آتا تھا کہ امرتسر سے سموسے ، بھوپال سے چھولے یا حیدر آباد سے حلیم آئی ہے ، صاحب کا کہنا ہے کہ لنچ ساتھ کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں ان کے دفتر یا سینٹرل ہال میں ان کا باضابطہ ایک دربار لگتا تھا۔ جہان اراکین پارلیمان اور صحافی ان کو گھیرے، ان سے دنیا بھر کی گوسپ سنتے تھے۔ کسی وقت حیرانی ہوتی تھی ، کہ اتنا مصروف شخص آخر کیسے اپنے آپ کو اتنا باخبر رکھتا ہے؟ ایک بار ان کی گفتگو کا موضوع تقسیم ہند کے وقت پاکستان سے ہجرت کرکے دہلی میں آئے پنجابی ریسٹوریٹ اور ان کے کھانوں کے خاص نسخہ تھے۔واقعی ان کی معلومات بیش بہا تھی۔ بھارتی پارلیمنٹ میں لوک سبھا، راجیہ سبھا اور پارلیمنٹ کور کرنے والے صحافیوں پر مشتمل تین کرکٹ ٹیمیںہو تی تھیں۔ جن کا ہر سال ایک مقابلہ ہوتا تھا۔ یہ سلسلہ نہ معلوم کیوں اب ختم ہو گیا ہے۔ وہ خود راجیہ سبھا کی ٹیم کے کیپٹن تھے۔ صحافیوں کی ٹیم کے سربراہ راج دیپ سر ڈیسائی یا جاوید انصاری ہوتے تھے۔ لوک سبھا میں البتہ کیپٹن بدلتے رہتے تھے۔ ایک بار برطانیہ کے ہاوس آف لارڈز کی کرکٹ ٹیم ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا کی ٹیم کے ساتھ ایک دوستانہ میچ کھیلنے کیلئے بھارت کے دورہ پر آئی۔ دونوں ٹیموں کے درمیان معرکہ آرائی ہماچل پردیش کے سیاحتی مقام دھرم سالہ میں طے تھی۔ خیر برطانوی اراکین پارلیمان پر مشتمل ٹیم نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا آغاز کرکے دھواں دھار بیٹنگ کرتے ہوئے چھکوں اور چوکوں کی بارش کرکے رنوں کا ایک انبار کھڑا کردیا۔ تین بھارتی اراکین پارلیمان تو فیلڈنگ کرتے ہوئے زخمی ہوکر ریٹائرڈ ہوگئے۔ وہ اب بیٹنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ چند صحافی اور لوک سبھا کے کچھ ممبران ، ٹیم کا حوصلہ بڑھانے کیلئے تماشائیوں میں موجود تھے۔ جیٹلی نے برطانوی ٹیم کے کپتان سے کہا، کہ چونکہ ان کے دو کھلاڑی زخمی ہوگئے ہیں، اسلئے وہ تماشائیوں میں موجود لوک سبھا کے دو اراکین کو متبادل کے طور پرمیدان میں اتارنا چاہتے ہیں۔ برطانوی کپتان نے اجازت دی ۔ ممبر چاہئے لوک سبھا کا ہو یا راجیہ سبھا کا ، آخر پارلیمنٹ کا رکن اور سیاستدان ہی تو ہے۔ خیر بھارتی ٹیم کی بیٹنگ شروع ہوئی۔ ایک وکٹ گرنے کے بعد متبادل لوک سبھا کے کھلاڑیوںنے اس طرح مورچہ سنبھالا، کہ انگریز حیران و پریشان۔ وہ آوٹ ہی نہیں ہو رہے ہیں۔ چھکوں اور چوکوں کی بارش کرکے ان دو کھلاڑیوں نے انگریزوں کو خوب دوڑا دوڑا کر میچ راجیہ سبھا کی ٹیم کے نام کردیا۔ اور ابھی بھی کئی اوور باقی بچے تھے۔ انگریز ٹیم کو بعد میں معلوم ہوا کہ متبادل کھلاڑی اور لوک سبھا کے اراکین پیشہ ور کرکٹرا ظہر الدین اور بھارتی ٹیم کے مشہور اوپنر چیتن چوان تھے۔ یہ ایک طرح سے چیٹنگ تو تھی، مگر اس واقعہ نے اس میچ کو یاد گار بنادیا۔ پورا اسٹیڈیم قہقوں سے گونج رہا تھا۔ جولائی 2016 ء میں برھان وانی کی شہادت کے بعد جب کشمیر میں حالات کسی بھی صورت میں قابو میں نہیں آرہے تھے، میڈیا کے چنیندہ ایڈیٹروں کو حالات کی سنگینی کا احساس کروانے کیلئے حکومتی سطح پر بریفنگ کا اہتمام کیا گیا ۔ ملک بھر کے 17ایڈیٹر اور سینئر صحافی وزارت اطلاعات کے صدر دفتر میں سینئر وزاراء کی ایک ٹیم کے روبرو تھے۔ مودی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں وزراء اور قومی سلامتی کے مشیر کسی مسئلہ پر میڈیا کو حکومتی موقف اور اسکے مضمرات پر بریفنگ دے رہے تھے۔موجودہ نائب صدر جن کے پاس اسوقت وزیر اطلاعات و نشریات کا قلمدان تھا، نے نظامت سنبھالتے ہی تاکید کی کہ یہ ایک بیک گراونڈ بریفنگ ہے، اسلئے سوالات کے علاوہ وہ کھلی بحث اور مشوروں کے بھی طالب ہیں۔راج ناتھ سنگھ نے آغاز کرتے ہوئے گزارش کی کہ شورش کو کور کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیتے ہوئے، ملک میں کشمیری عوام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنانے سے گریز کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا جس طرح کشمیر ،کورکر رہا ہے اس سے کئی پیچیدگیا ں پیدا ہو رہی ہیں ۔ اس سے کشمیری عوام اپنے آپ کو مزید الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔ ان کے اور بھارتی عوام کے درمیان خلیج مزید وسیع اور گہری ہو تی جا رہی ہے۔ ان کی اس گفتگو پر جو میڈیا کو مفاہمت اور آوٹ ریچ کی تلقین پر مبنی تھی پر جلد ہی اورن جیٹلی نے پوری طرح پانی انڈیل دیا۔ حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے پچھلی عوامی شورشوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کا موجودہ عوامی ابال کے ساتھ موازنہ کیا۔ بقول انکے 1989ء کا عوامی احتجاج اور عسکریت کا آغاز 1987ئکے انتخابات میں بے حساب دھاند لیوں اور جمہوری عمل کی ناکامی سے منسلک تھا۔ 2008ء کی عوامی شورش جموں کے ہندو اکثریتی علاقہ اور وادی کشمیر کے درمیان چلی آرہی مخاصمت کا شاخسانہ تھی۔ 2010ء میں مقامی حکومت کی نااہلی اور سلسلہ وار ہلاکتوں کی وجہ سے عوام سڑکوں پر تھے۔ وزیر موصوف کا کہنا تھا کہ موجودہ شورش کسی بھی طور سے جمہوری عمل کی ناکامی یا آزادی کی تحریک نہیں ہے، بلکہ اسکے تار عالمی دہشت گردی سے جڑے ہیں۔ (جاری ہے) ’’ہمارے پچھواڑے (کشمیر) عالمی دہشت گرد تنظیمیںالقائدہ ،آئی ایس ایس اور طالبان جیسی تنظیمیں اپنے نظریات کے ساتھ حاوی ہو رہی ہیں، اسلئے ان کو کچلنا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے۔‘انہوںنے مزید کہا کہ بھارت کشمیر میں اس نظریہ کو روکنے اور سختی کے ساتھ کچلنے کیلئے وہی کچھ کر رہا ہے، جو امریکہ یا دیگر ممالک شام، عراق، افغانستان میں یا خود پاکستانی فوج اپنے علاقہ میں کر ر ہی ہے ۔ غرض کہ انہوں نے مبالغہ آمیزی سے کام لیکر کشمیر تحریک کو عالمی دہشت گرد تنظیموں سے جوڑ کر خطہ پر اسکے مضمرات کا ایسا نقشہ کھنچا کہ کانفرنس روم میں سب کو سانپ سونگھ گیا۔ اور اس تحریک کو خود ساختہ عالمی اسلامی جہادی تنظیموں سے منسلک کرنے کا ثبوت ان کے پاس یہ تھا کہ کشمیر میں قومیت کے بجائے اسلامی تشخص نئی نسل میں سرایت کرتا جا رہا ہے ، نیز مسجد و منبر اور جمعہ کی نماز کو سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ چونکہ ابتدا ہی میں کھلی بحث کی دعوت دی گئی تھی، میں نے جیٹلی کو یاد دلایا، کہ درگاہ و منبر کشمیر میں ہر دور میں سیاسی تحریکوں کی آماجگاہ رہے ہیں، کیونکہ اس خطہ میں جمہوری اور پر امن طریقوں سے آواز بلند کرنے اور آوٹ ریچ کے بقیہ سبھی دروازے اور کھڑکیا ں بند تھیں۔ خود شیخ محمد عبداللہ جیسے سیکولر لیڈر کو بھی عوام تک پہنچنے کیلئے درگاہ حضرت بل کا سہارا لینا پڑا۔ کسی سیاسی پلیٹ فارم کی عدم موجودگی میں مسجدیں اور خانقاہیں ہی اظہار کا ذریعہ رہی ہیں۔اس پر میٹنگ میں خاصی بحث ہوئی۔ جیٹلی اور دیگر وزراء کشمیر میں وہابیت کا ہوّا کھڑا کرکے عالمی برادری کے سامنے موجودہ تحریک کو عالمی دہشت گردی کا حصہ بنانے پر تلے ہوئے تھے ۔ میں نے پوچھا کہ اگر وہابیت اتنی ہی خطرناک ہے تو اکتوبر 2003ء میں آخر کس نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو سرینگر آنے کی ترغیب دی، آخر وہ کیسے گورنر اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے چہیتے ایس کے سنہا کے راج بھون میں مہمان بنے تھے؟ عرصہ دراز سے تحریک آزادی کے خلاف نظریاتی مورچہ بندی کیلئے بھارتی ایجنسیاں دیوبند اور دیگر اداروں سے وابستہ علماکی کشمیر میں کیسے مہمان نوازی کرتی آئی ہیں؟میں نے وزیر موصوف کو یاد دلایا کہ حال ہی میں شوپیاں میں پولیس نے سنگ باری کے الزام میں جن نوجوانوں کو گرفتارکیا ہے وہ پچھلے اسمبلی انتخابات کے دورران بی جے پی کے مقامی امیدوارکیلئے مہم چلا رہے تھے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ حریت کوئی باضابطہ تنظیم یاکیڈر پر مبنی نیٹ ورک نہیں بلکہ اس کے لیڈرکشمیریوں کے جذبہ آزادی کے نگران اور ترجمان ہیں۔یہ جذبہ آزادی پارٹی وفاداریوں اور نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہے۔ کسی سیاسی پلیٹ فارم کی عدم موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے میں نے کیا کہ کہ ہندو اکثریتی علاقہ کی جموں یونیورسٹی میں آر ایس ایس کے سربراہ آکر سیاسی تقریر کرتے ہیں، جبکہ 300کلومیٹر دور کشمیر یونیورسٹی میں کسی بھی سیاسی مکالمہ پر پابندی عائد ہے۔ ایک دہائی قبل کشمیر یونیورسٹی نے انسانی حقوق کا ڈپلومہ کورس شروع کیا تھا، چند سال بعد ہی اسکی بساط لپیٹ دی گئی، کیونکہ طالب علم سیاسی اور جمہوری حقوق کے متعلق سوال پوچھنے لگے تھے۔ اس ڈپارٹمنٹ کو بند کرنے کی وجہ بتائی گئی کہ کشمیر میں انسانی حقوق کے فیلڈ میں کیرئیر یا روزگار کی کمی ہے۔ میں نے کہا، کہ متبادل جمہوری مخرجوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے مساجد کو سیاسی طور پر استعمال کرنا تو ایک مجبوری بن گئی ہے اور یہ کشمیر کی پچھلے 500سالوں کی تاریخ ہے۔ وزیر وں نے یہ بھی بتایا کہ حریت کانفرنس کے رہنما اپنی شناخت اور عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں اور وہ کسی بھی صورت میں اسٹیک ہولڈر نہیں ہیں۔ میں نے سوال کیا کہ پھر آپ کو ان پر غصہ کیوں ہے کہ انہوں نے کل جماعتی وفد کے ارکان سے ملنے سے انکار کرکے پوری بھارتی پارلیمنٹ کو بے وقار کردیا؟ میں نے کہا کہ اگر یہ رہنما واقعتاً بے وقعت ہوچکے ہیں تو ان کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ جیٹلی کے بقول کشمیرکا روایتی اسلام خطرے میں ہے، وہاں وہابیت اور سلفیت وغیرہ نے جڑیں گاڑ لی ہیں جس کا تدارک ضروری ہے کیونکہ موجودہ تحریک کو یہی نظریہ لیڈ کر رہا ہے۔میں نے انکو یہ بھی یاد دلایا کہ 2010ئمیں انہوں نے اپنے گھر پر مجھے بتایا تھا کہ بی جے پی برسر اقتدار آتے ہی کشمیر کے مسئلہ کو حل کرے گی۔ وہ کسی حد تک من موہن سنگھ۔پرویز مشرف حل کو قابل عمل سمجھتے تھے، مگر لداخ اور جموں کیلئے وہ کوئی نیا نظم چاہتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی باور کرایا تھا ، کہ کشمیر وادی کے تعلق سے آرایس ایس اب اتنی سخت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آر ایس ایس اب کشمیر مسئلہ کو جموں کی دوربین سے نہیں دیکھنا چاہتی ہے۔ اسکا کریڈیٹ وہ خود لے رہے تھے۔مگر ان کا کہنا تھا کہ بطور اپوزیشن وہ من موہن سنگھ حکومت کو کوئی رعایت نہیں دیں گے۔کئی گھنٹوں تک چلنے والی یہ بریفنگ خاصی تلخ کلامی پر ختم ہوئی ْ ۔ باہر نکلنے سے قبل ہمیں دوبارہ بتایا گیا کہ یہ ایک بیک گراونڈ بریفنگ تھی اور یہ کسی بھی طورپر میڈیا میں رپورٹ نہیں ہونی چاہئے۔ مگر اگلے دن بھارت کے دو کثیر الاشاعت اخبارات ٹائمز آف انڈیا اور ہندوستان ٹائمز میں حکومتی ذرائع کے حوالے سے یہ بینرہیڈ لائن تھی اور پھر کئی ماہ تک چینلوں کیلئے کشمیر میں القائدہ اور آئی ایس ایس کی آمد روز کی خوراک بنی رہی۔ معلوم ہوا کہ ان اخباروں کے مدیران کو دیر رات ہدایت دی گئی تھی کہ جیٹلی کی بریفنگ کی رپورٹنگ کا حصہ چھپنا چاہئے ۔ شاید پاکستان نے دنیا بھر میں جو سفارتی مشن بھیجے تھے، اسکو ایک طرح سے سبو تاژ کرنا تھا ۔ کیونکہ دنیا کے جس ملک میں بھی یہ مشن گئے وہاں انکو کشمیر او راسکے عالمی دہشت گردی سے منسلک ہونے کے حوالے سے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ میری بے جا مداخلت اور سوال کرنے کی جراٗت سے جیٹلی اور وزراء خاصے ناراض تھے۔ اس دن انکا نیا چہرہ مجھ پر نمودار ہوگیا۔ اگلے چند دنوں کے بعد ہی مجھے آفس میں بتایا گیا کہ میرے خلاف چیرمین اور سی ای او آفس میں شکایت درج کی گئی ہے اورمیں اپنا بوریا بسترہ لپیٹ کر استعفیٰ تیار رکھوں۔ خیر جس آرگنائزیشن میں اسوقت کام کر رہا تھا ، انہوں نے نکالنے کے بجائے مجھے کالم لکھنے اور خاص طور پر کشمیر پر رپورٹنگ کرنے سے سختی سے منع کیا۔اسٹوریز پر میری بائی لائن پر پابندی لگ گئی۔ زندگی کی گاڑی چلانے اور کسی دوسری نوکری کو ڈھونڈنے تک میں نے حالات سے سمجھوتہ توکر لیا، مگر جیٹلی کا بدلا ہوا چہرہ مجھے ہضم نہیں ہوپا رہا تھا۔ چند برس قبل ہی بطور انفارمیشن منسٹر انہوں نے مجھے سینٹرل پریس ایکڑیڈیٹیشن کونسل کا ممبر نامزد کیا تھا۔بطور اپوزیشن لیڈر انہوں نے نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، کئی بار رپورٹنگ کے سلسلے میں مشوروں سے نوازا اور متعدد بار کسی نیوز اسٹوری کا سرا تھما دیا۔ خیر جیٹلی بی جے پی جیسی ایک مشکل پارٹی میں صحافیوں کا واحد سہارا اور پوائنٹ مین تھے۔ میں نے دیکھا کہ دہلی میں مقیم میرے متعدد ساتھیوں نے ٹویٹ کرکے لکھا کہ وہ یتیم ہوگئے ہیں۔ میں ان کے ساتھ مکمل اتفاق رکھتا ہوں۔ رگوں میں خون کی روانی سا تھا وہ شخص صحرا کی پیاس میں پانی سا تھا وہ شخص