’’ہمارے پچھواڑے (کشمیر) عالمی دہشت گرد تنظیمیںالقائدہ ،آئی ایس ایس اور طالبان جیسی تنظیمیں اپنے نظریات کے ساتھ حاوی ہو رہی ہیں، اسلئے ان کو کچلنا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے۔‘انہوںنے مزید کہا کہ بھارت کشمیر میں اس نظریہ کو روکنے اور سختی کے ساتھ کچلنے کیلئے وہی کچھ کر رہا ہے، جو امریکہ یا دیگر ممالک شام، عراق، افغانستان میں یا خود پاکستانی فوج اپنے علاقہ میں کر ر ہی ہے ۔ غرض کہ انہوں نے مبالغہ آمیزی سے کام لیکر کشمیر تحریک کو عالمی دہشت گرد تنظیموں سے جوڑ کر خطہ پر اسکے مضمرات کا ایسا نقشہ کھنچا کہ کانفرنس روم میں سب کو سانپ سونگھ گیا۔ اور اس تحریک کو خود ساختہ عالمی اسلامی جہادی تنظیموں سے منسلک کرنے کا ثبوت ان کے پاس یہ تھا کہ کشمیر میں قومیت کے بجائے اسلامی تشخص نئی نسل میں سرایت کرتا جا رہا ہے ، نیز مسجد و منبر اور جمعہ کی نماز کو سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ چونکہ ابتدا ہی میں کھلی بحث کی دعوت دی گئی تھی، میں نے جیٹلی کو یاد دلایا، کہ درگاہ و منبر کشمیر میں ہر دور میں سیاسی تحریکوں کی آماجگاہ رہے ہیں، کیونکہ اس خطہ میں جمہوری اور پر امن طریقوں سے آواز بلند کرنے اور آوٹ ریچ کے بقیہ سبھی دروازے اور کھڑکیا ں بند تھیں۔ میں نے پوچھا کہ اگر وہابیت اتنی ہی خطرناک ہے تو اکتوبر 2003ء میں آخر کس نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو سرینگر آنے کی ترغیب دی، آخر وہ کیسے گورنر اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے چہیتے ایس کے سنہا کے راج بھون میں مہمان بنے تھے؟ عرصہ دراز سے تحریک آزادی کے خلاف نظریاتی مورچہ بندی کیلئے بھارتی ایجنسیاں دیوبند اور دیگر اداروں سے وابستہ علماکی کشمیر میں کیسے مہمان نوازی کرتی آئی ہیں؟میں نے وزیر موصوف کو یاد دلایا کہ حال ہی میں شوپیاں میں پولیس نے سنگ باری کے الزام میں جن نوجوانوں کو گرفتارکیا ہے وہ پچھلے اسمبلی انتخابات کے دورران بی جے پی کے مقامی امیدوارکیلئے مہم چلا رہے تھے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ حریت کوئی باضابطہ تنظیم یاکیڈر پر مبنی نیٹ ورک نہیں بلکہ اس کے لیڈرکشمیریوں کے جذبہ آزادی کے نگران اور ترجمان ہیں۔یہ جذبہ آزادی پارٹی وفاداریوں اور نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہے۔ کسی سیاسی پلیٹ فارم کی عدم موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے میں نے کیا کہ کہ ہندو اکثریتی علاقہ کی جموں یونیورسٹی میں آر ایس ایس کے سربراہ آکر سیاسی تقریر کرتے ہیں، جبکہ 300کلومیٹر دور کشمیر یونیورسٹی میں کسی بھی سیاسی مکالمہ پر پابندی عائد ہے۔ ایک دہائی قبل کشمیر یونیورسٹی نے انسانی حقوق کا ڈپلومہ کورس شروع کیا تھا، چند سال بعد ہی اسکی بساط لپیٹ دی گئی، کیونکہ طالب علم سیاسی اور جمہوری حقوق کے متعلق سوال پوچھنے لگے تھے۔ اس ڈپارٹمنٹ کو بند کرنے کی وجہ بتائی گئی کہ کشمیر میں انسانی حقوق کے فیلڈ میں کیرئیر یا روزگار کی کمی ہے۔ میں نے کہا، کہ متبادل جمہوری مخرجوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے مساجد کو سیاسی طور پر استعمال کرنا تو ایک مجبوری بن گئی ہے اور یہ کشمیر کی پچھلے 500سالوں کی تاریخ ہے۔ وزیر وں نے یہ بھی بتایا کہ حریت کانفرنس کے رہنما اپنی شناخت اور عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں اور وہ کسی بھی صورت میں اسٹیک ہولڈر نہیں ہیں۔ میں نے سوال کیا کہ پھر آپ کو ان پر غصہ کیوں ہے کہ انہوں نے کل جماعتی وفد کے ارکان سے ملنے سے انکار کرکے پوری بھارتی پارلیمنٹ کو بے وقار کردیا؟ میں نے کہا کہ اگر یہ رہنما واقعتاً بے وقعت ہوچکے ہیں تو ان کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ جیٹلی کے بقول کشمیرکا روایتی اسلام خطرے میں ہے، وہاں وہابیت اور سلفیت وغیرہ نے جڑیں گاڑ لی ہیں جس کا تدارک ضروری ہے کیونکہ موجودہ تحریک کو یہی نظریہ لیڈ کر رہا ہے۔میں نے انکو یہ بھی یاد دلایا کہ 2010ئمیں انہوں نے اپنے گھر پر مجھے بتایا تھا کہ بی جے پی برسر اقتدار آتے ہی کشمیر کے مسئلہ کو حل کرے گی۔ وہ کسی حد تک من موہن سنگھ۔پرویز مشرف حل کو قابل عمل سمجھتے تھے، مگر لداخ اور جموں کیلئے وہ کوئی نیا نظم چاہتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی باور کرایا تھا ، کہ کشمیر وادی کے تعلق سے آرایس ایس اب اتنی سخت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آر ایس ایس اب کشمیر مسئلہ کو جموں کی دوربین سے نہیں دیکھنا چاہتی ہے۔ اسکا کریڈیٹ وہ خود لے رہے تھے۔مگر ان کا کہنا تھا کہ بطور اپوزیشن وہ من موہن سنگھ حکومت کو کوئی رعایت نہیں دیں گے۔کئی گھنٹوں تک چلنے والی یہ بریفنگ خاصی تلخ کلامی پر ختم ہوئی ْ ۔ باہر نکلنے سے قبل ہمیں دوبارہ بتایا گیا کہ یہ ایک بیک گراونڈ بریفنگ تھی اور یہ کسی بھی طورپر میڈیا میں رپورٹ نہیں ہونی چاہئے۔ مگر اگلے دن بھارت کے دو کثیر الاشاعت اخبارات ٹائمز آف انڈیا اور ہندوستان ٹائمز میں حکومتی ذرائع کے حوالے سے یہ بینرہیڈ لائن تھی اور پھر کئی ماہ تک چینلوں کیلئے کشمیر میں القائدہ اور آئی ایس ایس کی آمد روز کی خوراک بنی رہی۔ معلوم ہوا کہ ان اخباروں کے مدیران کو دیر رات ہدایت دی گئی تھی کہ جیٹلی کی بریفنگ کی رپورٹنگ کا حصہ چھپنا چاہئے ۔ شاید پاکستان نے دنیا بھر میں جو سفارتی مشن بھیجے تھے، اسکو ایک طرح سے سبو تاژ کرنا تھا ۔ کیونکہ دنیا کے جس ملک میں بھی یہ مشن گئے وہاں انکو کشمیر او راسکے عالمی دہشت گردی سے منسلک ہونے کے حوالے سے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ میری بے جا مداخلت اور سوال کرنے کی جراٗت سے جیٹلی اور وزراء خاصے ناراض تھے۔ اس دن انکا نیا چہرہ مجھ پر نمودار ہوگیا۔ اگلے چند دنوں کے بعد ہی مجھے آفس میں بتایا گیا کہ میرے خلاف چیرمین اور سی ای او آفس میں شکایت درج کی گئی ہے اورمیں اپنا بوریا بسترہ لپیٹ کر استعفیٰ تیار رکھوں۔ زندگی کی گاڑی چلانے اور کسی دوسری نوکری کو ڈھونڈنے تک میں نے حالات سے سمجھوتہ توکر لیا، مگر جیٹلی کا بدلا ہوا چہرہ مجھے ہضم نہیں ہوپا رہا تھا۔ چند برس قبل ہی بطور انفارمیشن منسٹر انہوں نے مجھے سینٹرل پریس ایکڑیڈیٹیشن کونسل کا ممبر نامزد کیا تھا۔بطور اپوزیشن لیڈر انہوں نے نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، کئی بار رپورٹنگ کے سلسلے میں مشوروں سے نوازا اور متعدد بار کسی نیوز اسٹوری کا سرا تھما دیا۔ خیر جیٹلی بی جے پی جیسی ایک مشکل پارٹی میں صحافیوں کا واحد سہارا اور پوائنٹ مین تھے۔ میں نے دیکھا کہ دہلی میں مقیم میرے متعدد ساتھیوں نے ٹویٹ کرکے لکھا کہ وہ یتیم ہوگئے ہیں۔ میں ان کے ساتھ مکمل اتفاق رکھتا ہوں۔ رگوں میں خون کی روانی سا تھا وہ شخص صحرا کی پیاس میں پانی سا تھا وہ شخص (ختم شد)