ان کے بقول کشمیرکا بھارت کے ساتھ الحاق حتمی ہے اور اس کو متنازع کہنے والے غیر حقیقت پسند ہیں۔ ممبر اسمبلی نے ان سے پوچھا کہ جموں وکشمیر کے تنازع کو تو خود بھارتی لیڈر ا ہی قوام متحدہ میں لے گئے تھے، اس میں کشمیریوں کا کیاقصور؟ وہ بے چارے تو صر ف وعدے کے ایفا ہونے کا مطالبہ کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس پر مولانا غصّے سے لال پیلے ہوگئے اور ہال چھوڑ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ کچھ منٹ انتظارکے بعد ہم بھی وہاں سے واپس چلے گئے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے 1995میں ہندو توا کو مذہب کے بجائے بھارتی کلچر کی علامت اور ایک نظریہ زندگی قرار دینے کے پیچھے مولانا کی سوچ کارفرما تھی۔ 1990کے انتخابات میں مہاراشٹرا میں شیو سینا کے لیڈر بال ٹھاکرے، منوہر جوشی اور کئی دیگر اراکین کی طر ف سے انتخابی جلسوں میں ہندووں ووٹروں کو لبھانے کیلئے مذہبی نعرے اور مذہبی شعار کے کھلم کھلا استعمال کرنے پر ری پرزنٹیشن آر پیپلز ایکٹ کے تحت ان کو نا اہل قرار دیکر انکے انتخابات لڑنے پر پابندی عائد کی گئی، جس کو بمبئی ہائی کورٹ نے درست قرار دیا۔ یہ کیس سپریم کورٹ تک پہنچا ، جہاں جسٹس جے ایس ورما کی قیادت میں ایک بنچ نے ہندو انتہا پسندوںکے گورو ویر ساورکر یا ایم ایس گولوالکر کی تصنیفات کے بجائے مولانا وحیدالدین خان کی تحریروںپر تکیہ کر کے ہندو تو کو نظریہ زندگی قرار دیکر ہندو انتہا پسندی کو ایک جواز فراہم کردیا۔اس کیس کی سماعت کے دوران ہی معروف قانون دان اے جی نورانی کی دلیل تھی کہ عدالت مولانا وحید الدین خان کی تحریروں کی غلط تشریح کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا اگرخود عدالت میں پیش ہو کر یا کسی تحریر کے ذریعے یہ موقف اختیار کریں، تو شاید کورٹ کو دوبارہ ویر ساورکر یا گولوالر کو ریفر کرنا پڑے گا۔ عدالت کا یہ فیصلہ دور رس اہمیت کا حامل تھا۔ انتخابی جلسوں میں اسی فیصلہ نے جے شری رام کے نعروں کوجواز بخش کر بھارتیہ جنتا پارٹی کیلئے ہندو ووٹروں کو لام بند کرنے کا کام کیا۔ مگر مولانا کا یہ موقف تو تھا کہ ان کی تحریروں کی غلط تشریح ہو رہی ہے، مگر کوئی عملی قدم انہوں نے کیوں نہیں اٹھایا، و ہ ایک راز ہی رہا۔ بقول نورانی اسی فیصلہ کی وجہ سے بطور انعام جسٹس ورما کو دو سال بعد چیف جسٹس اور بعد میں قومی انسانی حقوق کمیشن کا چیرمین مقرر کیا گیا اور اٹل بہاری واجپائی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت نے مولانا کو 2000ء میں اعلیٰ سویلین ایوارڈپدم بھوشن سے سرفراز کیا۔ اسی سال جنوری میں وزیر اعظم نریندر مودی حکومت نے بھی انکو پدم وبھوشن سے نوازا۔ ہندو فسطائی تنظیموں ، خاص طور پر آر ایس ایس کے ساتھ انکے خاصے دوستانہ تعلقات تھے۔ اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ آر ایس ایس کے ایک راہنما آنجہانی کے آر ملکانی اکثر جماعت اسلامی کے مرکز جو ان دنوں پرانی دہلی میں واقع ہوتا تھا ، تشریف لاکر بحث و مباحثہ میں شرکت کرتے تھے۔مگر مولانا شاید اس دوستی میں کافی دور نکل گئے تھے۔ تقریبا دو ہائی قبل آر ایس ایس کے ایک چوٹی کے لیڈراور ویشو ہندو پریشد کے جنرل سیکرٹری پروین بائی توگڑیا سے مکالمہ کرتے ہوئے ایک بار میں نے پوچھا کہ آیا مسلمان ، جو بھارت کے مکین ہیں کے بار ے میں ا نکی کیا رائے ہے۔ تو انکا کہنا تھا کہ مسلمانوں سے ان کو کوئی شکایت نہیں ہے اگر وہ ہندو جذبات کا خیال رکھیں۔ میں نے پوچھا کہ ہندو جذبات سے ان کی کیا مراد ہے؟ توان کا کہنا تھا۔ ‘‘کہ ہندو کم و بیش 32کروڑدیو ی دیوتائوں پر یقین رکھتے ہیں، ہمارے لئے یہ کوئی ناک کا مسئلہ نہیں کہ ہم پیغمبر اسلام کی بھی اسی طرح عزت افزائی کریں۔ مگر مسلمان اس کی اجازت نہیں دیتے ہیں، اور نہ ہی اپنے یہاں کسی ہندو دیوی دیوتا کی تصویر یا مورتی رکھتے ہیں‘‘ اپنے دفتر کی دیوار پربابا گورو نانک اور گورو گوبند سنگھ کی لٹکتی تصویر اور کونے میں مہاتما بدھ اور مہاویر کی مورتیوںکی طرف اشارہ کرتے ہوئے، انہوںنے کہا، کہ دیگر مذاہب یعنی سکھوں، بدھوں اور جینیوں نے ہندو ئوں کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سیکھا ہے، جو مسلمانوں کو بھی سیکھنا پڑے گا۔ مجھے یاد آتا ہے کہ گجرات فسادات کے بعد 2002 ء میں ایک مسلم وفد آر ایس ایس کے اْس وقت کے سربراہ کے سدرشن سے ملنے ان کے صدر فتر ناگ پور چلا گیا تھا۔ جس میں اعلیٰ پایہ کے مسلم دانشور شامل تھے۔ ملاقات کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کو کم کرنے کیلئے آرایس ایس کو قائل کرنا تھا اور اْن کے سامنے مسلمانوں کے نظریہ کو رکھنا تھا۔اس وفد کے ایک رکن کے بقول، ’’کہ جب ہم نے سدرشن جی سے پوچھا کہ کیا مسلمانوں اور ہندووٗں میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے؟ کیا رسہ کشی کے ماحول کو ختم کرکے دوستانہ ماحول میں نہیں رہا جاسکتا ہے؟‘‘اسکے جواب میں کے سدرشن نے مسلم وفد کو بتایا ’’کہ ضرور آر ایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم مسلمانوں کیساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کیلئے شرط ہے۔ آپ لوگ (مسلمان)کہتے ہو کہ اسلام ہی برحق اور سچا دین ہے، آپ ایسا کہنا چھوڑ دیجئے اور کہیے کہ اسلام بھی برحق اور سچا دین ہے تو ہماری آپ کیساتھ مفاہمت ہوسکتی ہے۔‘‘ اسلام ہی حق ہے کے بجائے اسلام بھی حق ہے، کا مطالبہ کرنا بظاہر ایک معمولی بات ہے او یہ مطالبہ اب فرقہ پرست ہی نہیں، بلکہ خود ساختہ لبرل مسلمانوں کی طرف سے بھی کیا جاتاہے۔ مگر غور کرنے کا مقام ہے کہ ا س مطالبے کو ماننے سے ایمان کا کیا حشر ہوجائیگا۔ مولانا کے سہل اور سائنسی انداز تحریر کی وجہ سے اور امن و امان پر زور صرف کرنے سے وہ بھارتی میڈیا کے بھی لاڈلے تھے۔ جب بھی کبھی ادراتی صفحات کے ایڈیٹروں کو اسلام کے حوالے سے مضمون کی ضرورت ہوتی تھی تو حکم ہوتا تھا کہ مولانا سے رابطہ کرکے ان سے مضمون لکھوایا جائے۔ کسی وقت میں مولانا کے بجائے ان کے صاحبزادے اور ملی گزٹ کے ایڈیٹر ڈاکٹر طفر الاسلام کا نام تجویز کرکے ان سے مضمون لکھنے کی گذارش کروانے میں کامیاب ہوجاتا۔ مگر مجھے یاد ہے کہ ادارتی صفحہ کے انچارچ پارسا وینکٹیشورا راوہ اور مونوبینا گپتا مولانا کے مضمون پر ہی اصرار کرتے تھے۔جن دنوں میں تعلیم ختم کرنے کے بعد نوکری کی تلاش میں تھا، تو ایک دن میںا ن ان سے درخواست کی کہ اردو اخبار قومی آواز میں رپورٹر کی جگہ خالی ہے، شاید ان کی سفارش سے کام بن جائے گا، تو ان کا جواب تھا کہ کبھی اردو اخبار کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھنا۔ انہوں نے کہا کہ کسی انگریزی اخبار میں اگر چپراسی کی بھی نوکری کرنی پڑے گی تو اس کوفوقیت دے دو۔ اسی طرح ایک بار سید حامد اور مولانا ابو الحسن علی ندوی نے ملک گیر سطح پر خاصا چندہ جمع کرکے مسلمانوںکے ایک قومی انگریزی اخبار نکالنے کا بیڑا اٹھایا۔ یہ اخبار پہلے ہفتہ وار One Nation Chronicleاور بعد میں ماہ نامہ کی صورت میں Nation and The World کے نام سے منظر عام ہر آکر غروب بھی ہو گیا۔ اس کی تیاری کے دوران میں نے ایک بار پھر ان سے سفارش کرنے کی درخواست کی، مگر انہوں نے پھر دھتکار دیااور کہا کہ یہ اخبار زیا دہ دیر چلنے والا نہیں ہے۔ بس انگریزی مین اسٹریم میڈیا کا دامن تھام کر جرنلزم کی سیڑھیاں طے کر لو۔ مولانا انگریزی یا ہندو وں کے شائع کردہ اخبارات یا میڈیا سے مرعوب تھے یا اردو یا مسلم میڈیا سے خائف تھے، پیچھے مڑ کر دیکھنے سے لگتا ہے کہ ان کا مشورہ نہایت ہی مناسب تھا۔مصلحت کے مطابق وہ مسلم مخالف ہندوتنظیموں اور مسلمانوں کے درمیان رابط کا ایک ذریع ہوسکتے تھے ۔ شاید وہ کوئی بڑا رول بھی ادا کرسکتے تھے، مگر افسوس، اکثر معاملات میں وہ خاصے دور چلے گئے تھے۔ جس میانہ روی کہ و ہ تلقین کرتے تھے وہ خود ان کے پاس موجود نہیں تھی۔ کبھی لگتا تھا کہ وہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے بی جے پی کے آلہ کار بنے ہوئے تھے اور اپنے دعووں کو اسی سانچے میں ڈھالنے کی کوششیں کرتے تھے۔وَاللّٰہ اَعلَم بِالصَّواب۔ میری تو بس یہی دعا ہے کہ اللہ ان کی لغزشوں کو معاف کرکے ان کی مغفرت فرمائے۔