مجھے وہ دن یاد ہیں جب میں نئے کپڑے پہن کر اپنے والد یا ماموں کی انگلی پکڑے خراماں خراماں اس سٹیڈیم کی طرف عید کی نماز پڑھنے جایا کرتا تھا۔ میرا بچپن بلکہ لڑکپن یہیں گزرا ہے۔ ہمیں ساہیوال والوں کو اپنے اس سٹیڈیم پر فخر تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اس خطے میں یہ پہلا سٹیڈیم تھا جہاں بڑی تقریبات منعقد ہو سکتی تھیں۔ مجھے یاد ہے میں بہت چھوٹا تھا کہ ہمارے گھر دوسرے شہروں سے مہمان آئے۔ وہ ہمارے بڑے کزن یا انکل تھے۔ وجہ تھی کہ یہاں غالباً پاکستان کی سطح پر قومی کھیلوں کا انعقاد ہونا تھا۔ اس کے لیے یہ جگہ چنی گئی۔ میں نے ہاکی اور کرکٹ کے سب سپر سٹاروں کو یہیں کھیلتے دیکھا ہے۔ یہ اسٹیڈیم ایک اوول کا حصہ ہے۔ جس کے دوسرے کونوںمیں فٹ بال اور ہاکی کے گرائونڈ بھی تھے۔ ہاکی کا گرائونڈ تو ایسا تھا کہ مصنوعی ٹرف آنے سے پہلے یہ ملک کے بہترین گرائونڈوں میں گنا جاتا۔ اس اوول کے وسط میں گرجا ہے۔ انگریز نے اس شہر کی تعمیر ہی ایسے کی تھی۔ اس انگریز کی یادگار بھی تھی جنہیں حریت پسندوں نے قتل کر دیا تھا۔ احمد خاں کھرل اور مراد بلوچ ہمارے ہیرو تھے۔ مگر اس کا علم ہمیں بہت بعد میں ہوا جب شہر کا نام منٹگمری سے بدل کر ساہیوال رکھ دیا گیا۔ جم خانہ کلب بھی اس اوول کا حصہ تھی۔ پھر تو اس کے ایک کونے میں ساہیوال آڈیٹوریم بھی بنا تھا جو اس وقت ملک کا سب سے بڑا آڈیٹوریم تھا۔ لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے نیو کیمپس سے بھی بڑا۔ ہاں یاد آیا 1957ء میں یہاں ایک محراب بھی تعمیر کی گئی۔1857ء کے شہیدوں کی یاد میں۔ میری ساری تاریخ اور اس شہر کا حسن اس خطے میں سمٹ آیا تھا۔ ان دنوں ایک سروے آیا جس میں اس شہر کو مغربی پاکستان کا سب سے صاف ستھرا شہر قرار دیا گیا مجھے یہ بھی یاد ہے کہ سب سے گندہ شہر کون سا تھا۔ نام نہیں لوں گا مبادا دل آزاری ہو جائے۔ یہ میں اس سٹیڈیم کا ذکر کر رہا ہوں جس میں نواز شریف نے ابھی کل ہی اپنا جلسہ کیا ہے اور جس کے بارے میں مریم نواز نے کہا کہ جب ہیلی کاپٹر سے وہ یہاں آ رہی تھیں تو انہوں نے اردگرد لوگوں کو جوق در جوق پیدل آتے ہوئے دیکھا۔ ہم ساہیوال کے لوگ جلسے جلوسوں کے بہت شوقین ہیںاس لیے مجھے یوں لگا کہ میں بھی اس ہجوم میں کھچا چلا آ رہا ہوں میں نے اس شہر میں بھٹو کا استقبال بھی کیا ہے۔ تب میں طالب علم تھا۔ ہم اصغر خان کے استقبال کے لیے شہر سے باہر نکل کر کئی میل دور تک یوسف والا تک جا پہنچے تھے۔ تب یہ سٹیڈیم جلسہ گاہ نہ تھی۔ بڑی سے بڑی جلسہ گاہ بلدیہ ساہیوال کی گرائونڈ ہوا کرتی تھی جہاں مرکزی اجلاس ہوا کرتے ۔ مجھے بھی میلاد کی محفلوں میں اپنے کندھوں پر تخت پوش اٹھا کر اس گرائونڈ کو سجانا یاد ہے۔ رک جائوں ورنہ بہت دور نکل جائوں گا۔ کیا خوبصورت شہر تھا۔ یہ ضلع کا صدر مقام تھا اور یہ ضلع موجودہ ساہیوال ڈویژن سے بھی بڑا تھا۔ میاں صاحب نے اس شہر میں یونیورسٹی کھولنے‘ میڈیکل کالج جاری کرنے کی بات کی ہے۔ اس لحاظ سے یہ شہر محروم چلا آ رہا ہے۔ کالج کی خوبصورت عمارت پہلے غالباً کسی ایسے تربیتی ادارے کے لیے بنی تھی جو بعد میں حسن ابدال میں بنایا گیا۔ ساہیوال کا موسم پسند نہ آیا تھا۔ اس کے طفیل ہمیں اس کالج میں پڑھنا نصیب ہوا جو ملک کے خوبصورت کالجوں میں سے ہے۔ یہیں پر عارضی طور پر انجینئرنگ کالج بھی قائم کیا گیا جو بعدمیں ٹیکسلا منتقل کر دیا گیا۔ میڈیکل کالج کے زمانے میں ان دنوں ہمارے ایک انکل نے بتایا کہ بھئی یہاں تو میڈیکل کالج کھول رہے تھے‘ بڑی مشکل سے روکا کہ خواہ مخواہ فحاشی پھیلے گی۔ یہ انکل ہمارے منتخب نمائندے تھے۔ ایک پرانی طرز کا معاشرہ تھا اس شہر کا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہاں علم و ادب اور شعروشاعری کے کئی دبستان مہکتے تھے۔ اصل کالم تو رہ گیا۔ صرف مریم نواز کے اس ایک فقرے کی وجہ سے کہ انہوں نے ہیلی کاپٹر پر اس شہر کی گلیوں اور بازاروں کو دیکھا جہاں میرا بچپن گزرا تھا۔ بچپن آدمی کو بھولتا نہیں۔ چند برس پہلے میں ایک طویل مدت کے بعد اس شہر میں گیا تو سوچا تھا کہ سٹیڈیم کے ساتھ قائم سٹیڈیم ہوٹل میں بیٹھ کر کم از کم چائے تو ضرور پیوں گا۔ یہ بھی ایک بے مثال جگہ تھی جہاں حضرت مجید امجد بیٹھتے تھا۔ اور جہاں منیر نیازی سے لے کر ظفر اقبال حاضری دیتے تھے۔ میری کئی شامیں یہیں گزری ہیں۔ مراتب اختر‘ ناصر شہزاد‘ اشرف قدسی سب اب مرحوم ہو چکے۔ یادوں کا ریلا جانے کہاں لے جا رہا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ایک بار سٹیڈیم ہوٹل میں چائے پینے کی حسرت لے کر یہاں گیا تھا۔ سب کچھ بدلا ہوا تھا۔ نہ وہ جوگی صاحب تھے نہ یہاں کے مشہور بیرے طفیل‘ شہاب الدین جو لاہور کے پاک ٹی ہائوس کے بیروں سے بھی زیادہ ادیب پرور تھے۔ اس کے مالک جوگی صاحب بڑے ادب دوست اور مرنجاں مرنج شخصیت تھے۔ تاہم وہاں جا کر ایک بہت بڑے دکھ سے دوچار ہوا۔ ہمارے بچپن کی خوبصورت یادوں میں سے ایک یادگار سٹیڈیم ہوٹل کی دیوار ایک جگہ ٹوٹی ہوئی تھی اور اندر گائیں‘ بھینسیں چرتی دکھائی دیں۔ کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کہ کس قدر دکھ ہوا ہو گا۔ آ کر ایک کالم بھی لکھا شاید ٹی وی پر بھی بات کی۔ یوں یاد ہے کہ لفظ کپکپا رہے تھے نہ ادا ہو رہے تھے نہ لکھے جا رہے تھے۔ تاہم اتنا یاد ہے کہ کچھ عرصہ بعد یہاں کے ایک منتخب نمائندے ملے۔ مجھے دیکھ کر میری طرف آئے اور بڑی عاجزی سے کہنے لگے۔ سر‘ آپ کی شکایت دور ہو گئی اب وہ دیوار مرمت کر دی گئی ہے۔ اب یہی اینٹیں ہماری عظمت افتادگی میں یہاں لاہور میں بیٹھا یہ محسوس کر رہا تھا کہ یہ اس شہر کا شاید سب سے بڑا جلسہ تھا۔شاید اس لیے کہا کہ میں تو ایک طویل عرصہ اس شہر سے دور رہا ہوں یہاں تقریریں بھی زور دار ہوتی ہوں گی مگر میں اس جلسے سے پہلے ہونے والی بیان بازی ہی میں مست ہوں۔ اس جلسے میں بھی نواز شریف نے یہ تک کہا کہ ان کا مقابلہ عمران اور زرداری سے نہیں‘ کچھ نادیدہ قوتوں سے ہے۔ ہمارے ہاں یہ سوال پوچھنے والے نیک نیتی سے ایسا نہیں کرتے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ ازراہ احتیاط ان قوتوں کا نام نہ لیا جائے۔ اس طرح وہ لاجواب ہو جائیں گے۔ یا اگر نام لیں گے تو ایک شور مچا دیا جائے گا کہ دیکھا‘ ملک کے مقتدر اداروں کو بدنام کیا جا رہا ہے اب یہ حیلے اور یہ احتیاطیں سب چھوڑیں‘ سب جانتے ہیں کیا کہا جا رہا ہے۔ اس بیانیے کے مقبول ہونے میں جتنے خطرات ہیں‘ ان کا بار بار ‘طریقے طریقے سے‘ اظہار کرتا رہا ہوں۔ مقصد صرف اتنا ہے کہ ملک کو اس بحران سے بچایا جائے جس کی طرف یہ بڑھتا جا رہا ہے۔ میں نے اس جلسے سے پہلے کی جس بیان بازی کا ذکر کیا وہ نواز شریف کا آصف زرداری کو جواب ہے۔ اس بیان میں اتنی حماقتیں ہیں کہ زرداری اب خود اس کی تردید کرتے پھر رہے ہیں۔ زرداری صاحب کے بارے میں یہ مشہور کر رکھا ہے کہ وہ بہت ذہین آدمی ہیں۔ ان اکیلوں نے سب کو آگے لگا رکھا ہے اس بیان میں انہوں نے یہ تک کہہ دیا کہ نواز شریف انہیں چکمہ دیتے رہے ہیں۔ وہ میاں صاحب کے کہنے پر یا ورغلانے پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لڑتے رہے ہیں اور انہیں لڑا کر میاں صاحب خود ایک طرف ہو جاتے رہے ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر اس بیان کا حوالہ دیا جو ان کے لیے اتنی بڑی مصیبت بنا کہ انہیں ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ انہوں نے واضح لفظوں میں فوج کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ اب ان کا کہنا ہے کہ یہ بیان بھی میاں صاحب کی باتوں کے جھانسے میں آ کر انہوں نے دیا تھا۔ چلیے یہ تو طے ہوا کہ زرداری کے ذہین ہونے کی بات ایک افسانہ تھی اور یہ بھی غیروں کا پھیلایا ہوا شوشا تھا کہ میاں نواز شریف بہت بھولے ہیں۔ یہاں تو نواز شریف انتہائی چالاک اور تیز و طرار نکلے اور زرداری نرے بدھو ثابت ہوئے۔ ویسے یہ کیسی ذہانت ہے جس کے نتیجے میں موصوف نے پورے پنجاب بلکہ سندھ کو چھوڑ کر پورے ملک میں پارٹی کا صفایا کرا دیا۔ یہ کیسی ذہانت ہے‘ کیسی سیاست ہے ہاں یہ درست ہے کہ انہوں نے ایک ڈیڑھ وزیر اعظم کی قربانی دے کر اپنے سارے جرائم کو استثنیٰ کی چادر چڑھا کر ڈھانپ دیا۔ جو لیڈر اپنے اوپر اپنی پارٹی قربان کر دے وہ کہاں کا ذہین ہوا۔ اب وہ واپس لوٹے ہیں تو بات بات سے پتاچلتا ہے کہ مفاہمت کر کے لوٹے ہیں۔ان کے بعض بیانات تو عمران کے امپائر کی انگلی والے بیان سے بھی زیادہ معنی خیز ہیں۔ بلوچستان کی حکومت گرانے کا کریڈٹ لینے کا دعویٰ کرکے وہ کس کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ جو کھیل وہاں کھیلا گیا‘ اس نے ان کو مزید بے نقاب کر دیا۔ پیپلز پارٹی میں چونکہ خاصے سیاسی ذہن موجود ہیں اس لیے وہ بڑی ذہانت سے پارٹی کو اپنے پائوں پر کھڑے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کو بھی پتا ہے کہ جوڑ توڑ تو زرداری کریں گے‘ مگر سامنے انہیں دوسرا قائد لانا پڑے گا ان کی مجبوری یہ ہے کہ یہ دوسرا قائد بلاول ہے۔ نواز شریف نے یاد دلایا ہے کہ جب زرداری نے یہ بیان دیا تھا تو شام ہی کو انہیں اس بارے میں حکومتی ردعمل سے آگاہ کر دیا گیا حتیٰ کہ اگلے روز ان سے ملاقات طے تھی جو منسوخ کر دی گئی۔ اب لوگ کہتے تھے یہ ملاقات نہ کر کے میاں صاحب نے زرداری سے مخالفت کی بنیاد رکھی۔ اس بات پر مزید تبصرے کی ضرورت نہیں۔ زرداری اپنے ساتھیوں بالخصوص ڈاکٹر عاصم پر قائم مقدمات کے حوالے سے جو دبائو ڈالنا چاہتے تھے وہ الٹا گلے پڑ گیا اور وہ ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔ ایک سیاسی جماعت کے طور پر میں پیپلز پارٹی سے ہمدردی رکھتا ہوں‘ مگر اس ساری چکر بازی کا تو کوئی جواز نہیں ہے۔ زرداری صاحب کے اور بیانات بھی ہیں جنہیں ذرا دلچسپی اور سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے۔ خاص طور پر سی پیک کے حوالے سے وہ جو کہتے ہیں‘ اس بارے میں بھی کئی حقائق سامنے لائے جا سکتے ہیں۔ شاید اس وقت مصلحت کا تقاضا ہے کہ خاموش رہا جائے‘ ورنہ زرداری صاحب تو لگتا ہے سب یہ کہہ رہے ہیں کہ سی پیک اور ون روڈ‘ ون بیلٹ کا پورا تصور ہی چین نے ان سے لیا ہے۔ ہمارے ہاں ایسے لوگ موجود رہے ہیں جو اس قسم کی باتیں کہا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ایک صاحب بتایا کرتے تھے کہ ان کا کالم پڑھ کر چواین لائی نے اپنی پالیسی بدل لی یا امریکہ کے صدر ریگن نے اپنے موقف میں اصلاح کر لی۔ خدا کا خوف کرو۔ یہ باتیں اب بکنے کی نہیں۔ اگر سچ مچ‘ آپ کا انحصارنادیدہ قوتوں پر نہیں‘ تو یہ سب مذاق بن کر رہ جائیں گے۔