گذشتہ روز حریم شاہ سے متعلق ایک خبر نشر ہوئی،جس میں ٹک ٹاک اسٹار برہم دکھائی دی کہ اُس کے بار ے غیر مصدقہ اور من گھڑت باتیں عام کی جارہی ہیں،مجھے یہ خبر پڑھ کر قطعی حیرت نہیں ہوئی۔ایک ایسی ٹک ٹاکر جو من گھڑت خبروں کی تشہیر کی بنیاد پر اِن رہنے کا ہنر رکھتی ہو،اُس کو کیسی برہمی؟تاہم حریم شاہ ایک بارپھر خبروں میں چھائی پڑی ہے ،حالیہ عرصہ میں خبروں میں نمایاں ہونے کی شروعات،شادی کی خبر سے ہوئی ،جب حریم شاہ نے دعویٰ کیا کہ اُس کی شادی ہوچکی ہے اور اُس کے شوہر پیپلزپارٹی کے رُکن سندھ اسمبلی ہیں،رُکن سندھ اسمبلی پہلے سے شادی شُدہ ہیں ،جیسے ہی یہ اپنی پہلی بیوی کودوسری شادی پر رضامند کرلیں گے تو باضابطہ طورپر شادی کا اعلان کردوں گی۔حریم نے شادی کی خبرسے پہلے ایک تصویر شیئر کی تھی،جس میں مَردانہ کلائی میں گھڑی بندھی ہوئی تھی اور نسوانی ہاتھ کی اُنگلی میں انگوٹھی جگمگ کررہی تھی۔حریم نے شادی کے اعلان سے قبل انسٹاگرام پر مَردانہ ہاتھ کی تصویر شیئر کی،جس کو فوری بعد ڈیلیٹ بھی کردیا،بعدازاں جب اُس نے یہ کہا کہ اُس کے شوہر پیپلزپارٹی کے اہم وزیرِ ہیں،لوگوں کی بڑی تعداد مَردانہ ہاتھ کی تلاش میں مصروف ہوگئی،پیپلزپارٹی سے وابستہ صوبائی وزراء اور ایم پی ایز کی کلائیوں پر نظر دوڑائی جانے لگی۔سندھ کے صوبائی وزراء صفائیاں دینے لگ پڑے۔سماجی سطح پر چہ مگوئیوں میں اضافہ ہوا،کئی اہم وزراء کے نام سرگوشیوں میں لیے جانے لگے۔سعید غنی ،جو کہ صوبائی وزیرِ تعلیم ہیں ،نے ٹوئٹ کے ذریعے اپنی خوشحال زندگی کی بابت بتایا کہ وہ اپنی واحد بیوی اور بچوں کے ساتھ پُرمسرت زندگی گزاررہے ہیںاور کہا کہ وہ حریم کو نہیں جانتے،نہ کبھی ملے ہیں،بعدازاں اُن کی بیٹی نے باپ کی ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کیااور لکھا کہ اُن کی فیملی خوش گوار زندگی گزاررہی ہے۔ اگرچہ حریم کے شیئر کردہ مَردانہ ہاتھ کا دعوے دار سامنے آگیا ،اُس نے جو لباس پہن رکھا تھا ،اُس کی حقیقت بھی سامنے آگئی کہ کس موقع پر یہ پہنا گیا تھا،مگر سندھ کے پی پی پی کے رہنمائوں کی تشویش اور اُن سے متعلق شکو ک وشبہات تھمنے میں نہ آئے۔صوبائی وزیرِ تعلیم سندھ ،سعید غنی کے بعد وزیرِ اطلاعات سندھ ناصر حسین شاہ نے ٹوئٹ کے ذریعے حریم کی شادی پر ردِعمل دیا۔اُن کی ٹوئٹ کا ایک ٹکڑا یہ تھا کہ حریم شاہ بھی دوسری بیٹیوں کی طرح ہماری بیٹی ہے ،جو لوگ بھی اس کے پیچھے ہیں ،اُن کو شرم آنی چاہیے،ایک عورت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے۔صوبائی وزیرِ اطلاعات سندھ نے جہاں اپنی ذات سے متعلق صفائی دی ،وہاں حریم کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں کو تنبیہ بھی کی۔اسی طرح مرتضیٰ وہاب نے بھی صفائی پیش کی اور ایم پی اے ذوالفقار شاہ نے سوشل میڈیا پر گردش کرتی تصویر کو جعلی قراردیا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ایک ایسی خاتون ،جس کی شہرت مختلف اسیکنڈل کی مرہونِ منت چلی آرہی ہو(یہ الگ معاملہ کہ نامور سیاست دانوں اور اہم دفاتر تک ،اُس کی رسائی رہی ہے)اس تناظر میں اُس کے کسی بیان کی کوئی سماجی اہمیت نہیں،لیکن ایک تصویر کچھ دیر کے لیے شیئر کرنے اور شادی کا دعویٰ کرنے کی اگلی ساعتوں میںاہم عوامی شخصیات ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگ پڑیں،پھر صفائیاں دینا شروع کردیںاور صحافیوں کے نزدیک حریم کی شادی اہم واقعہ بن جائے اور وہ کلائی میں بندھی گھڑی ڈھونڈنے کے لیے ہر کلائی کو غور سے دیکھتے پھریں…کیا یہ سب حیران کن نہیں؟اور افسوس ناک بھی۔تو ایسا کیوں؟ایک مریض نما خاتون کے ایک بیان نے بھونچال کیوں برپا کردیا؟اس کا جواب کون دے گا؟ٹی وی ٹاک شوز کے اینکرز اس سوال سے جڑی ثقافت کی حساسیت سے واقف ہیں؟جامعات میں گھنٹوں گھنٹوں مسلسل بولنے والوں کے پاس اس سماجی ابتری کی توجیہہ کے چند الفاظ ہیں؟ حریم کے ایک بیان اور انسٹا گرام پر شیئر کی گئی ،ایک تصویر نے ہماری سماجی اخلاقیات سمیت تہذیبی کھوکھلے پَن کو واضح کردیا ہے۔ہمارے منتخب نمائندے ،جن کو ہزاروں اور لاکھوں افراد ووٹ دے کر اُن پر اعتماد کرتے ہیں ،متنازعہ ٹک ٹاکر کے ایک بیان کی محض ’’مار‘‘ ہیں۔ مَیں کسی شخصیت پر الزام نہیں لگارہا ،بلکہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جن کو لوگ’’ شخصیات‘‘ سمجھتے ہیں،وہ تو ایک بیان کی تاب نہیں لاسکتیںاور زمین بوس ہوجاتی ہیں۔ہماراسماجی کردار کس طرح کا تشکیل پارہا ہے؟ اس قدر بُودا کہ ایک بیان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوتا ہے۔ حریم کے ایک بیان نے ہماری سماجی مباحث کے رُخ کو موڑ کر رکھ دیا۔ہمارے دامن اتنے نازک کیوں ہوچکے کہ آن کی آن میںکوئی بھی تارتارکردے۔مجھے لگتا ہے کہ ہماری بنیاد زمین پر نہیں،اس کے اُوپر کہیں معلق ہے،جو ہر وقت ڈولتی رہتی ہے۔جس کو ہوا کا ایک نحیف سا جھونکا ،ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں،ایک روز غیر اخلاقی ویڈیو جاری ہوتی ہے ،دوسرے روز اُجلا لباس پہن کر صفائی دیتے ہیں کہ ویڈیو تو جعلی تھی۔معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں ،عذر پیش کرتے ہیں کہ نشہ پلایاگیا۔حریم کا بیان ،اس سے بھی زیادہ ہلچل مچا سکتا تھاکہ حریم کی رسائی بہت ہے۔ حریم کی رسائی ہماری تہذیبی و شخصی کھوکھلے پَن کی مرہونِ منت ہے۔جو آدمی اپنے پائوں پر کھڑارہ سکتا ہے ،اُس کو کوئی نہیں گرا سکتاکہ پیڑ اس لیے بڑے ہوتے ہیں،اپنے پائوں پر کھڑے ہوتے ہیں لیکن جس کے پائوں ہی نہ ہوں ،اُس کو پکڑ پکڑ کر کھڑا نہیں کیا جاسکتا۔چونکہ ہم اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہیں یا پھر ہمارے پائوں ہی نہیں ہیں،اس لیے ہم کسی وقت گر بھی سکتے ہیںاور ڈگمگا بھی۔حریم کا ایک بیان ہماری دستار گرادے،المیہ ہے۔بہت بڑا المیہ۔