پوری دنیا میں ابھی جیک ما(Jack ma)کی انوکھی الوداعی پارٹی کی دھوم ہے جس میں اس نے 80ہزار تماشائیوں کے سامنے میوزک انسٹرومنٹ بجائے۔ گانے گائے اور رقص کیا۔جیک ما کو دنیا علی بابا کے سی ای او کی حیثیت سے جانتی ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی دنیا اسے اس صدی کا سب سے بڑا ای کامرس ویژنری مانتی ہے۔علی بابا کو دنیا کی سب سے بڑی آئن لائن ریٹیلر کمپنی کہا جاتا ہے۔ جیک ما اس کا بانی اور کرزمیٹک شخصیت رکھنے والا ویژنری ہے جو خود کو صرف استاد کہلانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ اس نے 55برس کی عمر میں اپنی قابل رشک ای کامرس ایمپائرکو چھوڑنے کا فیصلہ کیوں کیا جبکہ اس کی صحت اور فٹنس ایسی شاندار ہے کہ وہ بمشکل چالیس ‘ پینتالیس کا دکھائی دیتا ہے۔ اس نے یہ اعلان کر کے دنیا کو حیران کر دیا کہ وہ علی بابا کی سی ای او شب چھوڑ کر اب صرف استاد بننا چاہتا ہے نئی نسل کو پڑھانا۔ اسے اپنے تمام کاموں سے زیادہ عزیز ہے۔ یہ بڑا فیصلہ وہ گزشتہ برس ستمبر 2018میں ہی کر چکا تھا اس نے Ali babaکے تمام شیئر ہولڈز ایگزیکٹو ممبر کے بورڈ اور تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک کھلا خط لکھا اور کہا کہ وہ علی بابا میں اپنا کردار مکمل کر چکا ہے وہ نئے آنے والوں کو راستہ دینے پر ایمان کی حد تک یقین رکھتا ہے اب وہ علی بابا کی لیڈر شپ ڈینل ینیگ کے حوالے کر کے اپنے پرانے خواب کی طرف لوٹ جائے گا۔ جیک ما نے اپنے خط میں ریٹائرمنٹ کی جو وجوہات لکھیں وہ ہمارے جیسے ملک کے لوگوں کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہیں جہاںہر ادارے کا سربراہ سیاسی جماعت کا صدر یا چیئرمین خود کو ناگزیر سمجھتا ہے۔ جیک ما اپنے اس تاریخی خط میں لکھتا ہے کہ ’’کوئی بھی ادارہ اپنے بانیوں کے سر پر قائم نہیں رہ سکتا نئی سوچ اور نئی لیڈر شپ کو پروان چڑھا کر انہیں رہنمائی کرنے کا موقع دینا ضروری ہوتا ہے تبھی ادارے آگے بڑھتے ہیں میں (Danial yangکو نیا سی ای او مقرر کر رہا ہوں۔ ڈینیل نے فنانشل آفیسر کی حیثیت سے علی بابا کو جوائن کیا اس نے اپنی innovativeسوچ اور مینجمنٹ کی صلاحیتوں سے ہمیں متاثر کیا۔ اس کے اندر Systematic thinkingکی جو صلاحیت ہے میں اس کی اپنے اندر کمی محسوس کرتا ہوں۔ علی بابا کے سترہ شریک بانی ہیں ہم نے 20سال پیشتر علی بابا کی بنیاد ایک اپارٹمنٹ میں رکھی تھی میں ایک استاد ہوں اور اسی جذبے سے میں نے علی بابا کے اندر نئی نسل کو اپنا تجربہ ویژن اور جذبہ منتقل کیا ہے میں نے بیس سال نئی لیڈر شپ کو سکھایا سنوارا اور ان کی سوچ کو نکھارا ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ میں علی بابا کی باگ ڈور اگلی نسل کے حوالے کروں۔ میں اگلے برس ستمبر 2019ء میں علی بابا سے ریٹائر ہو کر پھر سے ٹیچنگ کروں گا۔ اس نے اپنی ذات کو دنیا کی سب سے بڑی آئن لائن ای بزنس کمپنی کے لئے ناگزیر سمجھا جس کی بنیاد بھی اس نے رکھی تھی۔ اس شاندار کامیابی میں جیک ما کا خون جگر شامل تھا یہ کمپنی اسی شہ دماغ کا برین چائلڈ حیرت ہے۔ اس نے طاقتور اور گلیمرس ترین عہدہ چھوڑ کر صرف ایک استاد بننا گوارا کیا۔ وہ کیوں استاد ہونے سے اتنی محبت کرتا ہے اس کا جواب جیک ما نے یوں دیا کہ آج اگر میں علی بابا کی باگ دوڑ نئی نسل کے ہاتھ میں دے کر مطمئن ہوں تو اس کی وجہ میرا استاد ہونا ہے۔ صرف ایک استاد ہی اتنا فیاض ہوتا ہے کہ اپنا علم تجربہ اور ویژن اگلی نسل میں منتقل کر کے خوشی محسوس کرتا ہے۔ صرف ایک استاد ہی اتنا اعلیٰ ظرف ہوتا ہے کہ وہ اپنے طالب علموں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خوش ہو۔ صرف ایک استاد ہی ایسی نظر رکھتا ہے کہ طالب علموں کی پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچان کر ان کی آبیاری کرے، انہیں سنواریے اور نکھاریے جیک ما کی زندگی کی کہانی ہر شخص کو کوشش اورجدوجہد کی تحریک دیتی ہے جو زندگی میں اپنے خواب کی تکمیل کے لئے سرگرداں ہیں ہر اس شخص کو جیک ما کی زندگی سے کبھی ہار نہ مانواور کوشش کرتے رہو کا سبق ملتا ہے جو بار بار ناکامی سے دوچار ہوتا ہے اور ہمت ہار جاتا ہے۔ 396بلین ڈالر کے اثاثوں کی مالک Ali babaکمپنی کا گروپ چیئرمین جیک مانے جب یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد عملی زندگی کا آغاز کیا تو 30بار نوکری حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ یعنی 30اداروں نے اس کو نوکری دینے سے انکار کیا۔ اس نے ہمت نہیں ہاری انگلش لینگویج کی ڈگری کی بنیاد پر اسے ایک سکول میں بالآخر پڑھانے کی نوکری مل گئی۔ اسے اپنی ٹیچنگ کی نوکری سے محبت تھی لیکن اس کے باوجود اس کے ذہن میں مستقبل کا ایک خاکہ موجود تھا جس کی تحریک اسے مہاتیر محمد کے ای ویژن سے ملی۔ملائشیا کا صدر اس وقت 72سال کی عمر کا تھا اور جیک ما کی عمر 33برس تھی جب جیک ما نے ملائشیا کے شہر پتراجیا کا دورہ کیا اور وہاں ملٹی میڈیا سپر کوریڈور جیسے MSCکے مخفف سے پکارا جاتا ہے کو دیکھا اور وہ مہاتیر کے ای ویژن سے بہت متاثر ہوا۔1995ء میں اس نے چائنا کی پہلی انٹرنیٹ کمپنی اپنے اپارٹمنٹ میں قائم کی۔ وہ کہتا ہے کہ اس وقت میرا یقین پختہ ہو گیا تھا کہ آنے والے وقت میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی لوگوں کو اور معاشرے کو آگے لے جا سکتی ہے۔ اگلے بیس برسوں میں اس نے یہ کر دکھایا۔ جیک ما عالمی بزنس فورمز پر سرمایہ کاروں اور نوجوانوں کے سامنے مہمیز دینے والی تقریریں کرتا ہے تو اپنی اس کامیابی کے پیچھے یہ راز بتاتا ہے کہ اس نے ہمیشہ اپنی کمپنی میں اپنے سے زیادہ باصلاحیت نوجوانوں کو ہائر کیا ہے جو آگے چل کر اس کے بھی باس بن سکیں۔ اور آج اس یقین کے ساتھ وہ دنیا کو بتا رہا ہے کہ کبھی کوئی ادارہ کوئی کمپنی اس وقت تک آگے نہیں جا سکتی جب تک اس میں نئی لیڈر شپ کو آگے آنے اور کام کرنے کا موقع نہ دیا جائے۔ پانی ایک جگہ کھڑا رہے تو اس میں بھی بدبو پیدا ہوجاتی ہے اور ادھر ہم ہیں کہ شخصیت پرستی اورمور و ثیت کے بدبودار نظام میں ستربر سوں سے جکڑے ہوئے ہیں۔نواز شریف کے بعد مریم نواز اور زرداری کے بعد بلاول زرداری اس قوم پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ جیک ما اپنی کامیابی کو اپنی ٹیم کے نام کرتا ہے اور ہم ’’میں‘‘ کی گردان سے باہر نہیں نکلتے میں کسی کو بھاگنے نہیں دوں گا، میں جیل میں ڈال دوں گا۔ جیک ما کہتا ہے کوئی شخص ہمیشہ ناگزیر نہیں ہوتا۔ تو ان کی اور صلاحیت کی ایک حد ہوتی ہے۔ نئے زمانے کو قیادت درکار ہوتی ہے اور ہم کہتے ہیں کہ ہم ناگزیر ہیں یہاں پرانے گھاگ دیمک زدہ سوچ والے عہدوں سے چمٹے رہتے ہیں نئے آنے والے اگر باصلاحیت تو ان سے خوف زدہ ہو کر عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہمارے سماج کی ذہنیت اس شعر سے آشکار ہوتی ہے۔ یہ ارتقاء کا چلن تھا کہ ہر زمانے میں پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے تھے کہاں ای بزنس ویژنری جیک ما اور کہاں ہم!