الیکشن مہم تمام ہوئی، اب کل وہ دن طلوع ہوگا جس کی شام یہ خبر لائے گی کہ کون جیتا، امپائر جو 2014ء سے اس دن کی تاک میں تھا۔ اس ملک میں امپائر اور عوام کا کبھی آمنا سامنا نہ ہوا۔ اور ایسا اس لئے نہ ہوپایا کہ ہاتھی کی طرح امپائر کے بھی دکھانے والے دانت الگ اور کھانے والے الگ ہیں۔ جب بھی عوام اس کے کھانے والے دانتوں کی جانب متوجہ ہوئے اس نے فورا دکھانے والے دانتوں کی نمائش شروع کردی۔ اور لوگ ان دانتوں کو دیکھ کر قدیم افریقی قبائل کی طرح سجدے میں گر جاتے۔ ہاتھی کے تو چھبیس دانت ہوتے ہیں لیکن ہمارے امپائر کے اس سے دگنے سے بھی تین زیادہ ہیں۔ اس کے دانت اتنے زیادہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ اسے کھانا بہت زیادہ ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کے دانت اتنے زیادہ صرف اس کے قد کاٹھ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی خوش خوراکی کے سبب بھی ہیں۔ یہ اپنی خوش خوراکی کا حوالہ بالکل پسند نہیں کرتا۔امپائر سے چھوٹے صوبوں کو ہمیشہ شکایات رہی ہیں، پنجاب کو البتہ پہلی بار اس سے شدید تحفظات لاحق ہیں۔ امپائر سمجھنے سے انکاری ہے کہ جمہوریت تنگ آمد بجنگ آمد کی صورتحال کے لئے ایک زبردست ڈھال ہے لہٰذا اسے اس ڈھال کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرنی چاہئے۔ مگر امپائر سمجھتا کہاں ہے ؟ عوام لڑائی نہیں چاہتے۔ انہیں کوئی پسند آجائے تو اسے اپنے ووٹ کی پرچی سے نواز دیتے ہیں۔ کوئی ناپسند ہوجائے تو ووٹ کی ہی پرچی سے چلتا کر دیتے ہیں۔ کچھ زیادہ ہی ایمرجنسی ہوجائے تو بڑی عوامی قوت کا پر امن استعمال کرکے اسے اقتدار سے نکال باہر کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے امپائر کو اس عوامی اختیار میں دخل دینے کا قدیمی شوق ہے۔ چند کٹھ پتلیاں تھیں، جو پتلی تماشا کرتی رہیں لیکن عوام کو متاثر کرنے میں وہ کامیاب نہ ہوسکیں،نتیجہ یہ کہ امپائر کی انگلی نہ اٹھ سکی۔ وجہ یہی رہی کہ جتنی مصنوعی قوت اس انگلی کے اٹھنے کے جواز کو درکار تھی وہ قوت جمع نہ کی جاسکی۔ خیال تھا کہ جب کٹھ پتلیاں حکومت کو چلتا کردیں گی تو فوری الیکشن کی صورت کٹھ پتلیوں کا ہی جیتنا یقینی رہے گا۔ کسی لمبے چوڑے تردد کی ضرورت ہی نہ پڑے گی۔ بس ایک عدد فری اینڈ فیئر الیکشن ہی کافی رہے گا۔ لیکن کٹھ پتلیاں فیل ہوگئیں۔ یوں امپائر کو پلان میں کچھ رد و بدل کرنا پڑ گیا۔ اس کا رد و بدل والا منصوبہ بھی وہی پرانا گھسا پٹا منصوبہ ہی تھا مگر وہ عوام جو کٹھ پتلیوں کے لئے نہ نکلے تھے وہ نکالے گئے، حکمران کے لئے نکل آئے۔ یہ دیکھ کر امپائر کی انابری طرح مجروح ہوئی ہے۔ اس کے ہر ہر قدم میں غصہ اور جھنجلاہٹ صاف نظر آرہی ہے۔ یہی جھنجلاہٹ اس سے وہ غلطیاں کروا رہی ہے جن کے انتہائی خطرناک نتائج نکلنے کا اندیشہ ہے۔ صاحب دانش اسے مستقل مشورہ دیئے جا رہے ہیں کہ انا پرستی کے نتائج ہمیشہ تباہ کن نکلے ہیں لیکن امپائر تو جیسے زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ میرا جو جی چاہے گا وہ کروں گا۔ اگر کسی میں ہمت ہے تو مجھے روک لے۔ قوم سمجھدار ہے۔ وہ جانتی ہے کہ انتخابات کو ٹالنا امپائر کی اہم خواہشات میں سے ایک ہے۔ اسے سب سے زیادہ یہ انتخابات ہی تو برے لگتے ہیں۔ وہ سوچتا ہے کہ جب امپائر وہ ہے تو ہر چیز اس کی انگلی کے اشارے سے ہونی چاہئے۔ عوام کون ہوتے ہیں حکمران چننے والے ؟ قوم چاہتی ہے ایک بار یہ یوم انتخاب منعقد ہولے بس۔ عوام کو پرچی کی طاقت استعمال کرنے کا موقع مل جائے۔ ایسا ہونے کا یا تو یہ فائدہ ہوجائے گا کہ عوامی اختیار خود کو منوا لے گا اور یا یہ کہ جس کا امکان ایک خدشے کے طور پر ظاہر کیا جا رہا تھا وہ حقیقت میں بدل جائے گا۔ اس کے بارے میں جو دعوے کئے جا رہے ہیں وہ 25 جولائی کو غلط بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایک بار یہ پچیس جولائی گزر گئی اور امپائر کو ایج دینے والوں نے یہ دیکھ لیا کہ امپائر تو واقعی ویسا ہی کر گیا جیسا کہا جا رہا تھا تو یہ بھی پہلی بار پکار اٹھیں گے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ پھر امپائر ہوگا عوام ہوں گے اور رقص میں سارا جوبن ہوگا۔ سو کل کا دن بے پناہ اہمیت کا حامل ہے۔ ووٹ کے لئے ضرور نکلئے۔ کیونکہ کل صرف حکمران نہیں چنے جانے بلکہ یہ بھی طے ہونا ہے کہ مرضی عوام کی چلے گی یا امپائر کی ؟ امپائر کو کٹھ پتلیاں درکار ہیں اور عوام کو حکمران !