جکارتہ (ویب ڈیسک) انڈونیشیا میں اولووتو مندر کے اردگرد مقیم لمبی دم والے بندر جان بوجھ کر سیاحوں سے قیمتی اشیا چوری کرنے لگے ہیں تاکہ ان کے بدلے بہتر خوراک حاصل کی جا سکے۔ محققین نے دریافت کیا ہے کہ ان کاروباری بندروں کو یہ پیچیدہ علم حاصل ہے کہ سیاح کون سی اشیا کو سب سے زیادہ قیمتی سمجھتے ہیں اور کون سی چیز کے بدلے انہیں کھانے میں بہتر بدلہ مل سکتا ہے۔ زیاد ہ تر بندر موبائل فون، بٹوے اور کیمرے جیسا سامان چوری کرتے ہیں اور ان کے بدلے کچے انڈے ، پھلوں کا تھیلا اور خستہ بسکٹ کی خواہش کرتے ہیں۔ کینیڈا کی یونیورسٹی آف لیتھ برج کی ٹیم نے بالی کے مندر میں 273 دن گزارے اور بندروں اور سیاحوں کے درمیان دو ہزار سے زائد رابطوں کو ریکارڈ کیا۔انہوں نے ان اشیا کے بدلے بندروں کو دی جانے والی خوراک کی ایک قدر متعین کی اور اپنی اشیا واپس پانے کے خواہش مند سیاحوں کو مندر کے عملے کی جانب سے فراہم کردہ خوراکوں میں تین ترجیحات کا مشاہدہ کیا، جو کہ کچے انڈے، پھلوں کا تھیلا اور خستہ بسکٹ تھے۔ریکارڈ کردہ ویڈیوز سے انہوں نے مشاہدہ کیا کہ بندروں کو چوری کی جانے والی اشیا کی قدر کا اندازہ ہوتا ہے اور وہ موبائل فون، بٹوے اور کیمرے جیسا سامان چوری کرتے وقت اکثر زیادہ سے زیادہ بہتر بدلہ پانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔گو کہ اس سے پہلے ہونے والے لیبارٹری تجربات میں یہ دیکھا گیا تھا کہ بندروں کو پلاسٹک کے کنٹینرز جیسی غیر خوردنی چیزوں کی قدر کا اندازہ تھا اور وہ تجربے سے یہ سیکھ سکتے ہیں کہ ان اشیا کا تبادلہ کھانے کے لیے کیا جاسکتا ہے۔ اس تحقیق میں اس مندر کے گرد آزادانہ طور پر گھومنے والے بندروں کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔جریدے فلاسوفیکل ٹرانزیکشن آف دی رائل سوسائٹی میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ڈاکٹر جین باپٹائز لیکا، جو کہ یونیورسٹی آف لیتھ برج میں سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم نے بندروں کو بڑے ہونے کے ساتھ سیاحوں کی اشیا کی قدر کے بارے میں سیکھنے کا مشاہدہ کیا ہے۔ ان کے مشاہدے کے مطابق چھوٹے بندر ان اشیا کی قدرکے حوالے سے فرق نہیں کرسکتے۔