اظہارالحق میں عہدِ اوّل کی آرزو پیہم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اپنے زمانے سے بچھڑ کر اس کے ملال میں وہ زندہ ہے۔اسی کی تمنا ہے اور اسی کا گداز۔ کم ہوتے ہیں جنہیں یہ نعمت نصیب ہو۔ ہر لحاظ سے وہ منفرد ہے۔ شاعری تو الگ۔ مجھ سا معمولی آدمی اس پہ کیا بات کرے۔ یہ ظفر اقبال، ڈاکٹر خورشید رضوی اور افتخار عارف کو زیبا ہے۔ بیس پچیس برس سے اخبار نویس ایک شعر کے سحر میں ہے کہ ضرب المثل ہو چکا۔ غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر محل پر ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے انصاف ظفر اقبال نے کیا تھا۔ اس مفہوم کا جملہ کہا: اس کے چمن میں پھل، پھول، گل بوٹے اور گھاس پات بھی اس کے اپنے ہیں۔ہاں! وہ اپنے ہی دل و دماغ کی سنتا ہے۔ وہ ایک روایتی دنیا میں پیدا ہوا اور پروان چڑھا۔ روایات کو سینے سے لگا رکھا ہے، اولاد اور ماں باپ کی طرح۔ فکر و خیال مگر آزاد۔ مردِ آزاد کی نشانی ہے کہ اپنے تعصبات سے لڑ سکے۔ اپنے ماحول اور زمانے سے اوپر اٹھ سکے۔ اقبالؔ نے کہا تھا۔ اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی شعرو سخن کی تاریخ میں منفرد اور ممتاز تو بہت گزرے۔ ایسے کم تھے، جو اپنے زمانے اور تعصبات سے اوپر اٹھ سکے۔ عرب شاعر زہیر بن ابی سلمیٰ، مولانا روم، فرید الدین شکر گنج،سلطان باہو سے لے کر اقبالؔ تک ایسے بھی تھے خود اپنے آپ سے جو گزر گئے۔ نفیٔ ذات کو جنہوں نے شعار کیا۔ علم، ادراک انہیں ازلی صداقت تک لے گئے۔ اس پہ فدا ہوئے تو امر ہو گئے۔ زہیر بن ابی سلمیٰ کے مداحوں میں تاریخ سا ز فاروقِ اعظمؓ بھی شامل تھے، سب شاعروں سے بڑا شاعر وہ انہیں کہا کرتے۔ طبیعت سخن کو مائل ہوتی توصاحبِ صدق و صفا عبد اللہ بن مسعودؓ سے کہتے: اشعر الشعرا کے کچھ شعر تو سناؤ۔ جھوم اٹھتے اورارشاد فرماتے: زہیر مدح کرے تو انہی اوصاف پہ کرتا ہے، جو ممدوح میں موجود ہوں۔ زہیر سے پہلے اور نہ اس کے بعدشاعروں کی یہ روش کبھی نہ تھی۔ خواب میں ایک رسی کو لٹکتے ہوئے دیکھا،دوسروں کے برعکس جسے تھام نہ سکا تو یہ کہا : بخدا نبوت کے سوا یہ کچھ بھی نہیں۔ اولاد کو وصیت کی کہ نبیٔ آخرالزماںﷺ کا ظہور ہو تو قدموں میں بچھ جائیں۔ ایک محفل میں، جہاں زہیر اور اس کے ممدوح حرم بن سنان کے فرزند موجود تھے۔ گنوار پن سے ممدوح کے بیٹے نے جتلایاکہ شاعر کو صلہ بھی خوب ملتا تھا۔ اس پر فاروقِ اعظم ؓ نے کہا بوڑھے ہو جانے والے اونٹ، مر جانے والے گھوڑے، پرانے ہو چکے پردے اور پھیکے ہو جانے والے قالین، جو کچھ حرم بن سنان نے زہیر کو دیا تھا،فرسودہ اور فنا ہو گیا۔ جو کچھ زہیرنے حرم کو عطا کیا، جب تک عربی زبان زندہ ہے، باقی رہے گا۔ سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے: مولانا روم کے اثرات کبھی کم نہ ہوں گے۔ ہر زمانے میں ایک انقلاب ان کے فکر و نظر سے فیض پا کر برپا ہوتا ہے۔مولائے روم کی بانسری کی آواز اب تک سنائی دیتی ہے خشک تار و خشک چوب و خشک پوست از کجا می آید ایں آوازِ دوست خشک تار، سوکھی لکڑی، سوکھی جلد۔ پھر اس میں سے دوست کی، اس مہربان رب کی آواز کیسے سنائی دیتی ہے؟ چھ سات صدیاں بیتنے کو آئیں،کتنے تیور اور کتنے رنگ زمانوں کے بدل گئے لیکن پنجابی شاعری فرید الدین شکر گنج کے اثر سے آزاد نہیں ہو سکی۔ اٹھ فریدا ستیا تو جھاڑو دے مسیت توں ستّا،رب جاگدا، تیری ڈاڈھے نال پریت اٹھ فرید اور مسجد میں جھاڑو دے۔ تو کیسے سو سکتا ہے کہ تیرا رب جا گ رہا ہے۔ تْو نے تو بڑی ہستی کے ساتھ، کمال عظمت کے ساتھ، محبت پال لی۔ زہیر بن ابی سلمیٰ نہیں، مولانا روم نہیں، فریدالدین شکر گنج نہیں، اقبالؔ بھی نہیں، اظہار الحق مگر اسی سلسلۂ نور سے وابستہ ہیں۔ وہ فرید الدین شکر گنج کے دربار میں موجود رہنے والے سقّے کی طرح ہیں۔ اس نے خواجہ کے پاؤں چومنے کی کوشش کی تھی۔ آپ نے برا منایا تو رسان سے اس نے کہا: آپ کے ہاتھ پاؤں میں کیا رکھا ہے خواجہ۔ ہم تو اس لیے آپ پہ فدا ہیں کہ اللہ اور اس کی مخلوق سے آپ محبت کرتے ہیں۔ اب ہم شیخِ ہجویر علی بن عثمانؒ کے شاگرد شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے دیار کا رخ کرتے ہیں۔ بغداد شہر دی کی اے نشانی اچیاں لمیاں چیراں ہو تن من میرا پرزے پرزے جیویں درزی دیاں لیرا ہو اینہاں لیراں دی میں کفنی پا کے رلساں سنگ فقیراں ہو بغداد شہر دے ٹکڑے منگساں کرساں میراں میراں ہو بغداد شہر کی نشانی کیا ہے، اونچی لمبی کھجوریں۔ درزی کی کترنوں کی طرح میرا تن من پرزے پرزے ہو چکا۔ انہی پرزوں کا کفن سلوائوں گا۔ فقیروں سے جا ملوں گا۔ بغداد شہر میں کشکول پھیلائوں گا۔ ’’دوست، دوست‘‘ پکارتا پھروں گا۔ یہیں دجلہ کنارے کبھی شبلی گھوما کرتے۔ ان کا قول یہ تھا کہ درویش وہ ہے جو سینا جانتا ہو۔ درزی کی کترنوں کا لباس۔ ظواہر کے ماروں نے گدڑی کو بدعت کہا۔ شیخ ہجویر نے ایسے ہی ایک ناصح سے کہا تھا: حلال کپڑا ہے جو حلال کے پیسے سے خریدا گیا۔ اس شخص کے بارے میں تمہارا خیال کیا ہے، جس نے ریشم پہن رکھا ہے اور منصب قضا کا امیدوار ہے۔ یاد رہے کہ جج بننے کی آرزو حرام ہے۔ دوسرے جواہر کی طرح اسلام کے اس امتیاز کو مسلمانوں نے کب کا کھو دیا۔ کھو دیا اور رسوا ہوئے۔ برباد ہو گئے مگر سوچتے نہیں۔ اظہارالحق معدودے چند آدمیوں میں سے ایک ہیں جو سوچتے ہیں۔ پلٹ کر دیکھتے ہیں۔ بیتے، جگمگاتے زمانوں کی فقط آرزو ہی نہیں کرتے، ان کا دکھ پالتے ہیں۔ ان کے فراق میں زندہ ہیں۔ عصری شعور کے ساتھ اظہارالحق اپنے عہد میں جیتے ہیں۔ ساتھ ساتھ لیکن بیتے دنوں میں بھی، پرانے زمانے ان کی شاعری اور نثر میں کمال دھج سے جلوہ گر ہوتے ہیں۔ بیورو کریٹ تھے۔ بائیسویں گریڈ سے ریٹائر ہوئے۔ سرکار میں رہے، دربار میں نہیں۔ بار بار عرض کیا کہ ماضی مرتا نہیں بلکہ وہ ماضی ہوتا ہی نہیں۔ حال میں گھل جاتا ہے اور مستقبل کی صورت گری کرتا ہے۔ اظہارالحق کے تیور دیکھیے۔ کس کو بتائوں کون ہوں کس عہد کا ہوں۔کھڑا، ناقہ سواروں کی قطاریں گن رہا ہوں/میں اپنے جسم کو اس خواب پر قربان کر دوں۔میں تیرے شہر کے رستوں کی مٹی ہو گیا ہوں/خدایا موت سے پہلے جھلک روئے نبیؐ کی ۔خدایا رحم کر دے دیکھ میںکیا مانگتا ہوں/یہ دریوزۂِ گرانِ عصر کیا سمجھیں گے مجھ کو۔کہ میں تیرے غلاموں کے غلاموں کا گدا ہوں/زہے پیوند جن کے سامنے اظہارؔ اب بھی ۔زمانے اور فرشتے دست بستہ دیکھتا ہوں موضوع تو اظہارالحق کے کالموں کا نیا مجموعہ تھا۔ کہاں سے بات کہاں پہنچی۔ اس پہ پھر کبھی۔ ایک پوری داستاں ہے۔ کہتے کہتے کہی جائے گی۔ شجر پہ بات کریں تو فقط پتوں اور شاخوں پہ نہیں ٹھہرتی۔ جڑیں ہوتی ہیں، چھتنار کا تنا ہوتا ہے اور ثمر بھی۔اظہارالحق میں عہدِ اوّل کی آرزو پیہم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اپنے زمانے سے بچھڑ کر اس کے ملال میں وہ زندہ ہے۔اسی کی تمنا ہے اور اسی کا گداز۔ کم ہوتے ہیں جنہیں یہ نعمت نصیب ہو۔