تحریک انصاف کی حکومت کو ایک اور بحران کا سامنا ہے۔ اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت 2ہزار 300روپے فی من سے تجاوز کر گئی ہے۔ حکومت نے اس سال ریکارڈ گندم کی خریداری کی۔ چند روز قبل ریکارڈ مقدار میں درآمد کا فیصلہ بھی سامنے آیا۔ بیوپاریوں پر گندم خریدنے کی پابندی عائد کی گئی تھی تاکہ حکومت ہدف حاصل کر سکے۔ اس کے باوجود ابتدائی دنوں میں ہی گندم کی قیمت کا بڑھ جانا انتظامیہ کی غفلت اور لاپرواہی پر دلالت کرتا ہے۔ حکومت نے گندم خرید رکھی ہے اگر اسے گوداموں میں ہی محفوظ رکھا جائے گا تو لازمی طور پر مارکیٹ میں گندم کا ریٹ زیادہ ہو گا۔ اس لئے حکومت سرکاری گوداموں میں ذخیرہ گندم کو مارکیٹ میں لائے تاکہ وہاں پر اس کی قیمت مستحکم رہ سکے۔اب یہ کہا جا رہا ہے کہ حکومت کی گندم ذخیرہ کرنے کی غرض سے جارحانہ پالیسی اپنانے کے باعث مقامی مارکیٹ میں گندم کی دستیابی متاثر ہوئی ہے۔ بالفرض اگر ایسا ہی ہے تو بھی حکومت کی ہی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مارکٹ میں گندم کی قیمت کو مستحکم رکھنے کے اقدامات کرے۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اتنے بڑے بڑے فیصلے کون لوگ کر رہے ہیں۔ اس وقت حکومتی مشینری انجانے فیصلہ سازوں اور مافیاز نے یرغمال بنا رکھی ہے۔ وزیر اعظم عمران خاں کو اس سلسلے میں سنجیدگی سے حالات کا جائزہ لینا چاہیے۔ صرف بجٹ پاس کرانا ہی کامیابی نہیں بلکہ عوام کو انصاف، روزگار اور سستے داموں اشیا ضروریہ فراہم کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔