شاعر مزدور احسان دانش ہر مشاعرے میں مزدوروں کی بدحالی پر کچھ اشعار ضرور پڑھتے ۔ بعض لوگ رومانوی ماحول میں مزدوروں کے پسینے‘ ان کی بھوک اور بلکتے بچوں کے ذکر سے بے مزہ ہوتے۔ کچھ اپنی ناگواری کا اظہار بھی کر دیتے لیکن احسان دانش اپنی بات کہہ کر رہتے‘ وہ سچے فنکار کو محنت کش ہی کہتے۔ ان کے ایک دوست منیر کو رقص و نغمہ میں مہارت حاصل تھی۔ یوم مئی تھا‘ کچھ دولت مند احباب نے منیر سے فرمائش کی کہ اپنا کمال دکھائے۔ منیر نے گردو پیش پر نگاہ ڈالی۔ جس طرح کے سامعین تھے اسی سطح کا راگ شروع کیا۔ سب خاموشی سے سنتے رہے۔ منیر پسینے پسینے ہو گیا تو رقص شروع کیا۔ رقص کرتے کرتے دروازے کے قریب گیا اور پھر جلدی سے زنجیر کھول کر بھاگ نکلا۔ احسان دانش کے ہاں پہنچا۔ ذرا سانس درست ہوئے تو بتایا کہ آج ناقدر شناسوں میں پھنس گیا تھا۔ جن کی زبانیں آہ اور واہ دونوں سے ناآشنا تھیں۔ ان کی بلا جانے کہ موسیقی اور اس کے آداب کیا ہوتے ہیں۔ میں موقع پا کر بھاگ آیا یہ دکان پر توند پھیلا کر بیٹھنے والے رقص و نغمہ کے سلوتری کیسے ہو سکتے ہیں۔ ہم جس ماحول میں رہے وہاں یوم مئی پر سرخ جھنڈوں کی بہتات ہوا کرتی تھی۔ گھر کے ایک طرف اتفاق فائونڈری تھے جہاں دس ہزار کے قریب محنت کش دن رات کام کرتے۔ لوہے کے بھاری ٹکڑوں کے ٹکرانے کی آوازیں اکثر رات کے وقت قریبی آبادی میں سنائی دیتی رہتیں۔ اس سے آدھ کلو میٹر کے فاصلے پر پیکو فیکٹری تھی۔ یہاں کی بائیسکل مشہور تھی۔ واپڈا کے بڑے بڑے پاور ٹاور یہاں بنتے‘ کچھ سیف الماریوں‘ اور مشینوں کے اشتہارات ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ چلنے والی پیکو کی دیوار پر تحریر ہوتے۔ اتفاق میں مزدور یونین بہت کمزور ہوتی صرف یوم مئی جیسے مواقع پر پتہ چلتا کہ یہاں مزدور کام کرتے ہیں ورنہ کوئی جلسہ جلوس نہ ہوتا۔ پیکو کے عقب میں کوٹ لکھپت انڈسٹریل ایریا ہے۔ پیکو کے بارہ ہزار مزدور یوم مئی کے موقع پر جلوس لے کر باہر آتے تو سماں بندھ جاتا۔ طبقاتی کشمکش‘شکاگو کے شہیدوں کو سلام اور پاکستان میں مزدوروں کی حالت زار پر تقاریر ہوئیں۔ دو کلو میٹر مشرق کی طرف فیروز پور روڈ پر قینچی امر سدھو تھا۔ اس وقت جہاں سڑک عبور کرنے کے لیے لوہے کا پل بنا ہے یہاں مزدور مرکز ہوا کرتا تھا۔ سکول جانے کی عمر تھی جب بھی موقع ملتا مزدوروں کی فکری نشستوں میں ضرور بیٹھتا۔ عبدالرحمن تو ہمارے ہوش سنبھالنے سے پہلے شہید ہو چکے تھے۔ پیکجز یونین کے صدر ڈاکٹر اسحاق اور پیکو یونین کے صدر امین بھٹی جہاں کھڑے ہوتے ہزاروں کا مجمع لگ جاتا۔ واپڈا کے بشیر بختیار نہائت بزرگی میں متحرک تھے یہ سب اس لیے یاد آیا کہ آج یکم مئی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں لیکچر کے دوران ایک طالب علم نے پوچھا کہ سوویت یونین کے انہدام کا ہمیں کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوا۔ میں نے بتایا کہ فائدہ یہ ہوا کہ ہم نے کچھ عرصہ افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ سمجھ کر وہاں پاکستان کے سکیورٹی مفادات کو محفوظ کیا۔ نقصان یہ ہوا کہ سرمایہ داری نظام کو چیلنج کرنے والی کوئی قوت نہ رہی۔ ایک نقصان یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے اپنے دوست امریکہ کو دشمن بننے میں مدد دی۔ یوم مئی کے موقع پر ہر قسم کے اداروں میں تعطیل ہوا کرتی تھی۔ اقوام متحدہ میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا جو چارٹر سب ریاستوں نے تسلیم کر رکھا ہے اس کے مطابق کسی کارکن سے آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام نہیں لیا جا سکتا۔ زیادہ کام کی صورت میں اضافی معاوضہ ملتا تھا۔ اب اپنے اردگرد دیکھیے۔ اکثر ادارے یکم مئی کے روز تعطیل نہیں کرتے۔ زیادہ تر کاروباری اور صنعتی اداروں میں مزدور حقوق غصب کیے جا رہے ہیں۔ ادارے ملازمت کی پیشکش کرتے وقت میڈیکل انشورنس اور اولڈ ایج بینیفٹ دینے کا وعدہ کرتے ہیں لیکن بعدازاں ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ کارکنوں کو انشورنس اور اولڈ ایج بینیفٹ سے محروم رکھا جائے۔ انہیں نہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہے اور نہ قانون کا ڈر۔ سرد جنگ کے زمانے تک امریکہ اور اس کا سرمایہ داری نظام اقوام متحدہ میں مزدور دشمن فیصلوں سے باز رہے۔ پاکستان جیسے معاشروں میں تو با اختیار لوگ ریاست کو لوٹنے سے باز نہیں آتے یہاں بے آسرا مزدور کا استحصال کرنے سے انہیں کون روک سکتا ہے۔ کسی زمانے میں بہت سی لیبر عدالتیں ہوا کرتی تھیں۔ ان عدالتوں میں بڑے دلچسپ مقدمے آتے۔ اب ہر کسی نے قانون کو دھوکہ دینا سیکھ لیا ہے۔ سرمایہ داروں نے پاکٹ یونین پر خرچ کرنے کے بجائے ساری یونین ہی اپنی بنا رکھی ہیں۔ اللہ کے آخری نبیؐ نے مزدور حقوق پر بات کی۔ ہمارا کاروباری سماج حج عمرے پر زور دیتاہے ہم نماز اس لیے نہیں پڑھتے کہ یہ اللہ سے ملاقات کا ذریعہ ہے‘ اکثر نمازیوں کا مقصد خود کو نمازی ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ دراصل سرمایہ داری نے انسانوں کا استحصال کیا ہے۔ مزدور کے حقوق غصب کر کے سیٹھ نے خوشحالی کا حرم سجایا ہے۔ جب چند بیدار ذہن لوگ مزدور کو طاقتور بنانے کی بات کیا کرتے تھے تو انہیں دیوانہ قرار دیا جاتا تھا۔ اس وقت کی سیاسی ایلیٹ‘ سماجی رہنمائوں اور اساتذہ نے سرمایے کی طاقت اور من مانیوں کا اندازہ کیا ہوتا تو نواز شریف ریاستی مفادات کو چیلنج کرنے کی ہمت نہ کر سکتے۔ اب یکم مئی آتا ہے۔ مزدور اور کارکن سر جھکائے اپنے اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ نئی نسل کو مزاحمت کا سبق کوئی نہیں دیتا۔ روبوٹ تیارہو کر گھر سے نکلتے ہیں روپیہ کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ شام کو کسی کے ہاتھ میں پانچ سو آتے ہیں۔ کوئی پانچ کروڑ کی دیہاڑی لگاتا ہے اور کچھ ایسے بھی ہیں جو خالی جیب گھر جاتے ہیں۔ رستے میں انہیں بچوں کا خالی فیڈر‘ مکان کا کرایہ‘ بیٹی کا بوسیدہ لباس اور بیوی کا بے یقینی کی لکیروں سے بنا ہوا چہرہ نظر آتے ہیں۔ سارا سال جھوٹے اصولوں، ذاتی انا اور نام نہاد نیکیوں کے لیے اپنی تحریر کا پرچم بنانے والے ہم سب بک چکے ہیں۔ ساحر لدھیانوی نے برسوں پہلے مزدوروں کے لیے ایک نظم کہی تھی۔ مزدور کے حالات نہیں بدلے اس لیے اسی نظم کے چند مصرعے پڑھنے پر اکتفا کریں! جاگو اے مزدور کسانو! اٹھو اے مظلوم انسانو جگ کے پران ودھاتا تم ہو دھنیوں کی خوشحالی تم ہو کھیتوںکی ہریالی تم ہو اونچے محل بنائے تم نے شاہی تخت سجائے تم نے ہیرے لعل نکالے تم نے ہر بگیا کے مالی تم ہو اس سنسار کے والی تم ہو وقت ہے دھرتی کو اپنالو آگے بڑھو ہتھیار سنبھالو