وزیراعلیٰ اگر جی دار ہو تو خصوصاً پنجاب کا تو وزیراعظم پر بھاری پڑ سکتا ہے۔ غلام اسحاق خان‘ صدر پاکستان تھے‘ وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ ان کے تعلقات سرد مہری کے بعد کھلے تصادم کی طرف بڑھ رہے تھے‘ پنجاب میں بھی ان کی حکومت تھی‘ سندھ میں جام صادق وزیراعلیٰ تھے‘ جام صادق بڑھے بہادر‘ فیاض اور سیاست کے رمز شناس‘ دوستوں کے دوست‘ نوازشریف کا جارحانہ رویہ دیکھ کر وہ اس کی راہ روکنے کے تمنائی تھے‘ اگرچہ مرکزی حکومت اور پنجاب حکومت کی مجموعی سیاسی طاقت اور اہمیت کے مقابل جام کی سندھ حکومت معمولی نظر آتی تھی لیکن جام صادق کراچی سے اسلام آباد آئے۔ ایوان صدر میں غلام اسحاق سے ملاقات کی‘ انہیں نوازشریف کے عزائم سے آگاہ کیا کہ وزیراعظم صدر کے خلاف جارحانہ پیش قدمی کرنے والے ہیں‘ صدر جو خود بھی ساری صورت حال سے آگاہ تھے‘ انہوں نے جام صاحب سے پوچھا اس سے نمٹنے کے لیے آپ کی تجویز کیا ہے؟ جام صادق علی نے کہا جناب صدر آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں‘ آپ بس ہمارے معاملات سے لاتعلق ہو جائیں‘ میں نوازشریف کے خلاف جو قدم اٹھائوں، آپ اس پر خاموش رہیں‘ میں اس کے غبارے سے ساری ہوا نکال دوں گا مگر کیسے؟ صدر پاکستان نے سوال کیا؟ جام صاحب نے کہا نوازشریف کراچی آنے والے ہیں‘ میں اسے گرفتار کروں گا‘ میرے پاس اس کے خلاف بہت کچھ ہے‘ ایف آئی آر کٹوا کے گرفتار کروں گا اور اس کی ضمانت بھی نہیں ہونے دوں گا، یہ میری ذمہ داری ہے‘ مجھے بس آپ کی اجازت چاہیے اور چند ہفتوں کی خاموشی‘ ان چند ہفتوں میں بیوروکریسی میں اس کا دبدبہ اور سیاست میں اس کی اہمیت ٹھکانے پر آ جائے گی۔ لیکن محتاط غلام اسحاق خان نے جام صادق کو ان اقدامات سے باز رہنے کی ہدایت کی‘ زیادہ احتیاط بجائے خود کمزوری ہے‘ سیاست میں تو اس کی گنجائش بہت کم ہے۔ آج کے سیاسی حالات میں اصل اہمیت اور طاقت اگرچہ عمران خان کے پاس ہے کہ جمہوریت لولی‘ لنگڑی بھی ہو تو بھی عوام ہی فیصلہ کن طاقت ہیں اور اس وقت عوام کی ہمدردی کا بہائو عمران خان کی طرف ہے‘ ان حالات میں عمران خان‘ غلام اسحاق کی طرح محتاط ہیں تو دوسری طرف دونوں صوبوں میں جہاں ان کی پارٹی حکمران ہے ان میں کوئی بھی جام صادق نہیں، ورنہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد 27 کلومیٹر کی شہباز حکومت کے پاس باہر نکلنے کے لیے زمینی تو کیا کوئی فضائی راستہ بھی نہیں رہ گیا اور سمندر تک جانے کے سارے راستے تحریک انصاف کی حکومتوں کی گزرگاہ میں ہیں۔ چوہدری ظہورالٰہی خاندان کی سیاست تین اصولوں یا ستونوں پر استوار ہے۔ الف۔ برادری‘ ب۔ اسٹیبلشمنٹ۔ ج۔ دھڑا‘ اگرچہ خاندان ان دنوں دو حصوں میں بٹ چکا ہے لیکن ان کے اصولِ سیاست انہیں تین ستونوں پر استوار ہیں۔ پرویزالٰہی کو یا کم از کم اس کے فرزند مونس الٰہی کو عمران خان کے ساتھ چلنا ہے‘ ان دنوں انتخائی حلقوں کی سیاست کا یہی چلن ہے۔ اس نوجوان نے کئی دہائیاں ابھی سیاست میں گزارنا ہیں اور اسے معلوم ہے کہ فیصلہ کن موڑ پر اسے کس قافلے کی حمایت درکار ہوگی‘ اس نے قافلے کا انتخاب کرلیا ہے‘ باپ کو ہر صورت اپنے بیٹے کا ساتھ دینا ہے ورنہ وہ کبھی شجاعت حسین کو ناراض کر کے عمران خان کا ساتھ نہ دیتے‘ پرویزالٰہی کے بارے میں تحریک انصاف کو تذبذب کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں‘ اس عمرمیں وہ عمران خان کے ساتھ رہیں گے‘ ہاں البتہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بگاڑے بغیر‘ ان دنوں اسٹیبلشنٹ خود قطعی فیصلہ کرنے میں تذبذب کا شکار ہے‘ نئی قیادت سوچ بچار کے مرحلے میں ہے اور جنرل باجوہ ریٹائرڈ کی پراکسی‘ ایک الگ قسم کا تاثر دینے کی کوشش میں مصروف۔ جنرل باجوہ کے بارے میں پرویزالٰہی کے مشاہدے اور عمران خان کے تجربے میں فرق ہے‘ دونوں اپنے تجربے کے مطابق بول رہے ہیں اور دونوں سچ کہہ رہے ہیں۔ کوئی بھی شخص بیک وقت کسی کا محسن اور دوسرے کے لیے محسن کش ہو سکتا ہے‘ دوسروں کے لیے برا ‘اپنے خاندان اور دوستوں کے لیے مہربان اور فیاض ہو سکتا ہے: مجھ کو ابرو‘ تجھے محراب پسند سارا جھگڑا‘ اسی نازک خم کا پرویزالٰہی اس موڑ پر عمران خان کے ساتھ پیمان نہیں توڑیں گے‘ البتہ اختلاف رائے ہمیشہ فائدہ مند رہتا ہے‘ اسی سے غور و فکر کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔ جنرل باجوہ نے عمران خان کے خلاف جو کچھ کہا‘ وہ ذاتی انا‘ مخالفت یا دشمنی کا شاخسانہ نہیں ہے یہ ایک فرد کے ذاتی مفادات کی وجہ سے ہوا‘ جو لوگ تجزیہ کار اور لکھاری اسے انا کا ٹکرائو کہہ رہے ہیں وہ ایک بڑے جرم کو معمولی جھگڑا بنانے کی کوشش میں ہیں۔ عمران خان کے خلاف مکمل منصوبہ بندی سے کھیل کھیلا گیا‘ یہ کھیل عمران خان کے خلاف کم اور زیادہ فائدہ مند اشخاص کو متوجہ کرنے اوران کی تجوریوں پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے تھا۔ عمران خان کو ڈراوے کے طور پر استعمال کیا گیا‘ یہ کھیل احتیاط سے کی گئی طویل منصوبہ بندی کے بعد کھیلا گیا‘ یہ وزیراعظم نوازشریف کے خلاف نااہلی والے مقدمات کے ساتھ شروع ہو گیا تھا۔ پہلے پہل اس کا آغاز میاں نوازشریف کے نئے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ توہین آمیز طرز عمل سے شروع ہوا‘ نوازشریف نے اپنے رویے کو تبدیل کرنے کی بجائے ریاست کے اہم ترین ادارے کو ہدف بنانا شروع کردیا۔ جوں جوں ان کی لوٹ مار منظر عام پر آئی تو کسی کی آنکھیں دولت کے انبار دیکھ کر خیرہ ہو گئیں اور کوئی حسد کی آگ میں جلنے لگا۔ عدالت عظمیٰ کے سامنے حقائق کھلتے گئے اور نوازشریف کے گرد قانون کا شکنجہ تنگ ہوتا گیا۔ ان کے پاس بچ نکلنے کے کئی راستے اور مواقع موجود تھے لیکن وہ ان مواقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکے‘ نااہلی کا فیصلہ آنے کے بعد وہ اس فیصلے کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے اورپرسکون ہو کر غوروفکر کر کے کوئی راہ نکالنے کی بجائے ریاست کے اہم ترین اداروں پر پل پڑے‘ کچھ انہیں اپنی دولت کا غرور تھا اور کچھ مقبولیت پر بھروسہ‘ رہی کسر ان صلاح کاروں نے نکال دی جو انہیں جی ٹی روڈ پر جسٹس افتخار چودھری بنانے پر تل گئے تھے‘ انہیں موٹروے کے راستے لاہور میں جاتی عمرہ کے محل کی بجائے ایک ہی ہلے میں حکومتوں کو گرا دینے کا مشورہ دینے لگے۔ یہ سوچے بغیر کہ نوازشریف کا جلوس کس کی حکومت گرائے گا۔ پنجاب میں اپنے بھائی شہبازشریف کی یا پھر مرکز میں اپنے نامزد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی۔ تقدیر کا پہیہ جب الٹا گھومنے لگا تو تدبیریں بھی الٹی ہو جاتی ہیں۔ مختصر یہ کہ ہوس زر میں مبتلا جاہ طلب کے مقابلے میں تازہ دم زر کی طلب کا مارا جاہ طلب ظاہر ہو چکا تھا‘ انہی کا رچایا کھیل اپنے اختتام کا منتظر ہے ابھی۔