کچھ دیر کے لئے باقی سارے مسائل بھول جائیے‘ اس عالم نزع کو بھی جو مہنگائی نے برپا کر رکھا ہے۔ مطلب یہ کہ۔ ع آئیں حسنِ شیخ کی باتیں کریں ہمارے شیخ جی جیسا دنیا میں کوئی نہیں۔ صاحب محترم و استقلال‘ استقامت کا کوہ گراں ہیں۔ گزرے ہفتے ان پر دو مصائب گزرے۔ لیکن مجال ہے ذرا بھی نوحہ یا گریہ کیا ہو۔ پہلے تو یوں ہوا کہ اصحاب عدل نے بلا لیا۔ اس دوران ریلوے کے بڑھتے کرایوں کے باوجود دوگنے تگنے ہوتے ہوئے خسارے کی باتیں بھی ہوئیں۔ تباہ ہوتے انجنوں‘ برباد ہوتی بوگیوں‘ خوار ہوتے مسافروں کا ذکر خیر بھی رہا۔ بھرتیوں کی یاد بھی آئی وغیرہ وغیرہ۔ کچے چٹھے‘ کی بازگشت بھی سنائی دی۔ شیخ جی ٹھہرے مرد میدان۔ ذرا بھی بدمزہ نہ ہوئے۔ بس کابینہ میں گئے‘ ذرا سا شکوہ کیا‘ دوستوں نے ہمت بندھائی جو پہلے ہی کافی بندھی تھی۔ ذرا اور بڑھ گئی اور قصہ ختم۔ دوسرے دن وہ رپورٹ آ گئی جو سانحہ رحیم یار خاں پر بنائی جانے والی حکومتی کمیٹی نے مرتب کی تھی۔ جب یہ حادثہ ہوا تھا اور ستر اسی مسافر جل کر جاں بحق ہو گئے تھے تو شیخ صاحب سے ستم ظریفوں نے استعفے کا مطالبہ کیا۔ شیخ جی نے اسے پائے استقامت سے ٹھکرا دیا کہ غلطی ان تبلیغیوں کی ہے جو سلنڈر لے کر گاڑی میں آئے۔ یہ سلنڈر پھٹے اور لوگ مر گئے۔ تحقیقاتی کمیٹی نے قرار دیا کہ بوگیوں کی حالت خراب تھی وائرنگ خطرناک حد تک ناقص‘ شارٹ سرکٹ ہوا ‘ آگ لگی‘ مسافر جل کر مر گئے اور آگ ہی سے سلنڈر پھٹے۔ شیخ جی پوری استقامت سے اس رپورٹ کو بھی بنا کوئی غل غپاڑہ کئے پی گئے۔ دوسرے ملکوں کے کم ہمت اور تھڑدلے وزیر ہوتے تو جھٹ استعفیٰ دیتے اور روپوش ہو جاتے۔ شیخ جی کی بہادری دیکھیے اسی روز کئی چینلز پر اپنی رونمائی بے دھڑک ہو کر کرائی۔ ٭٭٭٭٭ سیاستدانوں کے کمالات کا زمانہ عرصہ دراز سے واقف ہے۔ ان کا ایک زبردست تعارف 2007ء کے زلزلے کے بعد سامنے آیا۔ تعارف ضروری نہیں کہ کوئی صاحب ہی کرائیں‘ حالات بھی کرا دیا کرتے ہیں۔ زلزلہ کے بعد بہت بھاری امداد غیر ملکوں سے آئی۔ نقد رقم کے ڈھیر تو بڑے گروجی ہڑپ کر گئے۔ جو ان دنوں دبئی میں لہرایا اور جھوما کرتے ہیں،نقد رقم کے علاوہ بہت سا سامان بھی آیا۔ کپڑے‘ گرم کمبل‘ دودھ ‘ خشک خوراک اور گھی کے ڈبے اور بہت کچھ‘ اچانک خبر آئی کہ نقد رقم کی طرح یہ سامان بھی زلزلہ زدگان تک نہیں پہنچا بلکہ راولپنڈی میں ڈانگوں کے بھائو بک رہا ہے۔ حالات کبھی کبھار بہت جامع اور بلیغ تعارف کرا دیا کرتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ عشرہ ڈیڑھ پہلے نوائے وقت کے زمانے میں‘ ایک سینئر خبر نگار نے بھی ان کا تعارف کرایا۔ موصوف کی سیاستدانوںسے جلوت اور خلوت میں ملاقاتیں رہی تھیں۔ آپ ان کے ناقابل بیان حد تک مداح تھے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ آپ محض سیاستدان نہیں‘ ریسرچ سکالر بھی ہیں۔ وہ اتنے بلند پایہ منجم ہیں کہ انہیں پاکستان کا ’’بابا دنگا‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ آپ زبردست قسم کے صاحب کشف بزرگ بھی ہیں مشرف کے دور میں قسم کھانے کے انداز میں پیش گوئی فرمائی کہ سو فیصد یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ مسئلہ کشمیر میرے سیّد کے دور میں حل ہو گا۔ مشرف کا دور گزر گیا‘ مسئلہ حل نہیں ہوا لیکن یہ کشف بتانے والے کی غلطی نہیں تھی۔ غلطی کشف سننے والوں کو لگی۔ ’’میرے سید‘‘ سے مراد مشرف نہیں‘ عمران تھے اور عمران کے ’’میرے سید‘‘ کے منصب پر فائز ہوتے ہی مسئلہ کشمیر حل ہو گیا۔ ان کے دورہ امریکہ میں وطن واپسی پر حقیقی میرے سید نے اسی لئے اعلان کیا کہ ورلڈ کپ جیت کر لایا ہوں۔ وہ ورلڈ کپ اور کیا تھا‘ یہی تو تھا۔ سال ڈیڑھ سے ان کا کشف اور بھی بڑھ گیا۔ آئے دن فرماتے ہیں‘ کل فلاں اندر ہو گا۔ پرسوں فلاں کو اتنے سال قید ہو جائے گی اور پھر ویسا ہی ہوا‘ درجنوں پکڑے گئے‘ کئی کو سزا ہوئی‘ کتنے ہی نااہل ہو گئے۔ کچھ دنوں سے ان کا کشف کچھ ماند سا پڑتا جا رہا ہے۔ شاید زمانے نے کروٹ لینے کی ٹھان لی ہے۔ ایسا ہوا کرتا ہے۔ کہاں کل کا زمانہ کہ شیخ جی کی آمد پر ڈیم والا بابا کھڑا ہو جاتا تھا‘ ان کے ساتھ ان کی انتخابی مہم چلاتا تھا‘ شیخ صاحب کی جیت کے راستے میں جو بھی آیا‘ مارا گیا۔ نااہل ہوا یا پانچ سال کے لئے اندر ہوا۔ کوئی ایفی ڈرین کے کیس میں نذر غیابات الجب ہوا کوئی بصورت دگر نشان عبرت بنا۔ ویسے ہی جیسے شیخ جی نے ریلوے کو نشان عبرت بنا دیا ہے۔ ٭٭٭٭٭ شیخ جی کا حسن ذوق معاملات خوردو نوش میں درجہ کمال کو پہنچا ہوا ہے۔ کل ہی ایک ویڈیو دیکھی‘ ایک ’’تغاری‘‘ ملائی سے بھری سامنے رکھی تھی اور اسے لپا لپ‘ ڈگا ڈگ نوش فرما رہے تھے۔ اندازہ فرمائیں‘ ملائی وہ تغاری میں کھاتے ہیں تو بریانی کس میں کھاتے ہوں گے۔ فرمائیے‘ بریانی سے بھرا ٹب کھانے کی میز پر رکھا ہو تو قورمے کی بالٹی میز کے کس کونے پر رکھی جائے گی؟ بہرحال رکھنے والے جگہ نکال ہی لیا کرتے۔