نہایت ہی صدمے کے عالم میں یہ کالم لکھ رہاہوں کہ کل مورخہ یکم مارچ 2021ء بمطابق 16رجب المرجب 1442ھ سوموارکوعین ہنگام سحر میری والدہ صاحبہ مقبوضہ کشمیرمیں داعی اجل کولبیک کہہ گئیں۔اناللہ واناالیہ راجعون ۔کئی برس ہوئے ہیں کہ جب آزادکشمیرکی طرف میں نے ہجرت کے لئے رخت سفر باندھا اس دن سے والدہ ماجدہ کی قدم بوسی کااعزازچھن گیا تھا۔ عالم یہ تھا کہ میں اپنی نظریں جھکائے اور روتے ہوئے والدہ صاحبہ کو اپنی ہجرت سے مطلع کرکے دعائوں کے ساتھ ان سے رخصت چاہتا تھا،میری والدہ صورتحال کوپوری طرح جانتی تھیں مگرشفقت مادری کے تحت وہ میری التجا پرمسلسل خاموش رہیں ۔ میرا آج کا یہ کالم اپنی والدہ کی وفات پرانہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ہے۔ ماںوہ ہستی ہے کہ جس کی پیشانی پر نور، آنکھوں میں ٹھنڈک، الفاظ میں محبت، آغوش میں دنیا بھر کا سکون، ہاتھوں میں شفقت اور پیروں تلے، جنت ہے۔ جسکو اک نظر پیار سے دیکھ لینے سے ہی ایک حج مبرور کا ثواب مل جاتا ہے۔ ایک ایسا سمندر جسکی گہرائیوں کا اندازہ کرنا انسانی عقل سے بالاتر ہے۔ ہر رشتے کی محبت کو الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے مگر ماں کی بے کراںمحبت بیاںکرنے سے زبان گنگ ہے۔ ماں کہنے کو تو تین حروف کا مجموعہ ہے لیکن اپنے اندر کل کائنات سموئے ہوئے ہے۔ اس کی عظمت اور بڑائی کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ خداوندکریم جب انسان سے اپنی محبت کا دعوی کرتا ہے تو اس کیلئے ماں کو مثال بناتا ہے۔ دنیا میں سب سے بڑی نعمت ماں ہے۔اگر یہ نعمت کھو جائے تو خواہ دنیا کی ساری دولت ہی خرچ کر ڈالو یہ دوبارہ نصیب نہیں ہوسکتی۔ ماںکا لفظ بہت وسیع معنی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ممتا،ایثار ، قربانی، پیار،محبت، عزم ،حوصلہ ،دوست، ہمدرد، راہنما،استاد، خلوص ، معصومیت ، دعائے وفا،بے غرضی، لگن، سچائی، پاکیزگی، سکون، خدمت، محنت، عظمت، عبادت، ایمان، دیانت، جذبہ، جنت، یہ سب ماں کی خوبیوں کی صرف ایک جھلک ہے، ورنہ اس کی خوبیاں تو اس قدر ہیں کہ لفظ ختم ہوجائیں مگر ماں کی تعریف ختم نہ ہو۔ ماں ہی وہ عظیم ہستی ہے جس کے جذبوں اور محبت میں غرض نہیں ہوتی ،جب اولاد اس دنیا میں آنکھ کھولتی ہے تواس کے لئے خود کو وقف کر دیتی ہے جب بچہ بول بھی نہیں پاتا اس کی ضرورت کوسمجھتی اور پورا کرتی ہے پھر اسے بولنا سکھاتی ہے بھر انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتی ہے ہر آواز پر دوڑی چلی آتی ہے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیتی ہے،اولاد کی خوشی میں خوش اور اس کے دکھ میں دکھی ہوتی ہے ،عمر کے ہر دور میں ساتھ دیتی ہے اور دعاگو رہتی ہے،مشکل راہوں میں بھی آسان سفر لگتا ہے یہ میری ماں کی دعاوں کا اثر لگتا ہے۔ ماں ،محض ایک لفظ نہیں بلکہ محبتوں کا مجموعہ ہے۔ ’’ماں ‘‘کا لفظ سنتے ہی نہ صرف ٹھنڈی چھائوں اور ایک تحفظ کا احساس اجاگر ہوتا ہے بلکہ ایک سایہ عظمت اور سب کچھ قربان کردینے والی ہستی کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ یہ لفظ مٹھاس سے بھراہواہے۔ بلاشبہ ماںرب کی عطا کردہ نعمتوں میںسے ایسی افضل ترین نعمت ہے کہ جواولاد کے لئے تپتی دھوپ میں ٹھنڈی چھائوں اور بے غرض پیار کے بحر بے کنار کا نام ہے ۔جس کی گود میں نرم ولطیف حرارت اور مد ہوشی کی برسات ہو تی ہے۔ جس کے دل کے بارے میں نہ تو کوئی بتا سکتا ہے اور نہ ہی جان سکتا ہے اور نہ ہی کوئی سمجھ سکتا ہے اور سچ یہ ہے کہ ماں خود بھی جاننا چاہے تو نہیں جان سکتی۔ ماں کا دل رب الکریم نے نہ جانے کس خاص انداز سے کچھ اس طرح بنایا ہے اور اس کی وسعتیں اتنی بیکراں کر دی ہیں کہ اس میں دونوں جہاں کی محبتیں سمٹ جاتی ہیں۔ اس کی محبت ایسی ہے جس میں کوئی غرض پوشیدہ نہیں ہوتی۔ اسی لئے تو حکم دیاگیا ہے کہ اپنے والدین کے لیے اس طرح دعا کیا کرو یارب ! میرے والدین پراسی طرح رحم فرما جیسا انہوں نے مجھے بچپن میںرحم سے پرورش کی۔ ماں کا لفظ زبان پر آتے ہی ذہن میں ایثار وخلوص بے لوث محبت اور سراپا خیر وبرکت کا ایک پیکر ابھرتا ہے۔ اس لفظ کے اظہار ہی سے ایک ایسی لہر خاکساری اور نیاز مندی کی انسان کے جسم وجان میں دوڑتی ہے کہ جس سے متکلم کی طرف مخاطب کے جذبہ ہمدردی کا رجوع ہونا لازمی ہوتا ہے ۔ جیسے ہی زبان سے ماں کا لفظ ادا ہوتا ہے کہنے والے میں اپنی نیازمندی کمتری اور تعلق خاطر کا احساس جنم لیتا ہے اور سننے والے کے دل میں جذبہ رحم شفقت ومحبت کا بحربیکراں ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔ ماں ایک پیکر جود وسخا ، شرافت ومروت، صبر وضبط ایثار وقربانی ہے۔ جس کی منشا اور منزل ہی بچے کی آسائش وسکون ہے۔ لفظ ماں کے تینوں حروف بڑے رموز اور نکات کے حامل ہیں۔ ان تینوں حروف کا خمیر تین مختلف اقلیموں میں تیار کیاگیا ہے۔میم ،نے محبت کے اقلیم میں جنم لیا ہے۔ الف ،نے ایثار کی آغوش میں آنکھیں کھولی ہیںاورنوں، کا وطن ناز ہے۔ اس لئے ماں کے اجزائے ترکیبی کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ محبت کرنا اس کا شیوہ، ایثار اس کاایمان، اور بچے بر ناز اس کی کمزوری ہے ۔ اگردنیا کے اس طلسم کدے میں صرف میم ،کے حروف پر ہی غور کیا جائے تو محبت ،محب ،محبوب، محمود، محمد ، مغفرت سب ایسی حروف کے مرہون ِمنت ہیں۔ ماں،ایک پھول ہے کہ جس کی مہک کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ماں،ایک سمندر جس کا پانی اپنی سطح سے بڑھ تو سکتا ہے مگر کبھی کم نہیں ہو سکتا۔ ماں،ایک ایسی دولت جس کو پانے کے بعد انسان مغرور ہو جاتا ہے۔ ماں،ایک ایسی دوست جو کبھی دھوکہ نہیں دیتی ۔ ماں،ایک ایسا وعدہ جو کبھی ٹوٹتا نہیں۔ ماں،ایک ایسا خواب جو ایک تعبیر بن کر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ ماں،ایک ایسی محبت جو کبھی کم نہیں ہوتی بلکہ وقت وقت کے ساتھ ساتھ اور بڑھتی رہتی ہے۔ ماں،ایک ایسی پرچھائی ہے جو ہر مصیبت سے ہمیںبچانے کے لیے ہمارے ساتھ رہتی ہے۔ ماں،ایک ایسی محافظ جو ہمیں ہر ٹھوکر لگنے سے بچاتی ہے۔ ماں ایک دعا ہے کہ جو ہر کسی کی لب پر ہر وقت رہتی ہے۔ ماں،ایک ایسی خوشی ہے جو کبھی غم نہیںدیتی۔ اس کے پیار کا انداز بہت پیارا اور نرالہ ہوتا ہے ہر انسان پیدا ہوتے ہی زندگی کے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے۔ اسے جینے، آگے بڑھنے اور ترقی کی منزلیں طے کرنے کے ہر مرحلہ پر اپنے خالق کے بعد جو سہارا ملتا ہے پھر اسے کامیابی اور ناکامی کی صورت میں جس وسیلے کے ذریعے اپنی فطری اور جسمانی صحت اور توازن کو قائم رکھنا پڑتا ہے وہ صرف اور صرف ماں کی لازوال محبت ہے۔ مائیں عزم و حوصلے اور ایثار و قربانی کا پیکر ہوتی ہیں۔ والدین کے احسانات کے بارے میں سوچیں بھی، تو سوچ ان کے احسانات کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔