باہر چڑیا چونچ میں سورج لیے چہچہاتی پھرتی ہے ، ہم کمرے میں پردہ کھینچ لیتے ہیں ، ہماری شام ہو جاتی ہے۔ ہمارا سورج سال میں ایک ہی بار اکتیس دسمبر کو غروب ہوتا ہے اور یکم جنوری کو ایک ہی بار طلوع ہوتا ہے۔ ہم یہ تصاویر اہتمام سے شیئر کرتے ہیں، نئے سال کی مبارک دیتے ہیں اور پھر پردے کھینچ لیتے ہیں۔ہماری شام ہو جاتی ہے۔ باقی کا سارا سال، اسی شام کے اندھیرے میں ، ہم گھڑیوں پر جیتے ہیں اور ہمیں کچھ خبر نہیں ہوتی کب سورج طلوع ہو رہا ہے اور کب غروب۔ہم ڈربے کے وہ برائلر مرغے ہیں جو کبھی بانگ نہیں دیتے۔جن کے وجود البتہ جنگلوں کی کھلی مٹی سے بنے ہیں ، صرف وہ جانتے ہیں کہ ہرشام جب سورج غروب ہوتا ہے تو کیسے افق کے ہاتھوں پر مہندی سی رچ جاتی ہے۔ سورج ہم نے کھو دیا۔ ہمارے حصے میں اب صرف گھڑیاں ہیں۔ گھڑیوں نے ہمارے وجود میں وحشت بھر دی۔ ایک سہولت تھی،ہم نے عذاب بنا دیا۔ صبح نہیں اترتی ، اب دیوانگی اترتی ہے۔وحشت نے ہماری زندگی کو صحرا بنا دیا ہے :بھاگو ،اور بھاگو ! صرف پانچ منٹ رہ گئے ہیں، دیر ہو گئی۔ وحشت کے اس عالم میں کبھی سڑکوں پر دیکھیے ،کیا ہنگامہ برپا ہوتا ہے۔ ہم گھڑی زادوں کو کیا معلوم سورج کے بڑھتے گھٹتے سائے کے ساتھ دن گزارے کا کیا لطف ہوتا تھا۔یہ منٹوں اور گھنٹوں کی سوئیوں کا اودھم نہیں تھا۔بس اتنا سا حساب تھا کہ سائے اب قد سے بڑھ گئے اور اب قدموں سے آ لگے ہیں۔صبح اتری، دوپہر ہو گئی، سہہ پہر ہو گئی ، ڈیگر ویلا آ گیا اور اب شام ہو گئی۔الارم نیند سے جگاتا ہے تو وہ دن یاد آتے ہیں جب سورج کی کرنیں آواز لگاتی تھیں جاگو جاگو صبح ہوئی اور ان کے ساتھ چڑیوں کا شور ہوتا تھا۔ سورج کی صبح ایسے دندناتے ہوئے سانڈ کی طرح نہیں آتی کہ اچانک معلوم ہو سات بج گئے ہیں اور آدمی بد حواس ہو کر اٹھ بیٹھے ۔ سورج کے ساتھ آنے والی صبح پہلے پیار کی طرح دھیرے دھیرے اترتی ہے۔اس کے کتنے حسین مراحل ہوتے ہیں۔ دھمی ، سرگی ، منہ ہنیرے ، اور پھر صبح۔ سورج کے ساتھ گزرتے وقت کا ایک ایک لمحہ لوک موسیقی کی مالا میں پرویا ہوا ہے ۔ ’ ککڑا دھمی دیا کوویلے دتی ائی بانگ ‘‘ ۔یا ’’ شالا کوئی نا وچھڑے ڈیگر دے ویلے‘‘۔افضل عاجز نے بھی لکھا کہ’’ نہاموں جئے خواب اچ آیا ماہی‘‘ ۔یہ نہیں لکھا کہ ماہی 3am پر میرے خواب میں آگیا۔ دھمی کا یہ ککڑا ور تہجد پڑھنے والے بزرگ ایک ساتھ بیدار ہوتے ہیں۔برسوںپہلے وادی بروغل میں کرومبر جھیل سے کچھ پہلے لشکر گاز نامی گائوں میں جب ہم تھک کر خیمہ زن ہوئے تھے ، گائوں میں کسی کے دھمی کے ’’ ککڑ‘‘ نے صبح سے بہت پہلے صبح کا اتنی بار اعلان کیا کہ سونے نہیں دیا ۔بروغل اور کرومبر کی یاد آتی ہے تو لشکر گاز کا یہ ککڑ بھی ککڑوں ککڑوں کرتا دیوار دل پر آن بیٹھتا ہے۔کم بخت کو سردی بھی نہیں لگتی تھی اور سونے بھی نہیں دیتا تھا۔ سورج کے ساتھ اٹھنا اور اسی کے ساتھ سو جانا فطرت کا تقاضا ہے۔ہم نے یہ تقاضا پامال کر چھوڑا۔ صبح کی بجائے لوگ دوپہر کو بیدار ہوتے ہیں۔دکانیں اور مارکیٹیں دن بارہ بجے کھلتی ہیں۔ گائوں میں، بچپن میں عشاء کے بعد سو جاتے تھے ۔ اب رات بارہ ایک بجے تک دنیا جاگتی ہے۔انجام یہ ہے کہ چہروں پر رونقیں نہیں رہیں اورتیس بہاریں دیکھی نہیں اور بلڈ پریشر جیسے عارضے لاحق ہو رہے ہیں ۔ ہر دوسرا آدمی ڈپریشن اور نفسیاتی مسائل کا شکار نظر آتا ہے۔فطرت سے دوستی نہیں کرنی ، دوائیں کھا تے رہنا ہے۔موسموں کا ہمیں کچھ پتا نہیں۔ چیتر ، بیساکھ ، اسو ،کاتک ، پوہ ،ماگھ ، جیٹھ، ہاڑ ، ساون، بھادوں ہماری جانے بلا۔ بس ایک دسمبر رہ گیا اور چند گھسے پٹے اشعار۔ سوشل میڈیا پر خیالی عشاق دہائی دے رہے ہوتے ہیں: اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے۔ فطرت سورج کی ہمسفر ہے۔ اسی کی کروٹ سے موسم بدلتے ہیں۔وقت ہوا کی طرح اسی کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔پرندے اس کی کرنوں سے بیدار ہوتے ہیں ۔اس کے غروب ہونے پر کائنات تھم سی جاتی ہے۔سورج کی پہلی کرن زمین پر اترتی ہے اور پرندے چہچہانا شروع کر دیتے ہیں۔ سورج ڈوبنے لگتا ہے تو یہ پرندے قطار اندر قطار اپنے گھونسلوں کی طرف اڑ رہے ہوتے ہیں۔ گائوں میں ، گھر میں ، مرغیاں ہوتی تھیں۔ سارا دن وہ مٹر گشت کرتیں لیکن شام سے پہلے ہی وہ اپنے ڈربے کے گرد جمع ہو جاتیں۔سارا نظام فطرت سورج کے ساتھ چل رہا ہے ۔یہ صرف انسان ہے جس نے فطرت سے بغاوت کر رکھی ہے اور مسائل اس کی دہلیز پر بیٹھ گئے ہیں۔ انسانوں کو سال میں صرف ایک بار پتا چلتا ہے کہ سورج غروب ہو گیا اور ایک دن انہیں خبر ملتی ہے یہ طلوع بھی ہو گیا۔یہ طلسم تو مگر اس دنیا میں ہر روز ظہور کرتا ہے۔سورج جب چپ چاپ سے کھیتوں اور فاختائوں کی طرح گیان میں ڈوبی جھیلوں پر طلوع ہوتا ہے تو وجود میں تازگی بھر جاتی ہے ۔جاڑے کی شام جب وادی کے کسی مکان سے دھواں اٹھ رہا ہو اور ریوڑ کے گلے کی گھنٹیاں بج رہی ہوں یہ بوڑھی پہاڑی کے اس پار غروب ہوتا ہے تو گویا دل بھی ساتھ ہی غروب ہو نے لگتا ہے۔ سیف الملوک جھیل پر جب ڈھلتے چاند کی رات کے بعد دن نکلتا ہے ، فیئری میڈوز پر جب شام اترتی ہے ، دودی پت سر جھیل کے کنارے جب چرواہے کی بانسری کی تان غروب آفتاب کے اداس لمحوں میں مزید سوز بھر دیتی ہے ، اور اسی جھیل کے کنارے جب ایک خانہ بدوش کی کہانیوں کے زیر اثر برفانی چیتے کے ڈر سے رات آنکھوں میں کاٹ کر آپ صبح کی پہلی کرن جھیل کے پانیوں اور اپنے خیمے پر ایک ساتھ اترتے دیکھتے ہیں تو جی چاہتا ہے وقت تھم جائے۔ کبھی جب تعطیلات ہوں ، فرصت ملے ،فراغت ہو تو چند دن گھڑیوں کی بجائے سورج کے ساتھ جی کر دیکھیں۔ یقین کیجیے ، سورج روز غروب ہوتا ہے اور روز طلوع ہوتا ہے۔