پلک سری میں ہونے والے واقعے نے اس سوال کو ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے کہ کیا وائلڈ لائف اور انسان اپنے اپنے دائرہ کار میں ساتھ ساتھ رہ سکتے ہیں؟ ا س سوال کا وقتی اشتعال یا جذباتیت سے نہیں،دردمندی اور سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے۔ معلوم نہیں یہ ہماری افتاد طبع ہے یا تربیت میں کوئی کمی رہ گئی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ جہاں ہمیں جنگلی حیات نظر آ جائے ، ہمارے سر پر خون سوار ہو جاتا ہے اور اپنی وحشت ہم سے تھامی نہیں جاتی۔ پلک سری میں تو خیر لوگوں کا واسطہ ایک تیندوے سے تھا ہمارے دیہاتوں میں تو عالم یہ ہوتا ہے کہ کتے اور کتیا کی دم باہم پھنس جائے تو آدھا گائوں انہیں پتھر مارنے اکٹھا ہو جاتا ہے بے زبان مخلوق کی یہ اذیت گائوں کے لوگوں کے لیے تفنن طبع کا عنوان بن جاتی ہے۔ تیندوا تو لوگوں کا جانی و مالی نقصان بھی کرتا ہو گا لیکن کیا یہ بھی ایک حقیقت نہیں کہ ہمارے دیہات اور گائوں کے لوگوں نے فصلوں کے تحفظ کے واہیات عذر کا سہارا لے کر معصوم چڑیوں کو بھی زہر ڈال کر مار دیا ہے۔ پہلے اس معصوم مخلوق کے ڈاروں کے ڈار نظر آتے تھے، اب یہ چڑیا بھی معدوم ہوتی جا رہی ہے۔فصلوں کے بیج کے ساتھ ہی کسان زہر ملا دیتا ہے اور جواز یہ پیش کرتا ہے کہ چڑیا ہمارے بیج کھا جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں ہماری فصل کم ہوتی ہے۔ کبوتر نظر آ جائے ، جل مرغی دکھائی دے جائے یا کسی ویرانے میں خرگوش پر نظر پڑ جائے ہماری رالیں ٹپکنا شروع ہو جاتی ہیں۔ گائوں کا گائوں شکاری کتے اور بندوقیں لے کر تفریح کے طور پر شکار کرنے نکلتا ہے۔اور اگر وائلڈ بور ہاتھ آ جائے تو اسے پکڑ کر باندھ دیا جاتا ہے اور اس پر کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ گائوں کے میلوں ٹھیلوں میں گبھرو اور بانکے جوان بڑے اہتمام سے ریچھ اور کتے کی لڑائی دیکھنے جاتے ہیں اور جب تک وائلڈ لائف والوں نے سختی نہیں کی تھی یہ دنگل ہماری دیہی تہذیب کا ایک اہم جزو ہوتا تھا اور بتاتا تھا ہم کتنے مہذب ہیں۔ گائوں کے بچے بھی کسی سے کم نہیں ہوتے۔ گھونسلوں سے انڈے اٹھاکر بھاگ جانا اور پرندوں کے معصوم بچوں کو جو ابھی اڑ بھی نہیں سکتے پکڑ لینا ان کے ہاں تفریح سمجھی جاتی ہے۔اس تفریح پر ان کی سرزنش اگر کبھی ہو جائے تو وہ برائے وزن بیت ہوتی ہے۔ ائر گن دیہی ماحول کی وحشت ناک تفریح کا ایک لازمی حصہ سمجھی جاتی ہے۔تیندوا تو تیندوا ہے ، ہمارے جانباز تو فاختہ اور چڑیا کو نہیںچھوڑتے۔عجیب سے سفاک اور فطرت دشمن ماحول میں جب ایک پوری نسل پروان چڑھتی ہے تو کیسا احساس اور کیسا ذوق لطیف؟ تاہم اس معاملے کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔مری اور گلیات کے جنگلوںمیں بلاشبہ صدیوں سے تیندوے رہ رہے ہیں لیکن کچھ سال پہلے حکومت نے جنگلی حیات کے تحٖفظ کے پروگرام کے تحت یہاں خود بھی کافی چیتے چھوڑے۔ اب چیتے تو چھوڑ دیے گئے لیکن ان کی خوراک کا کیا بندوبست ہے؟ پہاڑوں سے دور محفوظ گھروں میں بیٹھے ہم لوگوں کے لیے تو یہ ایک مزے کی کہانی ہوتی ہو گی کہ ہمارے جنگلات میں چیتے آج بھی موجود ہیں ۔وائلڈ لائف کا محکمہ بھی اسے اپنی کامیابی سمجھتا ہو گا لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا کہ مقامی آبادی کس حال میں ہے؟ پلک سری کا قصہ تو ویڈیو خود کہہ رہی ہے کہ یہاں چیتے کا نہیں ، انسان کا قصور ہے۔ پہلے اسے مار مار کر زخمی کیا۔ پھر جب اس پر رسہ ڈالا جا چکا تو اس پر کلہاڑی کا وار کیا گیا۔ وہ ایک زخمی اور خوفزدہ جانور تھا ، اسے یوں گھیر کر مجبور نہ کیا جاتا تو وہ حملہ آور نہ ہوتا۔تا ہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گلیات اور اس کے نواح میں اب تک سات خواتین ان تیندووں کے ہاتھوں ماری جا چکی ہیںاور مویشیوں کا تو کوئی حساب نہیں ہے۔ نڑ گائوں میں تیندوے ایک بچی کو کھا گئے تھے اور اس کا کھایا ہوا دھڑ جنگل سے ملا تھا۔دو سال پہلے اسلام آباد میں شادرا میں امام مسجد کی گائے کھا گئے تھے۔ اسی جاڑے میں گائوں کے لوگوں کے باڑے میں حملے کر کے تیندوے درجن سے زیادہ بکریاں مار گئے تھے۔ توکیا لوگ مرتے رہیں اور اپنے مویشی بھی مرواتے رہیں تا کہ ہم میلوں دور بیٹھے لوگ خوش ہو سکیں کہ ہمارے جنگلات میں تیندوے موجود ہیں؟لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ وائلد لائف کا محکمہ چیتے کے مرنے پر تو دکھی سا ٹویٹ کر دیتا ہے لیکن جب ہمارے مویشی مرتے ہیں اور ہمارا لاکھوں کا نقصان ہوتا ہے تب نہ ٹویٹ کیا جاتا ہے نہ نقصان کا ازالہ کیا جاتا ہے۔ وائلڈ لائف کے محکمے اورحکومت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ زمینی حقائق سے بے نیاز ہو کر پالیسیاں نہیں بنائی جا سکتیں۔ جنگلات میں اگر چیتے چھوڑے گئے تو ان کی خوراک کا کیا بندوبست ہے؟ یہ چیتے اگر گائوں میں آ جائیں تو کیا یونین کونسل کی سطح پر کوئی دفاتر موجود ہیں جہاں ’’ ٹرینکولائزر گن‘‘ موجود ہو اور انہیں بے ہوش کر کے گرفتار کیا جا سکے؟ کیا گائوں کے لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ ایمرجنسی میں وہ کس نمبر پر رابطہ کریں؟ کیا ان جنگلات میںکوئی ریپڈ ٹاسک فورس موجود ہے جو ایسی ہنگامی صورت حال میں فوری طور پر وہاں پہنچ سکے؟ کیا ٹرینکولایزرز سے ان چیتوں کو بے ہوش کر کے ان کے جسم میں مائیکرو چپ لگا کر ان کی نقل و حرکت کا مانیٹر کرنا کا کوئی بندوبست موجود ہے؟اور معاف کیجیے گا ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا مارگلہ سے لے کر گلیات تک وائلڈلائف کے اہلکاروں کے پاس کوئی ایک ٹرینکولائزر گن بھی موجود ہے ؟ کاغذات میں داد شجاعت دینا الگ بات ہے اورزمین پر موجود مسائل سے نبٹنا ایک الگ بات۔