پاکستان پر رحمتِ پروردگار کا سایہ دراز رہا ہے کہ یہ پاکیزہ ترین امنگوں کے ساتھ پیدا کیا گیا۔اسی خیال سے امید کا چراغ جلتا رہتاہے۔ پروردگار کے قوانین میں استثنیٰ مگر کوئی نہیں۔ علاج اور اندمال نہ ہوا تو دھماکہ ہوگا اور ایسا دھماکہ کہ زمین و آسمان لرز اٹھیں گے۔ کیا ہم اسی کے انتظار میں ہیں؟ صاف صاف الفاظ میں وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے وہ بات کہہ دی ہے، غور و فکر کرنے والے بہت دنوں سے جس پہ فریاد کر رہے تھے۔ کہنا ان کا یہ ہے کہ شرح ترقی پانچ فیصد تک نہ پہنچی تو چار پانچ برس کے بعد ملک کا اللہ حافظ۔ ایک حادثہ رونما ہوتا ہے، پھر دوسرا۔ ابھی سنبھل نہیں پاتے کہ تیسرا المیہ۔ بحران دربحران ہے اور اس پر پیہم ہیجان۔ سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی کیا قیامت ہے کہ دامان خیالِ یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے مرحوم نسیم بیگ کہا کرتے: دانشور اور مفکر، سیاستدان اور حکمران، تجزیہ نویس اور وقائع نگار، اور تو سب جانتے ہیں۔ یاد اگر نہیں رہتا تو بس وہ پروردگار ہی نہیں، جس نے آدمی اور کائنات کو تخلیق کیا۔ ہاں!جس کی مرضی کے بغیر پتہ نہیں ہلتا۔ ذاتی زندگیاں بگڑ کر بھی سنور سکتی ہیں لیکن اجتماعی گناہ کبھی معاف نہیں کیے جاتے۔ اس آیت کا مکمل اور حقیقی اطلاق دراصل اجتماعی حیات ہی پر ہے۔ تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ کوئی قوم خود احتسابی سے مستقل طور پر گریزاں رہے تو لڑھکتی ہی چلی جاتی ہے۔ دستِ قضا میں صورتِ شمشیر ہے وہ قوم کرتی ہے ہر زماں اپنے عمل کا جو حساب جنابِ علی کرم اللہ وجہ کا یہ قول بار بار دہرایا جاتا ہے: ملک کفر سے چل سکتاہے مگر ظلم سے نہیں۔یہی تاریخ کی گواہی ہے۔ یہی عصرِ رواں کی۔ نو گیارہ کا حادثہ رونما ہوا تو ایسا لگتا تھاکہ امن و استحکام ریاست ہائے متحدہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوامگر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ نظم و نسق قائم کرنے والے اداروں کو صیقل کیا اور بچ نکلے۔ برباد وہ اوروجوہ سے ہیں۔قرآنِ کریم کہتاہے: کسی قوم کو ہم اس وقت پکڑتے ہیں، اپنی معیشت پر جب اسے ناز ہوجاتا ہے۔ چند برس بعد ملتا جلتا واقعہ برطانیہ میں رونما ہوا۔ انسانی تاریخ میں انگریز شاید وہ واحد عالمی قوت ہیں، جو بکھرے اور سمٹے تو اس قدر ضرور سنبھل گئے کہ فنا کے گھاٹ اترنے سے بچ گئے۔ اس کی بنیادی وجہ قانون کی عمل داری ہے۔ بلا استثنیٰ ہر بچے کی تعلیم اور صحت کے انتظام پر سمجھوتے سے انکار۔ گھمنڈ اور بے حسی بہرحال ایسے امراض ہیں کہ گھن کی طرح قوموں کو چاٹ جاتے ہیں۔ لمحہ لمحہ، رفتہ رفتہ، بتدریج تباہی کی طرف وہ بڑھتی چلی جاتی ہیں؛حتیٰ کہ وہ ساعت آپہنچتی ہے، بچ نکلنا جب ناممکن ہوجاتا ہے۔ زندگی قصاص میں رکھی گئی۔ ایک ایسے نظامِ عدل میں، جو ہرحال میں قصوروار کو سزا دے، خواہ وہ طاقتور ہو یا کمزور۔ جتنا جرم اتنی سزا۔ ظاہر ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے۔ اصل مسئلہ بظاہر معاشی ہے، جیسا کہ وزیرِ خزانہ نے بتایا؛ہرچند ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی صد اثابت ہوئی۔ اس لیے کہ اس سے پہلے کوئی گھٹا اٹھی، نہ اس کے بعد روئیدگی کے کوئی آثار ہیں۔ انگریزی محاورے کے مطابق، شوکت ترین کا احتجاج بہرے کانوں پر گرا۔ یہاں سے وہاں تک ایک سناٹا۔ یہاں سے وہاں تک ایک بے خبری۔ تقدیر پرستی اور کسی غیبی ہاتھ کی تمنا۔ قریب آؤ دریچوں سے جھانکتی کرنوں کہ ہم تو پابہ رسن ہیں ابھر نہیں سکتے اپنی خودنوشت ’’میں اور میرا پاکستان‘‘ میں وزیرِ اعظم عمران خاں نے لکھا ہے، پاکستانی جیلوں میں آدھے قیدی بے گناہ ہیں ۔ وہ لوگ، جو قہرمانوں کی نذر ہوئے۔ جو وکیل کی فیس ادا نہیں کر سکتے اور جنہیں کوئی سرپرست میسر نہیں۔اقتدار پانے کے بعد ان بیچاروں کے لیے عالی جناب نے کیا کیا؟ دونوں ہاتھوں سے اشرافیہ ملک کو لوٹتی چلی آئی ہے۔ بیچ میں ایک ذوالفقار علی بھٹو آئے تھے۔ انہوں نے قومیا کر صنعتیں ہی ذبح کر ڈالیں۔ ایک عشرے میں ایوب خاں نے جنہیں تعمیر کیا تھا۔ سرمایے کے فرار کا سلسلہ تب شروع ہوا، جو اب تک جاری ہے۔بھرپور عزم اور ارادے سے سدباب کی کبھی کوئی باقاعدہ کوشش نہ ہوئی۔ ایک عالمی ادارے کی رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ ملک کی ایک تہائی دولت اشرافیہ پہ لٹا دی جاتی ہے۔گویا کسی ہسپتال کے لیے مختص رقوم مریضوں کی بجائے ضیافتوں پر اڑا دی جاتیں۔ بے حسی طاری ہوجائے تو معاشرہ دوا دارو کی ضرورت سے بے نیاز ہو جاتاہے۔ اس رپورٹ پر ایک ہنگامہ برپا ہو جانا چاہئیے تھا لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔ روتے بسورتے چند اداریے اور رینگتے ہوئے کچھ کالم، اللہ اللہ خیر صلا۔ رات دن گردش میں ہیں سات آسماں ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا اقوام مجروح ہوتی اوراندمال کرتی ہیں۔ احساس اور شعور اگر جاگ اٹھے۔ معاشرے ہوتے ہیں جو بہکتے اور بھٹکتے چلے جاتے ہیں۔ جن کی تقدیر پرستی فقط خیال و خواب کی جنتیں آباد کرتی ہے۔1980ء کا چین بھوک سے بلبلا رہا تھا۔ ماؤزے تنگ کی چڑیاں، چوہے، مکھیاں اور مچھر مارنے کی مہم نے قحط نازل کیا۔ چار کروڑ آدمی زندگیاں ہار گئے۔ شخصیت پرست قوم مگر بیدار نہ ہو سکی؛تاآنکہ پروردگار کو مرتے ہوؤں پہ رحم آگیا۔ معتوب ڈنگ سیاؤ پنگ 1987ء میں برسرِ اقتدار آئے۔ ربع صدی میں چین عالمی طاقت بن گیا۔ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد جرمنی، جاپان، فرانس، برطانیہ اور کوریا کے جی اٹھنے کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ بکھرتے اورموت کے گھاٹ اترتے ہوئے بھارت کی بھی۔ ممتاز ہندوستانی اخبار نویس کرن تھاپر نے لکھا ہے: ابھی پچھلے برس تک ہم خود کو عالمی طاقت سمجھ رہے تھے۔ سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرتی معیشتوں میں سے ایک۔ سوا ارب کی آبادی۔ ایک بھرپور درمیانہ طبقہ۔ تیزی سے پھیلتی ہوئی صنعتیں، عالمی طاقتوں کی نوازشات، سرمایہ کاری کا طوفان اور ایک ایسی کرکٹ ٹیم جو کبھی نہیں ہارتی؛حتیٰ کہ یہ اعلان ہمارے وزیرِ اعظم نے کیا: کرونا کو شکستِ فاش ہم نے دے دی ہے۔ تکبر سے سینہ پھلائے ہم کھڑے تھے کہ برق گری اور پست و پامال ہو گئے۔ کرن تھاپر نے ٹھیک کہا: حقائق کہیں زیادہ خوفناک ہیں۔ مرنے والوں کی روزانہ تعداد تین ہزار نہیں کم از کم بیس ہزار ہے۔ہر روز مبتلا ہونے والے ساڑھے تین، چار لاکھ کے درمیان نہیں کم از کم دس لاکھ ہیں۔ بعض ریاستوں میں کنبھ کے میلے سے لوٹنے والوں کا جائزہ لیا گیا تو 99فیصد مریض نکلے۔ ملک کے کونے کونے میں وبا کو جو پھیلاتے جا رہے ہیں۔ پاکستان پر رحمتِ پروردگار کا سایہ دراز رہا ہے کہ یہ پاکیزہ ترین امنگوں کے ساتھ پیدا کیا گیا۔اسی خیال سے امید کا چراغ جلتا رہتاہے۔ پروردگار کے قوانین میں استثنیٰ مگر کوئی نہیں۔ علاج اور اندمال نہ ہوا تو دھماکہ ہوگا اور ایسا دھماکہ کہ زمین و آسمان لرز اٹھیں گے۔ کیا ہم اسی کے انتظار میں ہیں؟