سندھ میںدوسرے مرحلے کے لئے ہونے والے بلدیاتی انتخابات سے متعلق صوبائی حکومت کی التوا کی درخواست پر سندھ ہائی کورٹ نے اپنا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کو دو ماہ کے اندر انتخابات کے انعقاد کے لئے ہدایت جاری کی ہیں۔ ابتدائی طور پر دوسرے مرحلے کے یہ انتخابات جولائی 2022 میں ہونا تھے ۔جو مسلسل التوا کا شکار ہوتے رہے۔ سندھ میں منتخب بلدیاتی نمائندوں کی مدت اگست 2020 میں ختم ہو گئی تھی۔پہلے یہ کرونا کی وبا کے باعث نہیں ہو سکے۔اس کے بعدحکومت سندھ کی عدم دلچسپی کے باعث اس پر مزید کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔بالآخرعدالتی حکم پر سندھ حکومت بلدیاتی اداروں کے انتخابات دو مرحلوں میں کرانے پر تیار ہوئی۔پہلے مرحلے کے لئے سکھر، شہید بے نظیر آبا د ( نواب شاہ)، لاڑکانہ،اور میر پور خاص ڈویژن کے 14اضلاع کا انتخاب کیا گیا۔ انتخابات کا یہ پہلا مرحلہ30 جون 2022 کو مکمل کرلیا گیا تھا ۔ البتہ دوسرے مرحلے کے لئے انتخابات جو جولائی 2022 میں ہو نا تھے انہیں اب تک مسلسل ٹالا گیا۔پہلے بارش اور سیلاب اس کی وجہ بنے تو اب التوا کے لئے سیکورٹی اہلکاروں کی کمی اور ان کی دیگر مصروفیات اس کا جواز بنیں۔ کراچی میں منتخب بلدیاتی نمائندوں کی غیر موجودگی سے تین کروڑ سے بھی زائد آبادی پر مشتمل یہ شہر ان گنت مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کی حکمرں جماعت ہے وہ اس بات سے آگاہ ہے کے سندھ کے ان دو شہروں کراچی اور حیدر آباد کے بلدیاتی اداروں میں اسے موئثرنمائندگی نہیں مل سکے گی۔منتخب نمائندوں کی غیر موجودگی میں ان اداروں کے اختیارات اپنے متعین کردہ ایڈمنسٹریٹر کے ذریعہ اسے حاصل ہیںلہذا کراچی کے بلدیاتی اداروں میںمنتخب اراکین کی غیر موجودگی اس کے مفاد میں ہے۔اس کے برعکس سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندہ ہو نے کی دعوے دار متحدہ قومی موومنٹ ( پاکستان ) کا انتخابات سے گریز کا سبب عوام میں اس کی مسلسل گرتی ہوئی مقبولیت ہے ۔اگرچہ 2016 کے بلدیاتی انتخابات میں انہیں کراچی کی میئرشپ حاصل تھی مگر وہ شہر کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ر ہی۔اس دوران جماعت اسلامی نے حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں کراچی اور حیدرآباد کے مسائل پر بھرپور توجہ دی ۔ کراچی کی غیر حقیقی مردم شماری ہو یا شہر کئے لئے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم،پینے کے پانی کی تقسیم کا ناقص انتظام ہو یا شہر پر ٹینکر مافیا کے راج کے خلاف آواز ، بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہو یا کے الیکٹرک کی ظالمانہ بلنگ پر احتجاج ، سڑکوں کی خستہ حالی کی طرف توجہ مبذول کرانا ہو یا صحت و صفائی کے ناقص انتظام کی دہائی۔ ہروہ مسئلہ جس نے شہر کو متاثر کیا اس پر اداروں سے لے کر سڑکوں تک ہر سطح پر اگر آواز بلند ہوئی ہے تو وہ جماعت اسلامی کی۔جماعت اسلامی کو شہری سیاست اور خدمت کا ادراک بھی ہے اور تجربہ بھی۔ عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان کی قیادت میں اس شہر نے مسائل حل ہوتے دیکھے ہیں ۔ عمومی تاثر یہ ہے کے کراچی شہر کی آئندہ میئر شپ جماعت اسلامی کے امیدوار کو ملنی چاہیئے۔قومی سیاسی جماعتوں کا اس طرح نچلی سطح پر اختیارات منتخب نمائندوں کو منتقل کرنے سے اجتناب ان کی جمہوریت سے سطحی وابستگی کو آشکار کرتا ہے ۔ سیاسی جماعتیں جو ، بلا تخصیص ،وفاق سے صوبوں کے لئے اختیارات کے حصول کے لئے بہت زیادہ مستعد اور پر جوش ہوتی ہیں مگر وہ یہ اختیارات شہری سطح پر بلدیاتی اداروں کو منتقل کرنے میں اکثر ہچکچاہٹ کا شکار رہتی ہیں۔ بلدیات کی سطح پر منتخب نمائندوں کی موجودگی آئینی تقاضہ ہے اور حیرت انگیز امر یہ ہے کہ سیاسی اور جمہوری حکومتوں کے دوران ہی اسے زیادہ نظر انداز کیا جاتا رہاہے۔ بلدیاتی ادارے جمہوری سیاسی نظام کی نرسری ہوتے ہیں ۔ عوام کو درپیش بیشترمسائل بلدیاتی اداروں کے توسط سے ہی حل ہوتے ہیں۔ قومی مالیات کی تقسیم کے نظام کے تحت یہ وفاق سے صوبوں اور پھر شہری سطح پر منتخب بلدیاتی اداروں کو منتقل کرنا ہوتے ہیں ۔ پاکستان کے جمہوری سیاسی نظام پر مضبوط گرفت کی حامل اشرافیہ کا بنیادی مقصد طاقت اور اقتدار کا حصول ہے۔اور اس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ قومی مالیات پر اس کا اختیار بلا شرکت غیرے ہو۔اختیارات کے ارتکاز کی یہ نفسیات ان کی سماجی اور سیاسی مجبوری بن جاتی ہے۔ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی یہ پوری کوشش ہوتی ہے کہ ترقیاتی فنڈ ان کے توسط سے استعمال ہوں اور وہ عوام میں اپنی کارکردگی کو پیش کر سکیں۔ترقیاتی فنڈ کے استعمال پر اراکین اسمبلی کی یہ گرفت ہی ان کے مالیاتی اور سیاسی طاقت کا سرچشمہ ہوتی ہے ۔یہ ہے وہ بنیاد ی قضیہ جس کے باعث جمہوری سیاسی حکومتیں اولا تو بلدیاتی انتخابات سے گریز کرتی ہیں تو ثانیا وہ ان کے اختیارات کو کم سے کم سطح پر رکھنا چاہتی ہیں۔ کراچی کو درپیش مسائل کی موجودگی میں نہ تو سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اس قابل ہے کہ وہ ان انتخابات میں کراچی سے اپنی کامیابی کی کوئی امید کرسکے اور نہ متحدہ قومی موومنٹ کے پاس، جسے 2020 تک اس شہر کی میئرشپ حاصل رہی ، کوئی ایسی کارکردگی ہے جسے وہ عوام کے سامنے پیش کرسکے۔ جب کہ اس دوران حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں جماعت اسلامی نے شہر کے مسائل پر ہر سطح پر بھرپور آواز اٹھائی جس کے باعث کراچی میں عمومی تاثر یہ ہے کہ اگرفوری بلدیاتی انتخابات ہو ں تو اس میں جماعت اسلامی کی کامیابی کے امکانات زیادہ روشن ہیں ۔یہ وہ خوف ہے جو ان دونوں جماعتوں کو بلدیاتی انتخابات کے التوا کے لئے مجبور رکھے ہوئے ہے۔سندھ حکومت کے پاس حفاظتی انتظامات کے لئے پولیس کی کمی کا جواز ہے ( حالانکہ وفاقی حکومت کی درخواست پر سندھ حکومت نے چھ ہزار پولیس کی نفری اسلام آباد بھیجی ہے ) تومتحدہ قومی موو منٹ موجودہ بلدیاتی حلقوں کی تقسیم سے مطمئن نہیں ہے جب کہ ان ہی حلقوں کی بنیاد پر وہ گزشتہ بلدیاتی انتخاب میں حصہ لے چکی ہے عدالتی فیصلہ اب آچکا ہے ۔اب ان انتخابات کو زیادہ دیر تک نہیں ٹالا جاسکتا۔