گزشتہ دنوں کراچی میں قومی اسمبلی کی نشست پر ہونے والے انتخاب نے درحقیقت کراچی کی موجودہ انتخابی صورتحال کو اجاگر کردیا۔ تحریک انصاف کے امیدوار نے 29 ہزار ووٹ لئے۔ ایم کیو ایم نے 13ہزار ووٹ لئے۔ تحریک لبیک نے بھی ثابت کیا کہ اس کے فیکٹر کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس نے کم و بیش 9ہزار ووٹ لئے۔ یہ بھی تجزیہ طلب بات ہے کہ ٹی ایل پی کس جماعت کے ووٹ کاٹتی ہے یا سب کے تھوڑے تھوڑے ووٹ کاٹتی ہے۔ پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ دنوں کورنگی لانڈھی کے حلقے کے ضمنی انتخابات میں ایم کیو ایم ٹی ایل پی کے مقابلے میں صرف 65 ووٹوں سے کامیاب ہوئی۔ یہ خطرے کی واضح گھنٹی تھی۔ پھر بھی شاید انہوں نے اس عوامی موڈ کا ادراک نہیں کیا ۔ ان انتخابات میں کم از کم فاروق ستار اور پی ایس پی کے ساتھ حالات بہتر کئے جاسکتے تھے۔ لندن فیکٹر تو ظاہر ہے ابھی الگ ہے۔ ایم کیو ایم نے یہ موقع ضائع کیا اور اس کا خمیازہ بھگتا۔ فاروق ستار صاحب نے تقریباً 3500 ووٹ لئے۔ پی ایس پی کے 1100 ووٹ تھے۔ 2018ء کے الیکشن میں اگر پی ٹی آئی کے ووٹ دیکھیں اور ان کے مخالفین کے ووٹوں کو یکجا کریں تو مخالفین کے ووٹ زیادہ تھے۔ اب کے تو یہ ہوا کہ مخالفین کے ووٹ یکجا کربھی لیں تو بھی پی ٹی آئی کے ووٹ زیادہ ہیں۔ سیاسی صورتحال میں معاملات کا جائزہ لینے کیلئے یہ الیکشن واقعتاً بیرومیٹر کا کام کررہا تھا۔ اس میں ایک پہلو جس پر بات نہیں کی گئی وہ یہ تھی کہ الیکشن کمیشن کو یہ ضرور طے کرنا چاہئے۔ اس حلقے میں ساڑھے پانچ لاکھ ووٹ تھے۔ آخر کتنے ووٹ پڑنے چاہئیں جس سے یہ طے ہو کہ ہاں مقابلہ ہوا جم کر ہوا ۔ کس تناسب سے کم از کم ووٹ پڑیں گے تو انہیں الیکشن تسلیم کیا جائے گا۔ پورے پاکستان میں ایسا کوئی پیمانہ بنانا چاہئے۔ الیکشن کمیشن کو یہ ضرور غور کرنا چاہئے کہ اگر کہیں 5 سے 10 فیصد ٹوٹل ووٹ پڑے تو کیا اسے الیکشن تصور کیا جائے یا نہ کیا جائے‘ لیکن یہ آنے والے الیکشن کیلئے ہے۔ ابھی تو یہ ہوا کہ پی ٹی آئی کو جتنا بھی ووٹ پڑا اسے اپنے مخالفین پر واضح اکثریت ملی۔ اس میں جب ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں میں اتحاد کی بات ہوتی ہے تو اس وقت ان سب کی اناؤں کے مسائل اس طرح آجاتے ہیں جیسے نہ جانے ان کو کتنی بڑی عوامی سپورٹ حاصل ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ 5-5 بار ایم این اے‘ ایم پی اے اور میئر کراچی جیسے منصب پر فائز رہنے والے فاروق ستار کس مقام پر آکھڑے ہوئے ہیں۔ مصطفی کمال جنہوں نے 2016ء سے جب سے اپنی پارٹی بنائی ہے تمامتر دعوؤں کے باوجود کوئی ایک بھی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کس مقام پر کھڑی ہوگئی ہے۔ ایم کیو ایم حقیقی بھی کبھی کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے‘ جب یہ جماعتیں آپس میں اکٹھی ہوکر بیٹھتی ہیں اور مذاکرات کرتی ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس لاکھوں سپورٹرز موجود ہیں۔ ایک اور پہلو جو قابل غور ہے ، وہ ٹی ایل پی کا ووٹ ہے۔ اگر ہر حلقہ میں ان کے 15-10 ہزار ووٹ ہیں تو پھر جان لیجئے کہ یہ ووٹ بینک بلدیاتی انتخابات میں اپنا اثر اور جھلک ضرور دکھائے گا۔ ان انتخابات میں 264 یو سی چیئرمین منتخب ہوئے ہیں۔ اس طرح لوکل باڈیز الیکشن ایم کیو ایم پاکستان کیلئے بہت فیصلہ کن ہوں گے۔ اس میں Nowیا Never والا معاملہ ہوگا۔ اس کے بعد بہت تبدیلی آجائے گی۔ اس میں دو فیکٹرز ہوسکتے ہیں۔ اس میں سے کچھ ووٹ بینک تو ایم کیو ایم سے نکل گیا ہے۔ یعنی ایم کیو ایم کے تمام گروپوں اور دھڑوں کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ وہ یا تو پی ٹی آئی میں چلا گیا ہے‘ وہ جماعت اسلامی میں چلا گیا ہے یا پھر وہ ٹی ایل پی میں چلا گیا ہے۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ پیپلز پارٹی کا بہت سا ووٹ بینک ٹی ایل پی میں چلا گیا ہے۔ جو ووٹ بینک ایم کیو ایم لندن سے جڑا ہوا ہے وہ تو گھروں سے ہی نہیں نکل رہا۔ شاید ان کا ٹارگٹ یہ نظر آتا ہے کہ انتخابات میں ایم کیو ایم کا اسٹیکر چسپاں کرنے والا کوئی نہ جیت سکے۔ اب اس خلاء کو کوئی نہ کوئی تو پر کرے گا۔ 2001ء میں انہوں نے بائیکاٹ کیا تھا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جماعت اسلامی کا میئر بن گیا۔ یوں لگ رہا ہے کہ بلدیاتی الیکشن میں اس وقت جو اصل مقابلہ ہوگا وہ پی ٹی آئی‘ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی میں ہوگا۔ باقی ایم کیو ایم اور ٹی ایل پی اس کے بعد آئیں گی۔ یہ میرا ایک تجزیہ ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اوپر والی جماعتوں میں سے کسی دو جماعتوں میں میئر اور ڈپٹی میئر پر اتفاق ہوجائے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایم کیو ایم کا ووٹ سکڑا ہے اور پھر وہ تتر بتر ہوا ہے‘ باہم بٹ گیا ہے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اتحاد ہونا چاہئے تھے۔ ہمارا ایجنڈا اور بیانیہ ہونا چاہئے تھا‘ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہئے تھا اور انٹرا پارٹی الیکشن کرانے اور اس میں زمینی حقائق کی بنیاد پر دور رس فیصلے کئے جاتے۔ فاروق ستار کا کہنا ہے کہ میں نے تو ایم کیو ایم پاکستان سے کہا تھا کہ مجھے کوئی عہدہ نہیں چاہئے‘ میں تو ایک ورکر کے طور پر پارٹی کیلئے پوری سرگرمی سے کام کروں گا۔ میں نے لوگوں کے ساتھ جو رابطے مضبوط کئے ہیں اس کی بنیاد پر میں پارٹی کا اثاثہ بنوں گا۔ ہم لوگوں کی شکایتوں اور بدگمانیوں کو مل کر ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ درحقیقت ایم کیو ایم کو بڑی سنجیدگی سے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ یہ منظر یکدم نہیں بدلا‘ بلکہ اس کے بے شمار محرکات اور اسباب ہیں۔ سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم آئندہ ہونے والے انتخابی معرکہ آرائیوں میں کم بیک کرسکے گی یا پھر اسے اپنے تمام دھڑوں کے اتحاد اور ساتھ ساتھ ان غلطیوں کا بھی ازالہ کرنا پڑے گا۔ جو ماضی میں ہوئیں اور آگے بڑھنے کیلئے عوام کے ساتھ اس کے اعتماد کے تعلق کو کیونکر قائم کیا جائے۔ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب خود ایم کیو ایم کو ڈھونڈنا ہوگا۔