جناب وزیر اعظم نے الیکشن کمیشن کے خلاف فرد جرم مرتب کر دی ہے۔عمران خان صاحب کو الیکشن کمیشن سے دو شکایات ہیں۔ پہلی شکایت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے خفیہ ووٹنگ پر اصرار کیوں کیا اور دوسری شکایت یہ ہے کہ اس نے اس مختصر سے وقت میں بیلٹ پیپرز پر بار کوڈ کیوں نہیں لگایا۔ ان دونوں اعتراضات کو وابستگی ، نفرت اور عقیدت سے بالاتر ہو کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ معلوم نہیں ،وزیر اعظم کو ان کے رفقائے کار چیزوں کے بارے میں درست معلومات نہیں دیتے یا یہ ان کا تجاہل عارفانہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے الیکشن کمیشن نے خفیہ ووٹنگ پر کوئی اصرار نہیں کیا۔ اس نے صرف یہ کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 226 میں لکھا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں خفیہ ووٹنگ ہو گی اور ہم آئین کے پابند ہیں۔ یہی موقف سپریم کورٹ نے بھی تسلیم کیا اور جناب چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں لکھا ہے ووٹنگ خفیہ ہو گی تو بات ختم ۔ جناب جسٹس یحیی آفریدی نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ صدارتی ریفرنس میں پوچھا گیا ،سوال قانونی سوال ہے ہی نہیں ،اس لیے اس ریفرنس کو جواب دیے بغیر واپس کیا جاتا ہے۔ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ چونکہ آئین میں خفیہ ووٹنگ کی بات بہت واضح لکھ دی گئی ہے، اس لیے اس میں نہ کوئی ابہام ہے، نہ اس پر کوئی قانونی سوال پیدا ہوتا ہے کہ صدر محترم ریفرنس بھیج دیتے۔الیکشن کمیشن پابند تھا کہ آئین کے مطابق الیکشن کراتا۔ یہ اگر مناسب نہیں ہے تو الیکشن کمیشن پر غصہ کرنے کی بجائے پارلیمان کو آئین میں تبدیلی کرنی چاہیے۔ بار کوڈنگ کا معاملہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے خیال میں اتنی مختصر مہلت میں یہ ممکن نہیں تھا۔سپریم کورٹ کا فیصلہ یکم مارچ کو آیا تھا اور تین مارچ کو الیکشن تھا۔بیچ میں صرف ایک دن تھا۔ایک دن میں یہ کیسے ممکن تھا کہ نئے بیلٹ پیپرز تیار ہوتے ، ان پر بار کوڈنگ ہوتی اور وہ پشاور ، کراچی اور کوئٹہ تک متعلقہ اسمبلیوں کو پہنچا بھی دیے جاتے؟ الیکشن کمیشن سے جس جادوئی کمالات کا مطالبات کیا جا رہا ہے ،ایسے مطالبہ اپنے وزرائے کرام سے بھی کیا جاتا تو حکومت کارکردگی کے باب میں سرخرو ہو چکی ہوتی اور کسی ایک سیٹ پر شکست اس کے لیے سرے سے کوئی ایشو ہی نہ ہوتا۔یہ سوال بھی بڑا اہم ہے کہ فارن فنڈنگ کیس میں تو تحریک انصاف نے کبھی مطالبہ نہیںکیا کہ جلد فیصلہ کیا جائے ۔وہاں تو التوا کی اتنی درخواستیں دی گئی کہ الیکشن کمیشن کو لکھنا پڑا کہ تحریک انصاف نے قانونی طریقہ کار کے غلط استعمال کی بد ترین تاریخی مثال قائم کر دی ہے۔ قانونی اور سیاسی حلقے اس بار کوڈنگ پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ ایک ایسی قانونی نظیر جو 1973 کے آئین سے پہلے کہیں موجود تھی، اس کا اطلاق آئین کے ایک واضح آرٹیکل پر کیسے کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اگر اس سے پہلے ایسا کوئی فیصلہ کہیںموجود بھی تھا، تو پارلیمان نے جب آئین بنایا اور Shall لکھ کر سینیٹ انتخابات کو خفیہ ووٹنگ سے کرانے کا اصول طے کر دیا، تو اس سے پہلے کی ہر تعبیر گویا منسوخ ہو گئی اور اب وہی ہو گا جو آئین نے واضح کر دیا۔ سارے ابہام دور کر دیے۔اب اگر ووٹنگ خفیہ ہے تو کسی دوسرے طریقے سے اسے آشکار نہیں کیا جا سکتا۔تاہم یہ محض رائے کا اختلاف ہے ۔ بالادست حیثیت اسی تعبیر کو رہے گی جو سپریم کورٹ نے کر دی۔وقت کی نزاکت کا احساس شاید سپریم کورٹ کو بھی تھا، اسی لیے الیکشن کمیشن کو پابند نہیں کیا تھا کہ وہ یہ الیکشن بھی بار کوڈ کے ذریعے کرائے۔ آگے چل کر ہو سکتا ہے بار کوڈ لگا دیے جائیں لیکن اس مختصر وقت میں بار کوڈ کیسے لگائے جا سکتے تھے؟ تحریک انصاف کی ایک پارلیمانی تاریخ ہے۔ اس مطالبے کو اس تاریخ کی روشنی میں بھی دیکھا جانا چاہیے۔سوال یہ ہے کہ کیا کبھی بھی ، الیکشن کمیشن کے سامنے یا انتخابی اصلاحات کمیٹی کے سامنے یا کسی صوبائی اسمبلی میں یا قومی اسمبلی میں یا سینیٹ میں کہیں بھی تحریک انصاف نے یہ تجویز یا مطالبہ پیش کیا کہ ایوان میں خفیہ ووٹنگ ختم کی جائے اس سے ہارس ٹریڈنگ کو فروغ ملتا ہے؟اب اچانک اس معاملے پر اتنی حساسیت کیوں؟ آرٹیکل 63 اے کے تحت تحریک عدم اعتماد ، اعتماد کے ووٹ ، بجٹ یا قائد ایوان کے انتخاب کے وقت اگر کوئی رکن پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ دے یا غیر حاضر رہے تو ناہل قرار دے دیا جائے گا۔ صادق سنجرانی صاحب کے خلاف جب تحریک عدم اعتماد آئی تو حزب اختلاف کے 14 ووٹ ادھر ادھر ہو گئے۔ آئین کے مطابق یہ لوگ نا اہل ہوجانے تھے۔لیکن خفیہ ووٹنگ کی وجہ سے ان کی شناخت نہ ہو سکی۔ حزب اختلاف نے احتجاج کیا تو شبلی فراز نے کہا ان لوگوں نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا ہے اور ایوان کا وقار بلند کیا ہے۔ عمران خان بھی خاموش رہے۔ انہوں نے کوئی مطالبہ نہ کیا کہ یہ ووٹ کیسے خریدے گئے اور کیوں خریدے گئے۔ ان کے پرستاروں اور مداحین نے بھی اسے حکومت کی بصیرت قرار دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے عدم اعتماد میں آئین یہ گنجائش نہیں دیتا کہ پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ دیا جائے لیکن ایسا ہوا اور تحریک انصاف خاموش رہی۔ اور سینیٹ کے انتخاب میں آئین اجازت دیتا ہے، جسے چاہو ووٹ دو اور یہاں تحریک انصاف غم و غصے کے عالم میں ہے۔ ایک طالب علم کے طور پر سوال یہ ہے کہ یہ غم و غصہ اصول کی بنیاد پر ہے یا مفاد کی بنیاد پر؟یہ کیسا رویہ ہے کہ ہر اس ادارے کی دھول اڑا دو جو ہماری رائے سے اختلاف کرے؟ تحریک انصاف کی اصل قوت اس کی اخلاقی برتری تھی۔ اخلاقی برتری کی جگہ اگر پروپیگنڈے کی غیر معمولی قوت سے میدان مارنے کی کوشش کی جائے گی تو ایک یا دو مواقع پر تو اس سے کامیابی شاید حاصل ہو جائے لیکن یہ پائیدار کامیابی کی ضمانت نہیں۔ معاشرہ نیم خواندہ سہی اور عصبیت منہ زور سہی لیکن ٹیکنالوجی کے اس دور میں حقائق چھپے نہیں رہ سکتے۔ تھوڑے ہی وقت میں لوگ جان جاتے ہیں کون کہاں کھڑا ہے۔