اُدھر جب کہ سینٹ آف پاکستان کے انتخابات میں ووٹنگ جاری تھی تو اِدھر ٹی وی پر کئی سینئر تجزیہ کارگھنٹوں بیٹھے ہمیں آپ کو جمہوریت کے فوائد بتاتے رہے۔مچھروں کو بیٹھے چھانتے رہے، مگر ایک شب پہلے منظر عام پر آنے والی صاحبزادے کی ویڈیو ز کواونٹوں کی صورت نگلتے رہے۔بتایا جاتا ہے کہ رات گئے صاحبزادہ زرداری صاحب کے عشایئے میں شریک تھا۔کسی نے مگر ہمیں یہ نہیں بتایا کہ پکڑے جانے پر شرمسار تھا۔نتیجے کا اعلان ہوتے ہی کئی ایک اینکر پرسنز کے بس میںاگر ہوتا تو ٹی وی سکرینیں پھاڑ کر باہر ہی نکل آتے۔کئی ایک تو فرطِ جذبات سے چیخ اٹھے ،’یہ جمہوریت کی فتح ہے، یہ سیاست کی فتح ہے‘۔ بولے، برطانیہ میں یوں حکومتی امیدوار ہار جاتا تو وزیرِ اعظم کھڑے کھڑے مستعفی ہو جاتا۔ یہ نہیں بتایا کہ اگر برطانوی وزیرِ اعظم کی بیوی کے گلے میں آفت زدوںکی امداد کے لئے عطیہ کیا ہوا ہاردیکھا گیا ہوتا تو وزیر اعظم کا ردِ عمل کیا ہوتا!معاشرے کا ردِ عمل کیا ہوتا! 17 حکومتی ارکانِ قومی اسمبلی کوکامیابی سے توڑے جانے کے نتیجے میں گیلانی صاحب سینٹر منتخب ہو گئے تو چیئرمین بلاول نے ٹویٹ کرتے ہوئے ہمیں بتایا، ’یہ جمہوریت کا انتقام ہے‘۔ درست فرمایا،یہ انتقام ہی تو ہے جوان سب پاکستانیوں سے لیا جا رہا کہ جنہوں نے ’نئے پاکستان‘ کا خواب دیکھا تھا ۔یہ خواب میرے اور آپ جیسے ان پاکستانیوں کے لئے طعنہ بنا دیا گیا ہے کہ جنہوں نے ادھیڑ عمری میں پہلی بار اپنے گھروں سے نکل کر تبدیلی کے لئے ووٹ ڈالا تھا۔ کم ازکم ایک کروڑ ستر لاکھ پاکستانی مجرم ہیں کہ جنہوں نے قطار اندر قطارکھڑے ہوکر عمران خان کو ووٹ ڈالا تھا۔اب ان سب سے انتقام لیاجانا ہی بنتا ہے۔ رات گئے پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمٰن کی توجہ ان مزید ویڈیوز کی جانب مبذول کی گئی کہ جن میں صاحبزادہ منتخب ارکان قومی اسمبلی کے ووٹ گیلانی صاحب کو ڈالے جانے کی صورت میںکروڑوں روپے کی رشوت پیش کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ مولانا بولے،’ یہ محض بعد ازمرگ واویلہ ہے‘۔مولانا صرف ایک سیاسی رہنماء نہیں ہیں، ایک عالمِ دین بھی ہیں۔ ایک بڑے مذہبی خانوادے کے وارث اور بہت بڑے مسلک کے نمائندہ ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں ان کے زیرِ اثر مدرسوں کا جال بچھا ہے، جہاں لاکھوں نوجوان دین کی تعلیم پاتے ہیں۔نفس کی پاکیزگی کے لئے ان کی طرف دیکھتے ہیں۔دین میں رہنمائی کے لئے ان کو پیشوا مانتے ہیں۔اس دین کا مقصد جو قرآن میں بیان ہوا ہے، وہ قرآن کی اپنی اصطلاح میں ’تزکیہ نفس‘ ہے۔تزکیہ کہ جس کے معنی ہیں کہ انسان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو تمام آلائشوں سے پاک کرتے ہوئے دائمی زندگی کواپنا نصب العین بنائے۔کیا مولانا کو یہ معلوم نہیں کہ قرآن ، کہ جس سے مشابہت والا انتخابی نشان آپ اپنا دائمی حق جانتے ہیں، ایمانیات اور عبادات کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اورفضائل پر بھی اسی قدر اصرار کرتا ہے۔ یہ آپ جیسے بزرگ ہی ہمیں بتاتے ہیں کہ ایمان کی بنیاد اعمالِ صالح پرہوتی ہے۔ حق کہو، انصاف کرو۔انصاف کی شہادت دو۔خبردار،کسی فرد، کسی گروہ یا کسی قوم کی دشمنی تمھیں انصاف سے نہ پھیر دے۔ ممتاز بھارتی قانون دان اے جی نورانی نے’کیا ہم ناکام ہو چکے؟‘ کے عنوان سے ایک دلچسپ مضمون لکھا ہے۔مضمون میں نوآبادیاتی نظام میں پروان چڑھنے والی مقامی لیڈرشپ کے عمومی رویوں کو زیرِ بحث لا تے ہوئے بتایا گیا ہے کہ برِ صغیر کے زیادہ تر رہنماء مغربی چشموں سے پھوٹنے والے جمہوری افکار اور نظریات سے فیض یاب ہونے کے باوجود موقع ملنے پر ان رویوں کو خود اپنے ہاں اپنانے میں ناکام رہے ہیں۔مضمون نگار کا خیال ہے کہ دورِ غلامی میںاستبداد اور جبر کے جس نظام کے خلاف یہ رہنما جدوجہد کرتے رہے، آزادی دستیاب ہونے کے بعد اسی جبر کا مظاہرہ انہوں نے اپنے عوام کے ساتھ روا رکھا۔چنانچہ تیسری دنیا کے اکثر مقامی حکمران رویوں میں اپنے سابقہ آقائوں کی بھر پور شبیہہ نظر آتے ہیں۔ روح سے خالی ، محض گوشت پوست پر مبنی نام نہاد جمہوری ڈھانچہ ہی دیسی حکمران طبقے کو راس تھا۔چنانچہ آزادی کی تحریکوں کے دوران مقبولیت کے بامِ عروج کو چھونے والے اکثر رہنمائو ں نے اقتدار ملنے پر مالی بد عنوانی کے خاتمے اور معاشرے میں جمہوری اقدار کے فروغ کے لئے کوئی قابلِ ذکر کاوش نہیں کی۔راجہ گوپال اچاری ،سال1920ء میں دورانِ قیداپنی ڈائری میں پیغمبرانہ پیش گوئی کرتے ہوئے لکھتے ہیں،’آزادی کے بعدانتخابات میں دھاندلی، معاشرے میں عمومی نا انصافی،دولت کے بل بوتے پر قائم کردہ مطلق العنانی اور انتظامیہ کی نا اہلی جیسے عوامل آزاد مملکتوں کے عوام کی زندگی اس طرح دوزخ بنا دیں گے کہ لوگ غیر جمہوری غلامانہ دور کو پلٹ کر یاد کریں گے‘۔ دسمبر 1930ء میں لندن کی گول میز کانفرنس میں ملاقاتوں کے بعدلبرل لیڈر سر تیج بہادر سپرو نے ہندوستان میں اپنے ایک دوست کوخط میں لکھا ،’ ہندوستانی آزادی اور جمہوری حقوق کی بہت باتیں کرتے ہیں، لیکن جمہوری ذہنیت سے عاری ہیں‘۔بھارتی آئین ساز ڈاکٹر بی آر امبیدکر پارلیمنٹ سے خطاب میں کہتے ہیں، ’ایک آئین کتنا ہی شاندار کیوں نہ ہو، اس کی کامیابی کا انحصار اس پرعمل درآمد کرنے والوں، بالخصوص سیاسی پارٹیوں کی قابلیت پر ہے‘۔ڈاکٹر امبیدکر کسی اور جگہ کہتے ہیں،’آزادی حاصل کرنے کے بعد ہمارے قومی رہنمائوں کا سب سے بڑا امتحان معاشرے میں اخلاقیات کا فروغ تھا۔ تاہم اکثر قومیتوں اور قبائلی عصبیتوں کا شکار ہو کر رہ گئے‘۔ وطنِ عزیز میں خود ترحمی کے شکار’جمہوریت پسند‘،( حال ہی میں’ نظریاتی‘ ہونے والے میرے مخاطب نہیں)، یقیناََ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ عہدِ عتیق کے مذہبی راہبائوں کی حکومتوں سے شروع ہوکر، قرونِ وسطیٰ کی بادشاہتوں سے ہوتے ہوئے دورِ جدید تک ،قوموں کے عروج و زوال کا معاملہ طرزِ حکومت سے زیادہ کئی دیگر عوامل پرمنحصر رہا ہے۔مغربی میںری پبلک ریاستیں تو اطالوی بیداری (Renaissance) کے زیرِ اثر پندرویں صدی کے بعد وقوع پذیر ہونا شروع ہو گئی تھیں، تاہم جدید مغربی جمہوری ریاستیں بیسویں صدی میںاپنائی گئی اعلیٰ اخلاقی قدروں کی پیدا وار ہیں۔ صدیوں پر محیط انسانی تاریخ کا نچوڑ یہی ہے کہ سلطنتیں ،ریاستیں اور معاشرے کفر کے نظام پر تو قائم رہ سکتے ہیں، ظلم کے نظام پر نہیں۔ظالم معاشرے ان اخلاقی قدروںسے عاری ہوتے ہیں،کہ جن کا حکم ’الحکمہ‘ میں ایمانیات اور عبادات کے ساتھ ساتھ آیا ہے۔انہی اخلاقیات پر جمہوری نظام کی کامیابی اور استحکام کا دارومدار ہے۔انہی اخلاقیات سے وطنِ عزیز روزِ اول سے محروم چلا آرہا ہے۔ اِسی محرومی کا نتیجہ ہے کہ یوسف رضا گیلانی کے سینٹر منتخب ہو جانے کو چیئرمین بلاول’ جمہوریت کا انتقام‘ ،جبکہ اس انتخاب کے پسِ پشت محرکات کوہمارے مولانا ’بعد از مرگ واویلا ‘کہتے ہیں۔