واشنگٹن (ویب ڈیسک) پاکستان سمیت دنیا بھر میں اکثر ہمیں سننے کو ملتا ہے کہ نئے گھر میں پہلی رات کو سونے کیلئے لیٹنے پر نیند آنکھوں سے غائب ہوگئی ہے۔درحقیقت کسی نئی جگہ پر پہلی رات اکثر افراد کو نیند نہیں آتی؟ اس بات کا جواب جریدے جرنل کرنٹ بائیولوجی میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ کسی نئی جگہ نیند نہ آنے کے پیچھے یہی وجہ ہے یعنی جانوروں جیسا چوکنا پن۔مگر بدقسمتی سے ہمارا دماغ ہوٹل کے کمروں، رشتے داروں یا دوستوں کے کمروں اور نئے گھر کو بھی اس خطرے میں شامل کردیتا ہے۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ کسی خطرناک اور ناقابل پیشگوئی ماحول میں سونے کا موقع ملے تو ذہن کس حد تک ہوشیار اور چوکس ہوسکتا ہے ۔ ، جس کی وجہ سے وہاں پہلی رات سونا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔تحقیق کے دوران 35 صحت مند افراد کی خدمات حاصل کی گئیں اور انہیں سلیپ لیب میں ہفتے کے فرق سے 2 راتوں کو سونے کی ہدایت کی گئی۔رضاکاروں کے ساتھ ایسی مشینیں بھی منسلک کی گئیں جو کہ دل کی دھڑکن، خون میں آکسیجن لیول، سانس، آنکھوں اور ٹانگوں کی حرکت کے ساتھ دماغ کے دونوں حصوں کی سرگرمیوں کو مانیٹر کررہی تھیں۔سائنسدانوں نے زیادہ توجہ دماغ کے ایک ایسے رویے پر مرکوز کیں جس سے عندیہ ملتا ہے کہ کوئی فرد کتنی گہری نیند سو رہا ہے اور یہ بھی دیکھا کہ کمرے میں مداخلت نیند کی گہرائی کو کس حد تک متاثر کرتی ہے۔سائنسدان دماغ کے دونوں حصوں میں فرق کو نہیں دیکھ رہے تھے مگر انہوں نے اسے دریافت کیا، پہلی رات نیند کے دوران رضاکاروں کے دماغ کے بائیں حصے میں زیادہ چوکنا پن نظر آیا۔خیال رہے کہ ایسا مانا جاتا ہے کہ دماغ کا بایاں حصہ اجنبی آوازوں کے حوالے سے زیادہ حساس ہوتا ہے۔ایک ہفتے بعد رضاکار دوبارہ اس جگہ آئے اور دماغی سرگرمیوں سے عندیہ ملا کہ اب دماغ اس ماحول کو شناسا ہوچکا ہے اور دونوں حصوں میں چوکنا پن کی سطح برابر تھی۔محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے دماغ میں وہیلز اور ڈولفن جیسا سسٹم موجود ہے۔ اکثر شہر یا مک سے باہر جانے والے افراد لاشعوری طور پر اپنے دماغوں کو اس اثر سے بچانے کی تربیت دیتے ہوں، کیونکہ ہمارے دماغ بہت لچکدار ہوتے ہیں، یعنی اکثر نئی جگہوں پر جانے والے افراد میں ضروری نہیں کہ پہلی رات نیند نہ آنے کے مسئلے کا سامنا ہو۔