احباب نے ڈانٹ لکھ بھیجی ہے کہ روسی وزیر خارجہ کے اتنے اہم دورے کے موقع پر ہمارے ہاں وزیر خارجہ کی چھتری جیسے نان ایشو پر کیوں مضامین باندھے جا رہے ہیں؟ کیا یہ ہمارے فکری افلاس کا ثبوت نہیں ہے؟ احباب کو معلوم ہونا چاہیے کہ بنیادی طور پر یہ چھتری نہیں بلکہ جناب وزیر خارجہ کا رویہ ہے جس پر ملک بھر میں بات کی جا رہی ہے۔امور خارجہ بہت نازک ہوتے ہیں۔ یہاں آپ اس دھج سے نہیں جا سکتے جیسے حلقہ انتخاب یا جلسہ عام میں جاتے ہوں۔ افتاد طبع حائل بھی ہو رہی ہو تب بھی امور خارجہ میں خود پر جبر کر کے بہتر اور شائستہ رویے کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔جیسے احباب کو اس نزاکت کا احساس ہے کہ اتنے عرصے بعد اتنے اہم ملک کا وزیر خارجہ تشریف لا رہا تھا ایسے ہی دنیا بھر کے مبصرین بھی اس واقعے کو دیکھ رہے ہوں گے۔ سفارت کاری کی دنیا میں مصافحے سے معانقے اور مسکراہٹ تک کے اپنے معانی ہوتے ہیں۔آپ نے انہیں کیا پیغام دیا ہے؟ یہی کہ ہم آج بھی جارج آرول کے اینمل فارم میں رہتے ہیں جہاں کہنے کو سب برابر ہیں لیکن کچھ لوگ کچھ زیادہ ہی برابر ہیں ۔وہ اپنی چھتری بھی خود نہیں تھام سکتے اور ان کے خادم خود بارش میں بھیگ کر ان کے سر پر سایہ کیے رکھتے ہیں۔ مہمان جب تشریف لائے ،بارش ہو رہی تھی۔ آداب میزبانی تو یہ تھے کہ قریشی صاحب کے ہاتھ میں چھتری ہوتی اور وہ خود آگے بڑھ کر مہمان کے سر پر تان دیتے۔ مہمان کو عزت دینے سے شان کم نہیں ہوتی بڑھتی ہے۔تا ہم اگر مہمان اپنے ساتھ چھتری لے کر جہاز سے اترے تو ہمارے وزیر خارجہ کو اتنا تو نظر آ رہا تھا کہ مہمان نے اپنی چھتری خود تھام رکھی ہے ، وہ بھی اپنی چھتری خود پکڑ لیتے۔وہ وزیر اوقاف نہیں کہ ان کا تجربہ صرف پاکستان کے آٹھ دس اضلاع تک محدود ہو۔ وہ وزیر خارجہ ہیں ،دنیا دیکھ رکھی ہے اور خوب جانتے ہیں کہ مہذب دنیا میں ان رویوں کو پسند نہیں کیا جاتا۔ دور غلامی ختم ہو گیا ہے۔ یہ حقوق انسانی کی صدی ہے ،جہاں حاکم اور اس کے عمال قوم کے خادم ہوتے ہیں مخدوم نہیں۔ دنیا کے مزاج کی تہذیب ہو چکی ہے۔ ہماری بھی ہو جانی چاہیے۔حقیقت میں نہ سہی تو دکھاوے کے لیے ہی چند لمحے ہمیں باقی دنیا کی طرح شائستہ اور نفیس رویوں کا مظاہرہ کرنا سیکھ لینا چاہیے۔ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں اور بسا اوقات نا دانستگی میں ہو جاتی ہیں۔ ہو سکتا ہے شاہ محمود قریشی صاحب کے حاشیہ خیال میں بھی نہ ہو کہ اس سے یہ تاثر جائے گا۔ لیکن تاثر بہر حال چلا گیا اور اس بات کو صرف مقامی ہی نہیں غیر ملکی میڈیا نے موضوع بنایا۔مقامی سطح پر بھی اس رویے پر تنقید ہوئی۔یہ تنقید اصل میں اصلاح احوال کا انتساب ہوتی ہے۔ جو معاشرے ہم سے بہتر ہیں اور جن کی ہمارے ہاں خود عمران خان مثالیں دیتے رہتے ہیں وہ اسی لیے بہتر ہیں کہ وہاں حاکم وقت کی غلطی پر سماج گرفت کرتا ہے ۔یہ گرفت اور یہ تنقید ہی اصلاح احوال کی سب سے بڑی ضمانت ہوتی ہے۔ پاکستانی سیاست کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔ یہاں وابستگی ہٹ دھرمی کا دوسرا نام ہے اورمجال ہے کسی بھی سیاسی جماعت کا کارکن اپنی قیادت کی کسی بات کو غلط کہہ دے۔ یہاں بھی یہی ہوا اور نونہالان انقلاب نے رات گئے تک ایک نئی غزل چھیڑ دی۔یہ وہی غزل تھی جس کا ایک مصرعہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ اتنا اہم دورہ تھا اور ہمارے میڈیا نے سنجیدہ بحث کرنے کی بجائے چھتری پر مضامین باندھنا شروع کر دیے۔ یعنی ازرہ کرم ، تکلفا ہی تھوڑا سا نادم ہونے کی بجائے انہوں نے میڈیا اور اہل فکر کو کٹہرے میں کھرا کر دیا کہ یہ سب جاہل ہیں ، انہیں امور خارجہ کی نزاکتوں کا کچھ علم ہی نہیں اور چھتری چھتری کر رہے ہیں۔یہ مہم اسی وارفتگی سے چلائی گئی جیسے اس سے پہلی دیگر معاملات میں اودھم مچایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وزیر خارجہ کی آمد سے پہلے دفتر خارجہ یا وزیر خارجہ نے کتنے ’’ پری وزٹ سیشنز ‘‘ کامیڈیا اور اہل فکر کے لیے اہتمام کیا تھا کہ اہل فکر اس پر بات کرتے۔ ابھی تو وہ تشریف لائے تھے ، بات چیت کے بعد کوئی اعلامیہ جاری ہونے کے بعد یقینا وہ بھی زیر بحث آنا ہی ہے لیکن ایسی بھی کیا نازک مزاجی کہ اس سے پہلے ایک رویہ سامنے آئے اور اس پر بات سے نازک مزاجی کو یوں پولن الرجی ہو جائے کہ ساری رات ناقدین پر چھینکتی رہے۔ روسی وزیر کارجہ کا دورہ یقینا اہم تھا لیکن پروٹوکول میں امریکی صدر سے وزیر اعظم پاکستان کی ملاقات سے زیادہ اہم نہیں تھا۔امریکی صدر سے ملاقات میں اگر پاکستانی وزیر اعظم پرچی سے دیکھ کر گفتگو کرے تو اس پر تو احباب نے غزل ہی نہیںلکھی تھی ، پورے پورے مشاعرے کر دیے تھے۔ سوال یہ ہے کہ پرچی پر مشاعرے پڑھے جا سکتے ہیں تو چھتری کا قصیدہ کیوں نہیں کہا جا سکتا؟ دوسروں کی زلف میں جو چیز تیرگی قرار پاتی ہے وہ آپ کی زلف میں آتے ہی حسن جہاں تاب کیوں بن جاتی ہے؟تب تو قافلہ انقلاب کے مشاعرے میں مکرر مکرر ، ارشاد ارشاد ہوتا تھا۔اس وقت کسی نے اٹھ کر شعرائے کرام سے یہ نہیں کہا کہ سخن ورو ، پرچی کی ہجو کہنا چھوڑ دو اور یہ دیکھو کہ اتنی اہم ملاقات میں کہا کیا گیا۔ یہ کیسی میانہ روی ہے کہ دوسروں کی بار قافلہ انقلاب شمشیر بے نیام لیے ارطغرل بے کا ہراول بن جاتا ہے اور اپنی بار ابن عربی کا درویش بن کر اصلاحی اقوال سنانے لگ جاتا ہے اور تزکیہ نفس پر مائل ہو جاتا ہے۔ چھتری کو چونکہ احباب نے نان ایشو قرار دے ڈالا ہے اور ضد سی پڑی ہے کہ اتنے اہم دورے کے مندرجات پر بات کی جائے تو چلیے ، چلتے چلتے یہ بھی کر لیتے ہیں۔معزز مہمان نے کہا ہے کہ بھارت اور پاکستان میں مذاکرات کا عمل جاری ہے اور یہ اچھی چیز ہے۔ہم طالب علموں کو مذاکرات سے کوئی اختلاف نہیں ، ہم صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ایسی بریکنگ نیوز قوم کو روسی وزیر خارجہ سے کیوں ملی؟ اپنے وزیر خارجہ سے کیوں نہیں ملی؟قوم کو اب تک کیوں نہیں بتایا گیا کہ مذاکرات جاری ہیں اور ان کا ایجنڈا یہ ہے؟ قوم سے تو کہا جاتا ہے ہم فی الوقت بھارت سے تجارت کرنے کی بھی روادار نہیں ہے اور کامرس کے وزیر عمران خان کی بھیجی ہوئی ایک نامناسب سمری کو وزیر اعظم عمران خان نے رد کر دیاہے۔لیکن روس سے آنے والے معزز مہمان ہمیں بتاتے ہیں کہ حکومت کے تو بھارت سے مزاکرات جاری ہیں۔ چلیے چھتری کو چولہے میں ڈالیے ، یہ نان ایشو تھا۔ مذاکرات کے بارے میں کیا خیال ہے؟ سوال یہ نہیں کہ مذاکرات کیوں کیے جا رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ مذاکرات کی خبر قوم کو اپنے وزیر خارجہ کی بجائے روس کے وزیر خارجہ سے کیوں مل رہی ہے؟