درہ جنگلاں میں ، واٹر سپرنگ پر ، ندی کے کنارے بیٹھا ہوں ۔ جنگل کی تیز ہوا نوخیز پتوں کو گزرے وقتوں کی کہانیاں سنا رہی ہے۔ کچھ پتے ہیں جو جھوم جھوم جاتے ہیں اور کچھ ہیں جو ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ خاموش جنگل میں پرندوں نے شور مچا رکھا ہے۔ جیسے پری سکولنگ کے بچے کھیل رہے ہوں۔ سامنے درخت تلے ایک جائے نماز بچھی ہے اس کے پہلو سے بدھ مت کے گھپائوں کی طرف جاتی پگڈنڈی پر دو مرغ سیمیں چہل قدمی کر رہے ہیں۔ یہ اس جنگل کا حسن ہیں۔آنکھوں کے گرد ایسا سرخ دائرہ ہے کہ دیکھنا والا مبہوت ہو جائے۔پروں میں مور جیسے رنگ اترے پڑے ہیں۔سر پر تاج رکھے ایسے ناذو ادا سے چلتے ہیں جیسے کسی ترک ڈرامے کا سلطان لشکر کا معائنہ کر رہا ہو۔ایک ہی دفعہ پائوں اٹھا کر سیدھا زمین پر نہیں رکھتے۔اٹھاتے ہیں پھر اسے ہوا میں روک لیتے ہیں۔ایک لمحے کو وہ ہوا میں معلق رہتا ہے ، پھر اسے نازو ادا سے زمین پر رکھتے ہیں۔واٹر سپرنگ سے پہلے رستے میں دو ندیاں آتی ہیں۔ یہ ان ندیوں کے کنارے پائے جاتے ہیں۔ انجیر کے بوڑھے درخت کی مختصر شاخوں پر’ میگپی‘ بیٹھا ہے۔جتنا اس کا وجود ہے اس سے دگنی اس کی دم ہے۔ ننھے سے وجود میں قوس قزح اتری پڑی ہے۔سر نیلا ہے ، چونچ پیلی ہے ، پروں کی رنگت فیروزی ہے ، دُم میں آسمان کی رنگت گندھی ہے ، مگر جب یہ چہکتا ہے اور دم کسی زلف کی طرح لہراتی ہے تو اس میں سے سے سفید اور نارنجی رنگ بھی نمایاں ہو جاتے ہیں۔ ندی کے اس پار کچنار کے درخت پر پھول لگے ہیں۔ ایک سن برڈ ایک پھول کے سامنے ہوا میں معلق ہے۔ اس کی لمبی سی رنگ برنگی چونچ کچنار کے ارغوانی پھول پر رکھی ہے جیسے پہلی محبت کا بوسہ لے رہی ہو ۔ پھڑ پھڑاتے پر اسے ہوا میں تھامے ہوئے ہیں۔ اس کا اپنا وجود بھی کسی پھول سے کم نہیں۔اس کی صرف چونچ میں چار رنگ ہیں ، مٹیالا ، سرخ ، جامنی اور سفید ۔گردن تک دہکتا انگاروں کا رنگ ہے ، دم میں نیلے رنگ کے تین شیڈز ہیں اور درمیان میں دھڑ کہیں سے سفید ہے کہیں سے سبز ہے کہیں سے نارنجی ہے اور کہیں سے ارغوانی۔ پرندہ نہیں ہے ، یہ حیرت کدہ ہے۔ ندی کے اندر خشک پتوں میں سرسراہٹ سی ہو رہی ہے۔یہ ننھی سٹون چیٹ ہیں۔ ان سے چند قدموں کے فاصلے پر اورنج تھرش بھی نظر آ رہی ہے۔ پہلی نظر میں ایسے لگا جیسے کوئی نارنجی پتا زمین پر گرا پڑا ہے۔جنگل پتوں سے اٹا ہوتا ہے اور قدرت نے زمین پر ایسے رنگ بکھیر دیے ہیں کہ کوئی پرندہ یا جانور پہلی نظر میں دکھائی نہیں دیتا۔ بہت غور سے دیکھا تو اورنج تھرش نظر آئی ہے۔سیاہ چونچ اور سر سے پنجوں تک نارنجی رنگ لیے حیرت سے ادھر ادھر دیکھتی ہے اور پھر پنجوں اور چونچ سے پتوں کو الٹنا پلٹنا شروع کر دیتی ہے۔ یہ دیکھیے ، ندی کے اوپر سے چڑیوں کا ایک غول آیا ہے اور واٹر سپرنگ پر پانی کے ساتھ خشک پتھروں پر اتر گیا ہے۔لیکن یہ چڑیاں نہیں ہیں۔یہ سٹرابری فنچ ہیں۔یہ جنگل کا حسن ہیں ۔چہچہاتی ہیں اورگویا پوچھتی ہیں کہ ہے کوئی ہم سا؟ یہ ہوبہو چڑیا ہیں لیکن چونچ سرخ ہے جیسے سٹرابری کھا کر آئی ہوں۔ یہ مادہ ہے۔ کچھ وہ ہیں جیسے کوئی سرخ بارش میں نہا کر آئی ہوں، یہ نر ہیں۔ان چہچہاتے ننھے وجودوں نے ندی کو گلزار بنا دیا ہے۔ انجیر کی شاخ پر ایک ویگٹیل بیٹھی ہے۔بوہڑی کے چشمے کو جاتے رستے سے مٹکتی مٹکتی میرے بالکل سامنے یہ انڈین وائٹ آئی آن کھڑی ہوئی ہے۔ اتنی معصوم اور دانشور سی لگ رہی ہے کہ اس سے باتیں کرنے کو جی کر رہا ہے۔وجود کا اوپر کا حصہ سبز ہے نیچے کا سفید۔ چونچ کالی ہے اور موٹی سی گول مول سی آنکھوں میں کالی ڈوری ہے اور اس کے گرد سبز دائرہ۔ آنکھ کے باہر سفید اور سبز پتوں کا ایک دائرہ ہے جو اس کے حسن میں متانت کا اضافہ کر رہا ہے۔ ایسے ایسے پرندے ہیں اور ایسے ایسے رنگ قدرت نے ان پر بکھیر رکھے ہیں کہ آدمی حیران رہ جائے۔ جنگل میں چہچہاتے یہ پرندے سورہ رحمن کی تفسیر بن کر وجود پر اترتے ہیں اور پوچھتے ہیں : اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے؟ مجھے شروع میں ان کے نام نہیں آتے تھے۔ بس انہیں دیکھتا تھا اور دیکھتا ہی رہ جاتا تھا۔ایک روز کچھ نوجوان کیمروں پر بھاری بھرکم لینز لگائے جنگل میں جاتے دیکھے تو مجھے حیرت ہوئی کہ موبائل کے زمانے میں اتنا تردد اور اتنا اہتمام کس لیے۔ معلوم ہوا وہ ’’ برڈنگ‘‘ کے شوقین ہیں اور جنگل کی تنہائی میں بیٹھ کر پرندوں کی تصاویر بناتے رہتے ہیں۔ ان ہی سے پھر مجھے کچھ پرندوں کے نام معلوم ہوئے اور ابھی بھی تشنگی رہتی ہے کہ بہت کم پرندوں کے نام مجھے آتے ہیں۔ آبادیاں بڑھ رہی ہیں ، جنگل کٹ رہے ہیں اور جدید طرز تعمیر میں پرندوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں کہ وہ گھروں میں کہیں گھونسلہ بنا سکیں۔چنانچہ پرندے ہم سے روٹھتے جا رہے ہیں اور ہم دھیرے دھیرے اس ننھی مخلوق سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔گھروں میں پنجرے رکھ کر ان ننھے وجودوں کو قید کرنے سے بہتر ہے گھروں میں گھونسلے لگا دیے جائیں تا کہ پرندے آپ کے قیدی نہیں آپ کے مہمان بن کر آپ کے پاس رہیں۔ گذشتہ سال گھر میں دو گھونسلے لگائے تھے۔ آج صبح چوں چوں کا شور سنا تو معلوم ہو یہ ایک گھونسلے میں چڑیا کے بچوں کا شور ہے۔ چڑیا تھوڑی دیر بعد منہ میں چوگ لیے آتی ہے اور گھونسلے میں گھس جاتی ہے۔کسی ایک کو کھلا کر وہ پھُر سے اڑ جاتی ہے۔اس کے واپس آنے تک بچے چوں چوں کرتے رہتے ہیں۔ ویسے کیا آپ کے گھر میں کوئی گھونسلا ہے؟ ہمارے دوست بشارت حمید لوگوں کو تعمیرات کے اصول سمجھاتے رہتے ہیں ۔ کیا وہ انہیں بتا پائیں گے کہ’ تعمیر مسکن ‘ اس وقت تک نامکمل ہے جب تک گھر میں ننھے پرندوں کے لیے ایک مہمان خانہ نہ بنایا جائے۔ جس گھر میں گھونسلا نہیں ، اسے ادھورا ہی سمجھیے۔