سوشل میڈیا پر بدزبانی، کردار کشی اورمہم جوئی اب کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اس باب میں ٹویٹر من حیث القوم ہمارے عدم برداشت پر مبنی رویوں کا بھرپور عکاس ہے۔ بے شمار گمنام اکائونٹس صبح و شام حالت جنگ میں رہتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے جتھے ہیں جو ایک دوسرے پر ہمہ وقت حملہ آور دیکھے جاسکتے ہیں۔ اکثر سطحی جملے بازی اور ذاتیات پر مبنی دشنام طرازی ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔افسوس مگر اس وقت ہوتا ہے جب اچھے خاصے قد کاٹھ کی شخصیات نفرت اور بے جا تعصب میں ڈوب کراچانک کہیں سے نمودار ہوجانے والے ’’ٹرینڈ‘‘ کی رو میں خشک تنکوں کی طرح بہہ نکلتی ہیں۔ ٹویٹر کو دیکھ کر بے ساختہ زیر زمین آباد چیونٹیوں کے طلسم ہوشربا شہر یاد آجاتے ہیں۔ درجنوں، سینکڑوں اور ہزاروں ’ورکرز‘جہاں لاتعدادباہم متصل سرنگوں میں دن رات سرگرم عمل رہتے ہیں۔ ٹویٹر پر بھی بظاہر باہم پیوستہ اور ہم فکر و ہم خیال افراد جتھوں (Nests) کی شکل میں کارفرما رہتے ہیں۔ وطن عزیز کو جس ففتھ جنریشن جنگ کا سامنا ہے اس کا اظہار ایسے کئی جتھوں کی ٹویٹر پر موجودگی اور منظم سرگرمیوں کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک کے بعد ایک واقعے یاکسی شخصیت کے بیان کو بنیاد بنا کر جب دستانہ پوش ہاتھکسی ایک’ٹرینڈ‘ کا آغاز کرتے ہیں تو سینکڑوں گمنام اور درجنوں معروف اکائونٹس خاک اڑاتے اس قافلے میں شامل ہوجاتے ہیں۔معروف شخصیات جو مین سٹریم میڈیا بالخصوص پرنٹ میڈیا میں بامرِمجبوری کچھ رکھ رکھائو سے کام لیتی ہیں، ٹویٹر کے اوپر کھل کھیلتی ہیں۔ بڑی سیاسی پارٹیوں کے سوشل میڈیا جتھوں کے علاوہ ٹویٹر پر جو گروہ سب سے زیادہ فعال اور منظم نظر آتا ہے وہ ہمارے محبوب ’ جمہوریت پسند لبرلز ‘ کا ہے۔ چھوٹے بڑے کی تخصیص کے بغیر اس گروہ کا ہر رکن خود کو ترقی پسند، روشن خیال اور اپنے تئیں دانشور سمجھتا ہے۔ زعم برتری کے مارے چڑچڑے دانشور۔جوہم آپ عامی پاکستانیوں کو ’نیم خواندہ ‘ سمجھتے، جمہوریت کے فوائد گنواتے اور اختلافِ رائے کے فضائل سمجھاتے پائے جاتے ہیں، اپنی ذات سے عشق میں مبتلا، نا موافق رائے کے سامنے خود مگر فوراََ سے پیشتر طیش میں آجاتے ہیں۔ باہم دادو تحسین کے ڈونگرے برساتے مگرہم جیسے اختلافِ رائے رکھنے والوں کے ساتھ حقارت سے برتتے ہیں۔ زیرِ نظر کالم لکھنے سے قبل کچھ خاص بڑے نام والے اکائونٹس کو بوجہ دیکھنا چاہا تو میںیہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ لکھنے اور بولنے کی آزادی مانگنے والے چند’ لبرل مشاہیر ‘نے مجھ جیسے عامی کو ٹویٹر پر بلاک کر رکھا ہے۔ میں ٹویٹر پر شاذو نادر ہی کچھ لکھتا ہوں۔بدزبانی کا تو کبھی سوچا بھی نہیں۔ضرور میری کوئی خامہ فرسائی، انسانی حقوق کے کچھ علمبرداروں کو ناگوار گزری ہوگی ۔ حال ہی میں منظر عام پر آنے والی ’’انڈین کرانیکل‘‘ نامی رپورٹ چشم کشا انکشافات سے بھری پڑی ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ بھارتیوں کی ایماء پر 265 جعلی میڈیا تنظیمیں گزشتہ 15 سالوں سے بھارتی عزائم کو پروان چڑھانے اور پاکستان کو اقوام متحدہ اور یورپی یونین جیسے اداروں کے سامنے بدنام کرنے میں سرگرم عمل رہی ہے۔ انفو لیب نامی آزاد ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس مہم جوئی میں مردہ افراد، جعلی اداروں، بوگس تھنک ٹینک اور مشکوک این جی اوز کے ذریعے پوری دنیا میںعقل دنگ کردینے والاجال پھیلایا گیا۔ 65 سے زائد ملکوں میں پھیلائے جانے والے پاکستان مخالف مواد کی کڑیاں نئی دہلی میں قائم سری واستووگروپ سے جاملتی ہیں۔ گروپ سے منسلک لاتعداد جعلی اشاعتی ادارے مخصوص مصنفین کی کتابیں اور مضامین شائع کرکے دنیا بھر میں تقسیم کرتے ۔ گروپ سے ہی وابستہ گھوسٹ اخبارات و جرائد پاکستان مخالف افراد کے انٹرویوز اور بیانات شائع کرتے، جنہیں گروپ کی ذیلی تنظیموں کے پلیٹ فارمز سے پوری دنیا میں پھیلایا جاتا۔ مثال کے طور پراس نیٹ ورک کے ایک جعلی اخبار’ ٹائمز آف جنیوا ‘میںشائع ہونے والے حسین حقانی کے پاکستان مخالف ایک انٹرویو کو بدنام زمانہ بھارتی نیوز ایجنسی ANI کی وساطت سے بھارتی اخبارات میں بڑے پیمانے پر تشہیر دی گئی۔اسی گروپ کے زیرِ اثر یورپین پارلیمنٹرینز کی ایک بڑی تعداد کو مخصوص ایجنڈے کے تحت مقبوضہ کشمیر کا دورہ کروایا گیا۔بعد ازاں ان سب کی مودی سے ملاقات کا اہتمام بھی کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق اسی گروپ اور اس کی ذیلی تنظیموں کے زیرِ اہتمام اقوام متحدہ، یورپین پارلیمنٹ اور اہم مغربی دارلحکومتوں میں نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان مخالف مظاہرے کرتیں۔مذاکرے منعقد کرائے جاتے جن میں سوشل میڈیا پر پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف زہر اگلنے کی پہچان رکھنے والے چہرے دنیا بھر سے شمولیت کے لئے لائے جاتے۔ اسی سلسلے میں سال 2011 میں’ فرینڈز آف بلتستان ‘کے نام سے امریکہ میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا، پاکستان اور اس کے عسکری اداروں کے خلاف جی بھر کر ہرزہ سرائی کی گئی۔ ’بلوچستان ہائوس‘،’ سائوتھ ایشین ڈیموکریٹک فورم‘، اور’ یورپین آرگنائزیشن فار پاکستان مینارٹیز‘ نامی تنظیمیں قائم کی گئیں۔ان تنظیموں کے ناموں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کے قیام اور سرگرمیوں کا مقصدجہاں پاکستان اور اس کے اداروں کو دنیا بھر میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں کے حوالے سے بدنام کرنا تھا ، وہیں پاکستان کے اندر پاکستان مخالف قوم پرست تنظیموں کی آبیاری اور سرپرستی کرنا بھی تھا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور اس کے عسکری اداروں کے خلاف منفی تاثر پیدا کرنے کی خاطر لاکھوں فیک سوشل میڈیا اکائونٹس پر مشتمل نیٹ ورک قائم کیا گیا۔اس بھارتی نیٹ ورک میںپاکستان کے اندر اور باہر مقیم ان افراد کو استعمال کیا گیا جو ریاستی اداروں بالخصوص افواج پاکستان سے انتہائی نفرت اور تعصب کے لئے جانے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے کئی ایسی سماجی اور سیاسی شخصیات بھی بوجہ اس معاندانہ مہم کا حصہ بنیں جو خلوص نیت سے انسانی حقوق، اقلیتوں اور مذہبی آزادیوں کی بات کرتی ہیں۔ حال ہی میں کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں کریمہ بلوچ نامی ایک خاتون کی لاش پائی گئی تو پاکستان مخالف نیٹ ورک نے پاکستان اور اس کے سکیورٹی اداروں کے خلاف ایک طوفان کھڑا کردیا۔ ہماری سکیورٹی ایجنسیوں کو اس قتل کا براہِ راست ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے پوچھا گیا کہ کیا بلوچوں کی قسمت میں جلا وطنی میں مرنا ہی لکھا ہے۔’ سول سوسائٹی‘ نے آسمان سرپر اٹھا تے ہوئے مرحومہ کے نام سے خصوصی دن منانے کا اعلان کردیا۔ ’عورت مارچ‘ نے ’انسانی حقوق کی ترجمان ‘خاتون کے قتل کی نتیجہ خیز تحقیقات کا مطالبہ کیا۔’ جسٹس فار کریمہ بلوچ ‘دیکھتے ہی دیکھتے ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ ا فسوس کہ کئی معروف صحافی، سیاسی اور سماجی افراد محض سیاسی بغض یا ذاتی عناد کی بنا پر ریاست اور ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کی اس مہم میں شامل ہوگئے۔ قومی اداروں سے مخاصمت کی پہچان رکھنے والے کئی دیگر چہروں کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک سابق سینیٹر فرحت اللہ بابرنے بھی موقع غنیمت جانتے ہوئے کریمہ بلوچ کی موت پر شروع کی جانے والی معاندانہ اور نفرت انگیز مہم میں حسب توفیق حصہ ڈالا۔س امر کے باوجودکہ سویڈش پولیس کچھ عرصہ قبل سویڈن میں وفات پانے والے ساجد حسین کو ’قتل‘کئے جانے کے امکان کو سرے سے رّد کر چکی ہے،آپ اس واقعہ کا ذکر اس موقع پر بوجہ کرنا نہ بھولے۔ 23 دسمبر کے دن ٹورنٹو پولیس نے سرکاری طور پر اعلان کردیا ہے کہ کریمہ بلوچ کی موت کسی ’’مجرمانہ سرگرمی‘‘ کا نتیجہ نہیں ہے۔