وزیر اعظم عمران خان کو پی ڈی ایم سے یہ سوال پوچھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ وہ بتائیں کہ کس معاملے میں فوج ان کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کے مطابق پی ڈی ایم سازش کر رہی ہے اور یہ پراپیگنڈابھی اسی کا حصہ ہے۔ مولانا فضل الرحمنٰ نے جاتی امرا میں ہونیوالے پی ڈی ایم کے حالیہ اجلاس میں کہا ہے کہ پاکستان کو ڈیپ سٹیٹ بنا کر یرغمال بنا دیا گیا ہے، یہ فوج ہماری فوج ہے،ہم جرنیلوں کا احترام کرے ہیں، عمران خان مہرہ ہیں، اصل مجرم انہیں لانے والے ہیں، اب ہماری تنقید کا رخ ان کی طرف رہے گا۔ بد قسمتی سے اپوزیشن نے یہ تاثر پیدا کر دیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کوئی فیصلہ فوج سے پوچھے بغیر نہیں کرتے حالانکہ وزیراعظم نے بجا طور پر واضح کیا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ ماضی میں وطن عزیز میں یہی کچھ ہوتا رہا ہے لیکن عمران خان پر بڑی شدومد سے یہ الزام لگتا آرہا ہے کہ ان کو لانے والی 'خلائی مخلوق' ہے اور"پولیٹیکل انجینئرنگ "مقتدراداروں نے کی۔ اگرچہ یہ الزام لگانے والے اس ضمن میں کوئی ثبوت پیش نہیں کرتے لیکن ماضی کے طالع آزما جرنیلوں، اقتدار کے پجاری سیاستدانوں اور بیوروکریٹس نے یہ کھیل خوب کھل کر کھیلا۔ جنرل ایوب خان جنہوں نے خود کو بعد میں فیلڈ مارشل بنا لیا، یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق یا جنرل پرویز مشرف ہوں نے کھل کر سیاست کی اور بڑے دھڑلے سے اقتدار پر شب خون مارکر حکومت کی اور اپنے ڈھب کے سیاستدانوں کو آگے لے کر آئے لیکن بالآخر انہیں پسپائی کا ہی سامنا کرنا پڑا۔ اس حوالے سے خود سیاستدان بھی قصوروار ہیں۔فاروق لغاری مرحوم پیپلزپارٹی کے بڑے سینئر لیڈر اور بے نظیر بھٹو کے معتمد خصوصی تھے لیکن بطور صدر مملکت انہوں نے بے نظیر کو اقتدار سے فارغ کرنے میں دو منٹ بھی نہیں لگائے۔ یہی "نیک کام "بیوروکریسی کے سرخیل غلام اسحٰق خان نے ایوان صدر میں بیٹھ کر میاں نواز شریف کے ساتھ کیا۔ ماضی کی ان حکومتوں کے برعکس عمران خان کی حکومت برملا یہ کہتی ہے کہ فوجی قیادت سے ان کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ یہ واقعی پہلی مرتبہ ہوا ہے، اس سے پہلے تو سویلین حکومتوں کی فوجی قیادتوں کے ساتھ کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ہوتی رہتی تھی۔ آصف زرداری کے دور میں "میمو گیٹ " وجہ تنازع بنا جس کے مطابق پیپلزپارٹی اپنی حکومت بچانے کے لیے امریکہ سے مدد مانگ رہی تھی۔ اسی طرح میاں نواز شریف کے دور میں "ڈان لیکس" کا چرچا تھا، جومیاں نواز شریف اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے درمیان وجہ تنازع بن گیا اور میاں صاحب اور فوج کے درمیان کشیدہ تعلقات کھل کر سامنے آگئے۔ پھر میاں صاحب نے ایک ٹویٹ کی بنا پر ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی برطرفی کا مطالبہ کر کے خوامخواہ کا بحران پیدا کر دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ خان صاحب اس قسم کے پنگے نہیں لیتے، وہ حقیقت پسند ہونے کے ساتھ ساتھ فوج کے ساتھ بقائے باہمی اور صلاح مشورے سے چلتے ہیں۔ اس پس منظر میں پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں قریباً آدھا عرصہ اسی قسم کی فوجی یا نیم فوجی حکومتوں میں گزرا، سیاسی کلچر یکسرتبدیل ہو کر رہ گیا۔ لیکن عملی طور پر جنرل پرویز مشرف کے کوچ کرنے کے بعد وطن عزیز میں جمہوری حکومتیں قائم ہیں۔ آصف زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہو یا میاں نواز شریف کی مسلم لیگ)ن(کی حکومت ، دونوں نے اپنے اقتدار کی مدت پوری کی اور اب عمران خان انتخابات جیتنے کے بعد ملک کے وزیراعظم ہیں۔ ہاں ! یہ درست ہے کہ خان صاحب کو چھوڑ کر کسی بھی سویلین حکومت کی فوجی قیادت سے نہیں نبھی اور یہ تاثر جاگزیں ہو گیا کہ سویلین قیادت کو حکومت کرنے کے لیے فوج کی آشیرباد چاہیے ہوتی ہے لیکن وہ انہیں مل نہیں پاتی۔ اسی بنا پر سیاستدان، میڈیا اور عوام اس بات کو سچ سمجھتے ہیں کہ افواج پاکستان کی آشیرباد کے بغیر یہاں پتا بھی نہیں ہلتا لیکن خان صاحب نے واضح کیا ہے کہ عملی طور پر ایسا نہیں اور وہ اپنے فیصلے فوج کی مداخلت کے بغیر کرتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتیں مہینوں کے اندر حکومت کی چھٹی کرانے کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ جمہوریت اور جمہوری اداروں،آزادی اظہار رائے اور آئین کی بالادستی کامسلسل دم بھرتی ہیں لیکن یہ نہیں بتاتیں کہ خان صاحب کی چھٹی آئین کی کس شق کے تحت ہوگی اور شاید ان کو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا کہ فوجی قیادت عمران خان کو کان سے پکڑ کر نکال دے بلکہ ان کا مطمع نظر یہی ہے کہ غیر آئینی اقدام یافوجی مداخلت کے ذریعے خان صاحب کی چھٹی کرائی جائے اور اس کے بعد یہی واویلا کیا جائے کہ جمہوریت کا قتل عام ہو رہا ہے۔ جاتی امرا میں پی ڈی ایم کے حالیہ اجلاس میں ضمنی انتخابات میں حصہ لینے پر اتفاق رائے ہوا ہے جبکہ سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے کے حوالے سے فیصلہ موخر کر دیاگیا ہے۔ میاں نواز شریف کی شعلہ نوا صاحبزادی مریم نوازجن کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ سب سے زیادہ متحرک رہنمابنی ہوئی ہیں، کا دعویٰ ہے کہ تمام استعفے آچکے ہیں، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ لانگ مارچ کا فیصلہ ہو چکا ہے تاہم یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اسلام آباد جانا ہے یا راولپنڈی کی طرف۔ گویا کہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہماری فوج کے ساتھ کوئی لڑائی نہیں ہے لیکن دوسری طرف فوج کو ٹارگٹ بھی کیا جا رہا ہے۔ نیب کے بارے میں کہا گیاکہ وہ انتقامی کارروائیوں میں مصروف ہے، یہ غلط تاثر نہیں ہے اور پی ڈی ایم کے اکثر رہنمائوں کے خلاف شکایات کسی حد تک ناجائز ہیں لیکن جیسا کہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ کرپشن اوراحتساب کے سوا ہر مسئلے پر بات ہو سکتی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احتساب کے عمل کو صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ بنانے کے لیے مذاکرات کیوں نہیں کیے جا سکتے۔ دراصل ہمارے جسد سیاست کی بنیادی خرابی یہی بن چکی ہے کہ ہمارے سیاستدان اقتدار کے لیے جمہوریت کو شارٹ کٹ کرنے لیے تیار رہتے ہیں۔اب بھی حکومت اور اپوزیشن کو چاہیے کہ بعد میں شکایت کرنے کے بجائے مذاکرات کے ذریعے اختلافات دور کریں۔