دو دن پہلے ہمارے بہت قابل احترام کالم نگار اور ممتاز ومنفرد شاعر جناب اظہارالحق نے مولانا مودودی کے ایک صاحبزادے حسین فاروق مودودی کے اپنے والد محترم پر لکھی کتاب کا ذکر کیا۔وہ کتاب تو ابھی ہم نہیں پڑھ سکے، مگر اظہارالحق صاحب نے بتایا کہ اس کتاب میں حسین فاروق مودودی نے جماعت اسلامی پر کئی الزامات لگائے ہیں۔ ان میں سے بعض تنظیمی نوعیت کے ہیں اور جماعت اسلامی کو ان کا باضابطہ جواب دینا چاہیے۔ یاد رہے کہ خاکسار اور اس کے خاندان میں سے کوئی بھی ایک لمحے کے لئے بھی جماعت اسلامی یا اسلامی جمعیت طلبہ کا رکن، رفیق ، ہمدرد وغیرہ نہیں رہا۔ اسلامی تحریکوں کے ایک ادنیٰ طالب علم کے طور پر پاکستان کی اس اہم ترین اسلامی تحریک سے دلچسپی ضرور ہے۔ یہ خاکسار ایک خاص حوالے سے وضاحت کرنا چاہتا ہے کہ وقت نے مجھے ایک واقعے کا گواہ بنا دیا۔ پہلے یہ بات سمجھ لی جائے کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی اولاد خاص کر ان کے بیٹوں اور جماعت اسلامی کا باہمی تعلق کچھ زیادہ خوشگوار نہیں رہا، بلکہ کئی حوالوں سے یہ خاصا معاندانہ رہا ہے۔۔ اس کی وجوہات کا کوئی قریبی جاننے والا زیادہ بہتر بیان کر سکتا ہے، مگر دو تین باتیں جو دور ہی سے معلوم ہوجاتی ہیں، وہ یہ کہ جماعت کے کلچر میں کسی امیر جماعت خواہ وہ بانی جماعت ہی کیوں نہ ہو، اس کی اولاد یا رشتے داروں کو اس نسبت کی بنا پر کبھی زیادہ اہمیت یا توقیر نہیں ملی۔ یہ بات صرف مولانا کی اولاد کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے بعد میاں طفیل محمد امیر جماعت بنے، ان کے بھی کسی داماد یا دیگر قریبی رشتے داروں کو اس نسبت کی بنا پر جماعت میں عہدے نہیں ملے۔ قاضی حسین احمد کے صاحبزادے آصف لقمان قاضی پڑھے لکھے اور متحرک شخص ہیں۔ وہ جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں ، مقامی سطح پر تنظیمی کاموں میں مصروف رہے، اپنے ضلع کی تنظیمی ذمہ داری بھی ملی، الیکشن بھی لڑا، مگر ایسا نہیں ہوا کہ قاضی صاحب کے بیٹے ہونے کے ناتے انہیں مرکزی نائب امیر یا صوبائی صدر یا کوئی اور بڑا عہدہ دیا گیا ہو۔ قاضی صاحب کی صاحبزادی سمیحہ راحیل قاضی جماعت کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی رہی ہیں، مگر اس سے پہلے انہوںنے برسوں جماعت کے شعبہ خواتین کے لئے کام کیا اور اپنی محنت سے یہ ذمہ داری حاصل کی، انگریزی محاور ے کے مطابق She Has Earned That ۔سید منور حسن کا بھی یہی معاملہ ہے، ان کی اہلیہ عشروں تک جماعت کے شعبہ خواتین میں سرگرم رہیں اور پھر انہیں ٹکٹ ملا۔یہی موجودہ امیر سراج الحق کا معاملہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ سید مودودی کی اولاد کو جماعت میں اس طرح پزیرائی یا جگہ نہیں ملی، اس سے وہ دل گرفتہ ہوئے، دوسرا شائد مولانا اپنی علمی اور جماعت اسلامی کی ذمہ داریوں کے باعث اپنے گھر یا اولاد کو اس طرح زیادہ وقت نہیں دے سکے، جس وجہ سے جماعت مولانا کے بچوں کے لئے پسندیدہ نہیں رہی۔ ویسے مولانا کے صاحبزادے جناب حیدر فاروق مودودی سے میری خاصی نشستیں رہیں۔ انہوں نے کئی بار یہ ذکر کیا کہ مولانا نے اپنی اولاد کو جمعیت کی سرگرمیوں میں جانے سے منع کیا اور وہ جماعت کے کاموں میں بھی انہیں انوالو نہیں کرتے تھے۔معلوم نہیں اس کی کیا وجہ تھی۔ ممکن ہے مولانا احتیاطاً ایسا کرتے ہوں اور جماعت اسلامی میں جانشینی کی کسی بدعت کے رائج ہونے کا اندیشہ رکھتے ہوں۔ اس تفصیل کا مقصد یہ بتانا تھا کہ مولانا کے صاحبزادوں کا جماعت اسلامی کے حوالے سے کوئی موقف قابل اعتماد نہیں کہ وہ ایک خاص قسم کی شدت اور تعصب آمیز ناگواری کا شکار ہیں۔ پرانے صحافی بتاتے ہیں کہ جب مولانا مودودی کی میت امریکہ سے لاہور لائی گئی تو ان کے صاحبزادے بھی ساتھ تھے۔ مولانا کا جنازہ قذافی سٹیڈیم میں ہوا اور وہ لاہور کے سب سے بڑے جنازوں میں سے ایک شمار ہوتا ہے ۔ائیر پورٹ ہی سے لوگوں کی بڑی تعداد اس ٹرک کے ساتھ ہولی، جس میں مولانا کا جسد فانی رکھا تھا۔ فطری طور پر بعض لوگ ٹرک پر سوار بھی ہوگئے، اس پر مولانا کے یہی صاحبزادے جنہوں نے کتاب تحریر فرمائی ہے، وہ سخت خفا ہوئے اور باقاعدہ دھکے دے کر نیچے اتارا۔ تدفین کے فوری بعد بھی انہی صاحبزادے نے جماعت اسلامی کے خلاف ایک پریس کانفرنس جڑ دی تھی۔ تدفین کا معاملہ بھی عجیب ہوا۔ جماعت اسلامی مولانا کی تدفین جماعت کے مرکز منصورہ میں کرنا چاہ رہی تھی۔ یہ معقول بات تھی، مگر مولانا کی اولاد نے اس پر بھی اپنی مرضی کی اور مولانا کو اپنے گھر کے صحن میں دفن کیا۔ یہ عجیب وغریب بات ہے۔مولانا کی قبر خواہ وہ سادہ ہوتی، اگر منصورہ میں ہوتی تو روزانہ بہت سے لوگ اس پر فاتحہ پڑ سکتے مگر بہرحال ایسا نہیں ہوسکا۔ ترجمان القرآن جماعت اسلامی کا پرانا پرچہ ہے، مولانا کی زیرادارت بھی یہ شائع ہوتا رہا، طویل عرصہ ان کے اشارات ادھر چھپتے رہے، اب وہ کتابی صورت میں الگ سے بھی دستیاب ہیں۔چند سال پہلے سید منور حسن کے دورامارت میں مولانا کے صاحبزادوں نے جن میں یہی حسین فاروق پیش پیش تھے،اس کی رائلٹی کا ایشو اٹھایا۔مولانا کی اولاد کی جانب سے یہ کہا گیا کہ ترجمان القرآن آئندہ سے مولانا کے گھرو الے شائع کیا کریں گے۔ یہ مطالبہ فوری مان لیا۔ خاموشی سے ایک نیا ڈیکلیئریشن عالمی ترجمان القرآن کے نام کا لیا گیا اور اشاعت معمول کے مطابق چلتی رہی۔ مولانا کی اولادالبتہ ترجمان القرآن چلانا تو درکنارشائع بھی نہیں کر سکی۔ ایک اور اعتراض زیلدار پارک اچھرہ کی اس بلڈنگ پر بھی کیا گیا، جہاں جماعت کے بعض تنظیمی دفاتر تھے، ترجمان القرآن کا دفتر بھی شائد وہیں تھا۔مولانا کے دور سے وہاں جماعت کے دفاتر چلے آ رہے تھے، صحن میں نماز پڑھی جاتی تھی۔مولانا کے بیٹوں نے وہ بلڈنگ خالی کرنے کا مطالبہ کیا۔ قابل اعتماد ذرائع کے مطابق سید منورحسن نے مولانا کے صاحبزادگان کو کہا کہ آپ کے جو مطالبات ہیں، وہ لکھ کر لے آئیے، انہیں سید منورحسن نے من وعن تسلیم کر لیا۔ بلڈنگ خالی کر دی گئی۔ اظہار الحق صاحب نے کالم میں حسین فاروق مودودی کے ایک الزام کا ذکر کیا کہ سید منور حسن کو ہرا کر سراج الحق کو امیر بنوایا گیا اور الیکشن کے انچارج عبدالحفیظ صاحب نے یہ بات عبدالوحید سلیمانی صاحب کو بتائی کہ مجھے غلط طور پر سراج الحق کی جیت کے لئے مجبور کیا گیا۔ اتفاق سے اس جماعتی الیکشن (2013)کے بعد ایک قریبی دوست نے کھانے پر بلایا ، اس کلوز محفل میں عبدالحفیظ بھی شامل تھے۔ حفیظ صاحب سے دلچسپ گپ شپ ہوئی۔ الیکشن ہوچکا تھا، سراج الحق کامیاب ہوئے تھے، میں نے بھی اس حوالے سے لکھا تھا۔ تفصیل پوچھی تو عبدالحفیظ صاحب نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ قوانین کے مطابق حاصل کردہ ووٹوں تفصیل وہ نہیں بتا سکتے۔ البتہ انہوں نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ کس طرح یہ الیکشن (یعنی سراج الحق کا امیر بننا)فیئر اور فری تھا۔ بڑی جزئیات میں بتایا کہ کس طرح انہوں نے بیلٹ پیپرز کی چھان بین کا ایک ایسا طریقہ کار وضع کیا جس سے یہ تک نہ پتہ چل سکے کہ کس صوبے نے فلاں امیدوار کو زیادہ ووٹ دئیے۔ ان کے مطابق پچھلے الیکشن میں یہ بات کسی طرح باہر نکل گئی تو اچھا تاثر نہیں بنا تھا۔ کہنے لگے کہ جماعت کا انتخابی نظام مکمل طور پر فول پروف ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی غلطی کا امکان نہیں۔ اس کی بھی تردید کی کہ ہزاروں بیلٹ پیپر چوری ہوگئے یا واپس نہیں آئے۔ حفیظ صاحب نے بتایا کہ ہر بار ایسا ہوتا ہے، کہنے لگے کہ بہت سے جماعتی اراکین بزرگ اور بیمار ہیں، بعض اوورسیز ہیں تو یہ روٹین کی بات ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ اس الیکشن میں انتخابی مہم نہیں چلائی جاتی اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ سید منورحسن ہارے اور سراج الحق جیت گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ جماعت کے اراکین اپنی پسند کے مطابق کسی کو بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں اورا س میں کوئی انہونی نہیں۔ اس نکتہ پر ان سے جب خاصی بحث ہوئی تو ایک آف دی ریکارڈ بات انہوں نے بتائی۔ اللہ بخشے وہ دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں، یہ بات صرف اس لئے بتا رہا ہوں کہ بے ضرر ہے۔ کہنے لگے کہ جماعت کے اراکین نے روایت نہیں توڑی اور انہوں نے امیر اور قیم جماعت کو جتنے ووٹ دئیے ہیں، وہ نئے امیر جماعت کو ملنے والے ووٹوںسے زیادہ ہیں۔ انہوں نے تفصیل تو نہیں بتائی مگر اندازہ ہوگیا کہ مثال کے طور پر سراج الحق صاحب نے اڑتالیس فیصد ووٹ لئے ، سید منور حسن نے پنتالیس فیصد اور قیم یعنی لیاقت بلوچ نے سات فیصد، تو امیر اور قیم کو ملنے والے ووٹ مجموعی طور پر باون فیصد بن جائیں گے۔یہ مثال ہی دی ہے، ورنہ درست اعداد وشمار سے میں واقف نہیں۔ یہ بہرحال واضح ہے کہ عبدالحفیظ صاحب کی گواہی کے مطابق جماعت کے مذکورہ انتخاب میں کسی بھی قسم کی دھاندلی نہیں ہوئی اور وہ فئیر ہوا اور ان پر کسی بھی قسم کا پریشر نہیں تھا ۔ ویسے جو لوگ حفیظ صاحب کو جانتے ہیں یا ان سے چند منٹ گفتگوکرنے کا موقعہ ملا، وہ بتا سکتے ہیں کہ کیسے آہنی اعصاب اور مضبوط قوت ارادی کے شخص تھے اوران پر دبائو ڈالنا ناممکن تھا۔یہ گواہی قرض تھی، سو اپنے قارئین کے حوالے کی۔ بتانے والے چلے گئے، ہم نے بھی چلے جانا ہے۔ کوئی بوجھ اٹھایا جائے نہ ہی امانت چھپائی جائے۔