افتخار عارف کاشعر ہے: کڑی کمانوں کے تیر بے اعتبار ہاتھوں میں آ گئے ہیں دعا نئی تھی تو سو اب یہ خمیازہ اثر بھی نیا نیا ہے! دعا تو نئے پاکستان کی تھی۔ بہتر صورت حال اور اچھے خوابوں کے برآنے کی تھی لیکن آغاز ہی میں یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ کہ ناچاہتے ہوئے بھی نوزائیدہ حکومت کے فیصلوں پر سوال اٹھ رہے ہیں اور کچھ فیصلے تو شدید تنقید کی زد میں رہے ہیں۔ اگرچہ وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے استدعا کی ہے کہ انہیں کام کرنے کے لیے تین مہینے دیدیں اس کے بعد تنقید کریں۔ کچھ ہمارے تجزیہ کار بھی اسی خیال کے حامی تھے کہ ابھی حکومت کے اولین دن ہے۔ ابھی سے طنز و تنقید کے نشتر اتنے تیز نہیں کرنے چاہئیں نئی حکومت کو کچھ وقت دینا چاہیے۔ چند روز میں تو حالات میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔ یقینا یہ دلائل قائل کر لینے والے ہیں۔ لیکن اس حکومت کا کیا کیا جائے کہ اپنے اوپر بات کرنے اور اپنے فیصلوں پر تنقید کرنے کی دعوت ازخود دیتی ہے اور کچھ فیصلے ایسے کیے کہ گویا پٹرول کو دیا سلائی دکھا دی۔ اب اس پر آگ تو بھڑکنی تھی۔ تو پھر اس کی تپش بھی سہنا ہو گی۔ احمدیہ جماعت سے تعلق رکھنے والے عاطف میاں کو اکنامک ایڈوائزری کونسل کا ممبر مقرر کرنا ایسا ہی فیصلہ تھا۔ قیادت پر سوال اٹھے تنقید ہوئی اس پر وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اس معاملے پر انتہائی غیر ذمہ دارانہ میڈیا ٹاک کی۔ جس میں موصوف فرماتے ہیں کہ عاطف میاں پر ہونے والی تنقید ان کی سمجھ سے باہر ہے۔ انہیں تو اگلے چار سالوں میں نوبیل پرائز بھی ملنے والا ہے اور پھر ان کے منہ سے مزید پھول جھڑتے ہیں فرماتے ہیں عاطف میاں کی تقرری پر تنقید کرنے والے انتہا پسند ہیں اور حکومت ان انتہا پسندوں کے سامنے کبھی نہیں جھکے گی۔ ملاحظہ کریں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت کا وزیر اطلاعات اسلام اور مسلمان ہونے کی بنیادی اساس سے یکسر نابلد ہے اور جو منہ میں آئے اول فول بولتا چلا جاتا ہے۔ مگر اصل سوال عمران خان پر اٹھتا ہے کہ انہوں نے دوبارہ ہی متنازعہ فیصلہ کیوں کیا جبکہ ایک بار دھرنے کے دوران جب عمران خان نے عاطف میاں کو اپنی حکومت کا وزیر خزانہ بنانے کا اعلان کیا تھا تو اس وقت بھی ایسا ہی شور اٹھا تھا جس کے ردعمل میں تحریک انصاف کے چیئرمین نے کہا تھا کہ وہ عاطف میاں کے عقیدے کے بارے میں لاعلم تھے۔ سوال یہ ہے کہ اس بار تو وہ لاعلم نہیں تھے پھر کیوں اور کس کے کہنے پر یہ فیصلہ کیا گیا۔فیصلہ تو اگرچہ واپس لیا جا چکا ہے لیکن اس سارے ایپی سوڈ میں عمران خان نے بطور لیڈر بہت کچھ کھو دیا ہے ایک بھروسہ ایک اعتماد جو لوگوں کا خان پر تھا اس پر گہری زد پڑی ہے۔ یہاں تک کہ ان کی ہر بات ہر فیصلے سے خبر کا پہلو نکالنے والے اس بار بول اٹھے ہیں اور ایسے ہی دبائو پر انہیں عاطف میاں والا فیصلہ واپس لینا پڑا ہے۔ عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائمہ کا ٹویٹ اس حوالے سے آنا اور عاطف میاں کو ہٹانے کے فیصلے پر تنقید کرنا اور اسے افسوس ناک کہنا کسی صورت بھی نہیں بھایا۔ بلکہ مجھے تو ایسا لگا کہ یہ پاکستان کے حالات اور فیصلوں میں خواہ مخواہ کی مداخلت ہے۔ ایک خاتون جو وزیر اعظم پاکستان کی سابقہ اہلیہ ہیں ان کی کیا تک بنتی ہے کہ پاکستانی حکومت کے قومی فیصلوں پر رائے زنی کریں۔ عمران خان کو مستقبل میں اس بات پر بند باندھنا ہو گا اور اپنی سابقہ اہلیہ اور اپنے صاحبزادوں کی والدہ محترمہ کو سمجھانا ہوگا کہ پاکستان کے حالات پر بلا وجہ ٹویٹس کرنا بند کریں۔ احمدیہ جماعت سے تعلق رکھنے والے عاطف میاں کی تقرری کا فیصلہ واپس ہونے سے دو طرح کے ردعمل سامنے آئے ہیں۔ ایک طرف عقیدہ ختم نبوت کو دین کی اساس سمجھنے والے مسلمان شکر اور اطمینان کی کیفیت سے دوچار ہیں تو دوسری طرف ایسے بھی ہیں جنہیں اس ردعمل اور ردعمل کے نتیجے میں فیصلہ واپس لینے پر سخت تکلیف ہوئی ہے اب چونکہ سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم سب کو میسر ہے اور یہاں اظہار کی کوئی قدغن نہیں ہے تو اس جگہ ایسے افراد اپنی اس تکلیف کا اظہار تواتر سے کر رہے ہیں۔ سوال ان کے پاس یہی ہے کہ کیا اقلیتوں کے کوئی حقوق نہیں ہوتے‘ بالکل ہوتے ہیں لیکن قادیانی خود کو اقلیت تسلیم کریں تو پھر ہے۔ مسلمانوں کا ایمان عقیدہ ختم نبوتﷺ پر کھڑا ہے جس کے یہ انکاری ہیں۔ جو سرکار دو عالم کو آخری نبی ؐ تسلیم نہیں کرتا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے یہ بنیادی سی بات ہے اس کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے کسی بحث و مباحثے میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ ختم نبوتؐ پر یقین رکھنے والا ہی مسلمان ہے اور جو اس پر ایمان نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں تو خود کو اقلیت تسلیم کرے اور اقلیتوں کے حقوق حاصل کر لے۔ پی ٹی آئی کی نئی نویلی حکومت نے ابھی پائوں پائوں چلنا شروع کیا اور اس فیصلے پر انہیں شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا اور یہ ردعمل ان کے حامیوں کی طرف سے بھی آیا کیونکہ یہ سیاسی وابستگی سے بڑھ کر ایمان کا معاملہ تھا۔ اس حکومت میں ختم نبوت ﷺ کے منکر کو کاروبار حکومت میں ایک کلیدہ عہدہ دینے کا معاملہ ہو یا پھر گزشتہ ن لیگ کی حکومت میں آئین میں ختم نبوت ﷺ سے متعلقہ شق میں ترمیم اور تبدیلی کا معاملہ۔ ان سب کی کڑیاں کسی ایک ہی جگہ ملتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس سے قطع نظر کہ پاکستان میں کس سیاسی جماعت کی حکومت ہے مخصوص عالمی طاقتیں اپنے ایجنڈے پر لگی رہتی ہیں اور بنیادی سوچ ان کی یہی ہے کہ ختم نبوت کے عقیدے پر مسلمانوں کو کمزور کیا جائے۔ اس پر سمجھوتہ کرنے والی سوچ پیدا کی جائے۔ لیکن کمزور سے کمزور ایمان والا مسلمان بھی دین کی اس اساس پر سمجھوتہ کرنے کوتیار نہیں ہوگا۔ سرکار دو عالم ﷺ کی ذات بابرکات سے عقیدت اور وابستگی کو کمزور کرنے کے لیے یہی قوتیں ہیں جو اپنے کارندوں کے ذریعے تعلیمی نصاب میں بھی اس طرح نقب لگا رہے ہیں کہ کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ اس کی ایک مثال دیتی ہوں کہ Aکیٹگری کا ایک سکول جس کا نام نہیں لکھ رہی۔ انہوں نے کلاس ون میں جو اسلامیات لگائی اس میں نمازوں کی رکعتوں میں صرف فرض رکعتیں درج کی ہوئی تھیں جبکہ کسی نماز کی رکعت میں سنتیں درج نہیں تھیں۔ اس پر جب آواز اٹھائی تو حسب معمول کہہ دیا گیا کہ یہ شاید پبلشر کی غلطی سے ہوا۔ اس ایشو کو دیکھ لیں گے وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ کس طرح ابتدائی کلاسوں میں ایسی غیر محسوس تبدیلی نصاب میں کی جا رہی ہے کہ عام شخص کو پتہ بھی نہیں چلتا لیکن بچوں کی ذہنی ساخت میں وہ تبدیلی تو نقش ہوجاتی ہے۔ یہی قوتیں ہیں جو اپنے ایجنڈے کے مطابق فیصلے کروانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اسی لیے یہاں کبھی ختم نبوت کی شق میں ترمیم کی جسارت کی جاتی ہے تو کبھی منکر ختم نبوت کو حکومت میں کلیدی عہدہ دے دیا جاتا ہے۔ عاشقان رسول ﷺ اور ختم نبوت کے محافظ جاگ رہے ہیں۔ جب اس پر زد پڑتی ہے تو سیاسی وابستگیوں کی اہمیت معمولی رہ جاتی ہے۔ اہل ایمان اس پر آواز حق ضرور بلند کرتے ہیں: کروں تیرےؐ نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دوجہاں فدا دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا‘ کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں ایک طرف عاشقان رسولؐ کے قافلے ہیں اور ایک جانب فواد چودھری جیسے بھی جو عقیدہ ختم نبوت کے تقدس اور حفاظت کے لیے آواز بلند کرنے والوں کو انتہا پسند کہتا ہے اور خیر سے موصوف اس حکومت کے وزیر اطلاعات ہیں۔ یعنی : کڑی کمانوں کے تیر بے اعتبار ہاتھوں میں آ چکے ہیں