بنوامیہ کا حکمران سلیمان بن عبدالملک شدید بیمار ہو گیا۔ اس نے چاہا کہ اپنے کمسن بیٹے ایوب کو خلیفہ نامزد کر دے مگر معروف صاحبِ علم حضرت رجاد بن حیاۃ نے ایسا نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ سلیمان نے حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کے بارے میں پوچھا تو حضرت رجاد نے کہا واللہ یہ حسنِ انتخاب ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کو سن گن ملی تو انہوں نے حضرت رجاد سے درخواست کی کہ اگر سلیمان کا روئے سخن میری طرف ہو تو میرے نام کی مخالفت کرنا۔ جب سلیمان کا انتقال ہوا تو حضرت رجاد نے جامع مسجد میں بنوامیہ کے سامنے وصیت نامہ کھول کر پڑھا تو اس میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کا نام درج تھا مگر آپ کہیں دکھائی نہ دیئے۔ آپ کو تلاش کیا گیا تو مسجدکے آخری کونے میں سر جھکا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ لوگوں نے انہیں سہارا دے کر منبر پر بٹھایا آپ کافی دیر خاموش بیٹھے رہے۔ جب طبیعت ذرا سنبھلی تو آپ نے فرمایا’’میں نے پوشیدہ اور ظاہری طور پر کبھی اللہ رب العزت سے اقتدار اور خلافت کا سوال نہیں کیا۔ پھر آپ نے لوگوں کو اپنی نامزدگی سے آزاد کر دیا مگر جب حاضرین نے بطیب خاطر آزادانہ طور پر آپ کی بیعت کر لی تو آپ نے بارِ خلافت قبول کر لیا۔ اس ’’منصب‘‘ کا بوجھ اپنے کندھوں پر لادتے ہی نفیس الطبع، طرح طرح کی پوشاکیں پہننے والا خوش مزاج مگر طبعاً صالح نوجوان یکسر تبدیل ہو گیا۔ شاہی گھوڑے واپس بیت المال میں بھیج دیئے۔ قصرِ خلافت میں داخل ہونے سے انکار کر دیا۔ ایک معمولی خچر پر اپنے خیمہ نما گھر پہنچے تو ملازمہ نے آپ کی پریشانی دیکھی تو پوچھا کیا کوئی تشویشناک بات ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا ’’اس سے بڑھ کر اور کیا تشویشناک بات ہو گی کہ مشرق سے مغرب تک امت محمدیہ کا کوئی فرد ایسا نہیں ہے جس کا مجھ پر حق نہ ہو اور بغیر مطالبہ و اطلاع کے اس حق کی ادائیگی مجھ پر واجب ہے‘‘ یہ ہے فکر آخرت۔ اسی فکرِ آخرت کے سائے میں حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓنے اڑھائی برس میں عہدِ فاروقی کی یاد تازہ کر دی۔ جناب وزیر اعظم عمران خان نے بڑی اچھی بات گزشتہ روز اپنی تقریر میں کی کہ مجھے ووٹ کی نہیں آخرت کی فکر ہے۔ جناب عمران خان کو معلوم ہونا چاہئے کہ فکر آخرت کا اندازہ ہو تو پہلے عمل ہوتا ہے اور بات بعد میں ہوتی ہے۔ وہ جس ریاست مدینہ اور اس کے حکمرانوں کی زندگیوں کی مثالیں دیتے ہیں کیا وہاں بھی یہی ہوتا تھا کہ خود حاکم بنگلے میں رہائش پذیر ہو اور کروڑوں لوگوں کو جھونپڑی نصیب ہو اور نہ ہی نانِِ جویں۔جناب عمران خان جن نفوس قدسیہ کی زندگیوں کو اپنے لیے مشعل راہ قرار دیتے ہیں وہ تو ارشاد باری تعالیٰ کے مطابق تحقیق کیے بغیر کسی پر الزام نہ لگاتے اور عوامی سطح پر اس کی کردار کشی نہ کرتے تھے۔ میں نے اسلام آباد کے ایک باخبر حضرت سے پوچھا کہ گزشتہ روز جناب وزیر اعظم کی تقریر میں اتنا غضب اور اتنا جلال کیوں تھا۔ اگرچہ وہ جب سے برسراقتدار آئے ہیں تو اکثر ڈراتے دھمکاتے ہی رہتے ہیں مگر بقول مرزا غالبؔ بارہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں پر کچھ اب کے سرگرانی اور ہے ایک تو وہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے ناراض نظر آئے تھے دوسرے باخبر دوست نے بتایا کہ اس سرگرانی کی کچھ اور وجوہات بھی ہیں۔ اسلام آباد میں کئی ’’افواہیں‘‘ گردش گر رہی ہیں جو ابھی تک میڈیا کی زینت نہیں بنی ہیں۔ شاید جان بوجھ کر انہیں منظرِ عام پر نہیں لایا جا رہا۔ اس دوست کی اطلاع کے مطابق جب بھی شہرِ اقتدار میں ’’افواہوں‘‘ کا دھواں فضا میں بلند ہوتا دکھائی دیتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ کہیں نہ کہیں ’’آگ‘‘ لگی ہے۔ اسلام آبادی خبروں یا افواہوں کے مطابق چودھری پرویز الٰہی کی ’’امانت‘‘ میں مفاہمت بھی ہے، مصالحت بھی ہے اور مولانا کے لیے استعفیٰ نہ سہی مگر استعفیٰ کے ہم پلہ کسی اہم چیز کی یقین دہانی بھی ہے۔ اب یہ ’’یقین دہانی‘‘ نئے انتخابات ہیں یا ان ہائوس تبدیلی ہے یا خود جناب عمران خان۔ تراشیدم، پرستم کے بعد شکستم کا فیصلہ نہ کر لیں۔ اس کے بارے میں اسلام آبادی ذرائع نے حتمی طور پر کچھ بتانے سے گریز کیا۔ جناب عمران خان کی تقریر سے بھی یہ عیاں تھا کہ یہ خطاب وزیر اعظم کا نہیں انتخابی اکھاڑے میں اترنے والے کسی شعلہ بیاں امیدوار کا ہے۔صدر عارف علوی کہ جن کا منصب روزمرہ عوامی مسائل سے ماورا ہے مگر ان تک بھی غریبوں اور سفید پوشوں کی آہ و بکا پہنچ گئی اور انہوں نے کراچی میں کہا کہ عوام مہنگائی کے ہاتھوں بہت پریشان ہیں مگر جناب وزیر اعظم نے مہنگائی، بے روزگاری، بدنظمی اور بیڈ گورننس کے ہاتھوں روتے بلکتے لوگوں کے بارے میں ایک لفظ تک نہ کہا بس ان کا سارا زورِ خطابت صرف ایک بات پر تھا کہ نہیں ’’چھوڑوں گا‘‘۔ جناب عمران خان نے مسلم لیگ(ن) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ جنرل جیلانی کے بنگلے پر سریا لگاتے لگاتے وزیر بن گئے۔ خان صاحب نے شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر پھینکے ہیں۔ جناب وزیر اعظم نے گزشتہ روز کے خطاب میں ایک بڑی اچھی بات کہی کہ عدلیہ یہ تاثر دور کرے کہ طاقتور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانون ہے۔ جناب! بالکل درست بات ہے مگر ریاست مدینہ کا نظام عدل اور اس کی تنفیذ کا تفصیلی پروسیجر دینا عدلیہ کا نہیں مقننہ کا کام ہے۔ پی ٹی آئی کا تو نام ہی تحریک انصاف ہے۔ تحریک انصاف نے 22برس میں امیر غریب کے لیے یکساں انصاف کا کوئی پروگرام کیوں نہیں مرتب کیا۔ اگر اس معاملے میں غفلت اور کوتاہی ہوئی تو پی ٹی آئی کو برسراقتدار آتے ہی اسلامی نظریاتی کونسل سے کہنا چاہئے تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی عدل کی شق موجود ہے۔ اس کی تنفیذ کا پروسیجر دیا جائے جسے پی ٹی آئی بلاتاخیر نافذ کر دے گی۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے طور پر ریاست مدینہ کے خدوخال واضح کرنے کے لیے کمیٹی بنائی اور عملی کام شروع کر دیا مگر حکومت نے اسے درخور اعتناء نہ سمجھا اور ریاست مدینہ کا ماڈل مرتب کرنے کے لیے اپنی کمیٹی بنا ڈالی جس کے معزز ممبران میں جناب فواد چودھری اور فردوس عاشق اعوان بھی ہیں۔ اس کے بعد کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ کتنی سنجیدہ کمیٹی ہے۔ بہرحال اسلام آبادی ’’افواہوں‘‘ کے مطابق تو 2020ء میں نئے انتخابات ہو رہے ہیں۔ ان افواہوں کی حقیقت جاننے کے لیے ہمیں زیادہ نہیں صرف آٹھ دس ہفتے انتظار کرنا ہو گا۔ اس وقت تک مولانا فضل الرحمن سڑکوں پر رہیں گے۔