ہمیں خود ذاتی طور پر شہر اقتدار کا تجربہ ہے کہ یہاں شام تک سب اچھا ہوتا ہے مگر اگلی صبح آپ بیدار ہوتے ہیں تو بڑے بڑے برج الٹ چکے ہوتے ہیں۔ شہر اقتدار میں ’’اقتدار‘‘ کو آنکھیں پھیرنے میں ذرا دیر نہیں لگتی۔ جناب اسد عمر آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کے بعد اسلام آباد لوٹے تو ان سے اخباری رپورٹروں نے پوچھا کہ یہاں تو آپ کے جانے کی افواہیں گرم ہیں‘ آپ کے پیچھے آپ کے کچھ مہربان سرگرم عمل رہے۔ اس پر اسد عمر نے کمال سادگی اور خود اعتمادی سے جواب دیا کہ: ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے تاہم اگلے روز جب اسد عمر پریس کانفرنس کے لئے آئے تو اسٹیج پر منظر یکسر بدلا ہوا تھا۔ ان کے دائیں یا بائیں کوئی وزیر تھا نہ مشیر۔ وہ اسٹیج پر تن تنہا تھے گویا اس پریس کانفرنس کا آغاز ان کے انجام کی خبر دے رہا تھا: تیری صبح کہہ رہی ہے تیری رات کا فسانہ ان چھ سات برس کے دوران جناب عمران خان کا ہر جلسے ‘ ہر تقریب میں ایک ہی بیانیہ تھا کہ کرپشن کا قلع قمع اور اسد عمر وزیر خزانہ ہمارا۔ گزشتہ روز جناب وزیر اعظم نے جس بڑے پیمانے پر اپنی کابینہ میں تبدیلیاں کی ہیں تو اس سے عوام تک بڑا واضح پیغام یہ گیا ہے کہ صرف وزارت خزانہ ہی نہیں بہت سی وزارتیں ناکام ہو چکی ہیں۔ تیسری دنیا کے پاکستان جیسے ممالک کی وزارتِ خزانہ پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔ اس وزارت کے ساتھ ساتھ بہت سے نازک معاملات وابستہ ہوتے ہیں۔ ایک طرف اس وزارت کے ساتھ غریبوں اور سفید پوشوں کا جینا اور مرنا وابستہ ہوتا ہے تو دوسری طرف بیرونی قرضے اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک وغیرہ کی کڑی مالی و سیاسی شرائط۔ اس لئے کوئی وزیر خزانہ خود تن تنہا فیصلے نہیں کر سکتا اور قدم قدر پر اسے اپنے وزیر اعظم سے رہنمائی لینا پڑتی ہے۔ تاہم وزیر خزانہ کا علم‘ اس کا تجربہ ‘ اور ماہرین اقتصادیات سے مشورہ فیصلہ سازی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔اگر یہ انفرادی نہیں حکومت کی اجتماعی ذمہ داری تھی تو پھر اسد عمر کو قربانی کا بکرا کیوں بنایا گیا؟ اس کی دو تین وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ گزشتہ دو تین برس کے دوران اسد عمر نے سابقہ حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے بار بار کہا تھا کہ وہ آئیں گے تو گیس اوربجلی کی قیمتیں کم ہو جائیں گی کیونکہ اس حکومت نے عوام پر ظلم ڈھاتے ہوئے قیمتیں بڑھا رکھی ہیں۔ دوسرا سبب ان کا حد سے بڑھا ہوا اعتماد تھا۔ سال ڈیڑھ سال قبل یونیورسٹی آف النائے اربابا شیمپین امریکہ میں اقتدار سے پہلے دو تین ملاقاتوں میں مجھے ان کی جن دو خوبیوں نے بطور خاص متاثر کیا وہ ان کا کمپوزڈ رویہ اور ان کی مسکراہٹ تھی۔ گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران بھی ان کی یہ دو صفات نمایاں رہیں۔ لیڈر شپ کے لئے یہ دو خوبیاں بہت اہم سمجھی جاتی ہیں۔ مگر جب مسکراہٹوں کی اوٹ میں محض خیالی پلائو ہو اور بروقت فیصلے نہ ہوں تو پھر حادثہ ہوکر رہتا ہے۔ ذمہ داری وہاں ہوتی ہے جہاں خود مختاری ہو‘ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ خود جناب وزیر اعظم کتنے خود مختار ہیں۔ باقی وزارتوں کی دائیں بائیں تبدیلیوں کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس سے وزارتوں کی کارکردگی پرکیا اثر مرتب ہو گا۔ مثلاً وزارت اطلاعات کو فواد چودھری سے لے کر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو دینے میں بس جینڈر ہی کا فرق ہے وگرنہ گرم گفتاری اور تیر اندازی میں دونوں برابر کی چوٹ ہیں۔ اس سے کیا جوہری فرق واضح ہو گا یہ ناقابل فہم ہے۔ تاہم مشیر خزانہ کی حیثیت سے ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی آمد ڈانوا ڈول معیشت کے لئے ایک امید افزا سہارا ثابت ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر شیخ نے بوسٹن یونیورسٹی امریکہ سے اقتصادیات میں پی ایچ ڈی کی پھر وہ ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر رہے، بعدازاں وہ ورلڈ بنک میں چلے گئے جہاں وہ عالمی بنک کے معاشی آپریشنز برائے سعودی عرب کے صدر بنا دیے گئے۔سعودی عرب کے علاوہ ڈاکٹر شیخ دیگر بہت سے ممالک جن میں کویت اور ایران بھی شامل ہیں، وہاں مختلف اقتصادی منصوبوں میں بطور مشیر خدمات انجام دیتے رہے۔ ڈاکٹر شیخ جنرل پرویز مشرف کے دور میں سندھ کے وزیر خزانہ رہے بعدازاں انہی کی حکومت میں وفاقی وزیر نجکاری و سرمایہ کاری کا قلمدان ان کے سپرد کر دیا گیا جہاں انہوں نے نہایت قابل قدر خدمات انجام دیں۔ وہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 2011ء سے 2013ء تک وفاقی وزیر خزانہ بھی رہے۔ سابق وزیر خزانہ جناب اسد عمر نے ڈالر کو ایک سو پانچ روپے سے 144روپے تک پہنچایا۔ پٹرول ‘ گیس اور بجلی کی قیمتوں اور عام اشیائے خورو نوش اور اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ نہایت سنجیدہ فکر‘ نفیس الطبع اور پاکستانی معیشت کا عملی تجربہ رکھنے والے صاحب علم ہیں۔ ڈالر کو 8ماہ پہلے والی قدر پر واپس لانا‘ بجلی و گیس کو سستا کرنا اور مہنگائی کو کنٹرول کرنا بہت بڑا چیلنج ہے جبکہ آئی ایم ایف کی شرائط کی تیز دھار تلوار سروں پر لٹک رہی ہے۔ یہ تلوار آنے والے بجٹ میں کشتوں کے پشتے لگانے کو بے قرار ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کس معجزاتی ترکیب سے کام لیتے ہیں اور آٹھ ماہ کے دوران قرض در قرض اور’’کتابی معیشت‘‘ کی بنا پر بگڑی ہوئی معیشت کو کیسے راہ راست پر لاتے ہیں۔ ڈاکٹر شیخ بزنس کمیونٹی کے فیورٹ ہیں اور 2004ء میں ان کی طرف سے ایوارڈ بھی لے چکے ہیں۔ کیا مشیرخزانہ غریبوں اور سفید پوشوں کو کوئی ریلیف دے پائیں گے یا نہیں۔ یہ آنے والے چند مہینے بتائیں گے۔ ساری قوم کے لبوں پر ایک سوال ہے: جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے کیا یہ سوال جناب وزیر اعظم تک پہنچا ہے یا نہیں کہ ذمے دار ٹیم ہے یا کپتان؟ عام اصول تو دنیا میں یہی ہے کہ ناقص کارکردگی کی ذمہ داری پہلے کپتان اور پھر ٹیم پر عائد ہوتی ہے۔ آٹھ ماہ کے سفر میں جناب کپتان قدم قدم پر خود سے بچھڑتے رہے اقتدار میں آنے سے پہلے وہ کہا کرتے تھے کہ قرض نہیں لوں گا‘ پٹرول‘ بجلی اور گیس سستی کروں گا۔ ڈالرمہنگا نہیں کروں گا‘ مختصر ترین کابینہ رکھوں گا اور ہمیشہ قوم کو سچ سچ بتائوں گا اور پروٹوکول نہیں لوں گا وغیرہ وغیرہ مگر انہوں نے سب کچھ الٹ کیا اور کوئی واضح ‘ مستقل متبادل پالیسی بھی نہیں دی۔ خدا جانے جناب وزیر اعظم نے خود احتسابی سے کام لیا یا نہیں۔ سیاست رشتے جوڑنے کا نام ہے توڑنے کا نہیں‘ سیاست سب کو ساتھ لے کر چلنے کا نام ہے۔ خوش حال معیشت‘ سیاسی استحکام کے بغیر ناممکن ہے۔ جناب کپتان اپوزیشن کی تجاویز و تجربات سے فائدہ اٹھائیں‘ غیر علانیہ تو وہ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) والی بیورو کریسی لے کر آئے ہیں اب وفاق میں بھی وہ دوسری جماعتوں کے آزمودہ ٹیکنو کریٹس لے آئے ہیں۔ جناب وزیر اعظم!اللہ کو غرور اور تکبر سخت ناپسند اور عاجزی بہت پسند ہے۔ عاجزی اختیار کیجیے اسی سے تبدیلی آئے گی۔