آئی کیو کے بڑھتے ہوئے اسکور کے باوجود دماغی صلاحیتوں میں کیا خامیاں پیدا ہورہی ہیں

 ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود تخلیقی و انتقادی طرز فکر کی صلاحیت میں غیر معمولی اضافہ نہیں ہورہا،تفصیلی رپورٹ

 

رانا محمد آصف 

 

انٹیلی جینس یا ذہانت جانچنے کے ٹیسٹ تقریباً 100برس قبل ایجاد ہوئے اور اسے آئی کیو کا نام دیا گیا۔ جس وقت یہ پیمانہ تشکیل پایا ہے، اس کے مطابق انسانوں  کی ذہانت میں  اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ماہرین یہاں تک دعویٰ کرتے ہیں کہ آج ایک اوسط شخص کی ذہانت کا مقابلہ آج سے سو برس قبل کے ذہین ترین افراد سے کیا جاسکتا ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں آئی کیو ٹیسٹ میں بتدریج بڑھتے ہوئے اسکور کے اس رجحان کو ’’فلین افیکٹ‘‘ کہا جاتا ہے اور اسی بنا پر ایسے دعوے بھی سامنے آتے رہے ہیں کہ موجودہ عہد ذہانت کے اعتبار سے انسانی تاریخ کا سنہرا ترین دور ہے۔ ان اعداد و شمار اور مختلف تحقیقی رپورٹ سے کچھ دیر کو خوشی اور حیرانی کا احساس ہوتا ہے، لیکن روز نت نئے انکشافات سے ہمارے یہ کیفیت بھی زیادہ دیر باقی نہیں رہتی۔ حال میں اس حوالے سے  سامنے آنے والے حقائق بتاتے ہیں کہ انسانوں کی بڑھتی ہوئی ذہانت کی یہ تیز رفتار رکنے کے آثار نمایان ہونے لگے ہیں بلکہ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’’واپسی کا سفر‘‘ جاری ہے۔ یہ تازہ شواہد سامنے آنے کے بعد ماہرین کے سامنے دو اہم سوال ہیں۔ کیا انسان ذہانت کی انتہا  تک پہنچ چکا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا مسقبل میں انسانوںکی ذہانت میں بتدریج کمی واقع ہوگی ؟ 

ان سوالات کا جواب سمجھنے سے پہلے انسانی ذہانت کے تاریخی پس منظر پر ایک نظر ڈالنا ضرور ہے۔  تیس لاکھ برس قبل انسان نے سیدھے کھڑے ہوکر چلنا شروع کیا۔ اس دور کے رکازات یا فوسلز کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں  ٹانگوں پر چلنے والے اس ابتدائی انسان کی کھوپڑی میں دماغ کا حجم 400مکعب سینٹی میٹر تھا۔ یہ مقدار آج کے انسان کے دماغی حجم کا تیسرا حصہ بنتی ہے۔ ارتقا کے مختلف مراحل میں انسانی دماغ کا حجم بڑھتا رہا اور انسانی جسم کو بڑھتے ہوئے دماغ کے لیے زیادہ قیمت ادا کرنا پڑی۔ اب  انسان کا دماغ جسم کی مجموعی توانائی کا 20فی صد استعمال کرتا ہے اور انسانی جسم کو درکار غذائیت کا ایک بڑا حصہ دماغی افعال جاری رکھنے میں  صرف ہوتا ہے۔ دماغ کے بڑھتے ہوئے حجم اور جسمانی توانائی میں اس کے بڑھتے ہوئے حصے کے بارے میں  مختلف تصورات پیش کیے جاتے ہیں تاہم سب سے نمایاں تصور یہ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ انسان کو زندہ رہنے کے لیے زیادہ سوچنے سمجھنے کی ضرورت پڑرہی ہے اور اسی وجہ سے لاکھوں برسوں کے ارتقا سے گزر کر آج اس کا دماغ اپنی موجودہ صلاحیتِ کار تک پہنچا ہے۔ 

انسان نے ابتدائی طور پر درندوں کے حملوں سے محفوظ رہنے کے لیے گروہ کی شکل میں رہنا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ یہ گروہ بڑا ہوتا گیا۔ یہ گروہ چوں کہ زمین پر رہتے تھے اس لیے کسی شکاری جانور کے خطرے سے نمٹنے کے لیے انہوں نے حفاظتی تدابیر اختیار کرنا شروع کیں، جن میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ کرنے، ہوشیار رہنے کے لیے مختلف اشارے اور منصوبہ بندی  کی ضرورت پیش آنے لگی۔ ماہرین کے مطابق جب کئی افراد ایک گروہ کی شکل میں ساتھ رہنے لگتے ہیں تو انھیں سوجھ بوجھ سے کام لینا پڑتا ہے، گروہ میں شامل ہر فرد کے بارے میں وہ کوئی رائے قائم کرتے ہیں، اس بات کا دھیان رکھتے ہیں کہ کوئی اجنبی اس گروہ میں شامل ہو تو اس کی فوری شناخت کرلی جائے۔ اس کے بعد مختلف گروہی سرگرمیوں میں بھی ایک دوسرے کو سمجھنا بہت اہم ہوتا ہے۔ جنگلات میں بسا انسان شکار سے خوراک حاصل کرتا تھا۔ گروہ کی شکل میں شکار کرنے کے لیے باہمی رابطہ اور ایک دوسرے کے مزاج اور صلاحیت کے مطابق ذمے داریوں کا تعین کرنا پڑتا تھا اس لیے قدیم دور کے انسان میں اپنے ارد گرد پھیلے افراد سے سماجی تعلق بقا سے براہ راست منسلک تھا۔ ہمارے اس جدید عہد میں اس کی نوعیت قدرے تبدیل ہوچکی ہے اور ماہرین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ جدید دور کے انسان  کا سماج سے متعلق فہم محدود ہورہا ہے۔ 

سائنسی شواہد  مطابق چار لاکھ برس قبل پائے جانے والے ہوموہیڈلبرجینسس کے دماغ کا حجم 1200مکعب سینٹی میٹر تھا  جو آج انسان کے دماغ کے   1300مکعب سینٹی میٹر حجم  سے کچھ ہی مقدار میں کم تھا۔  انسان جب 70ہزار برس قبل افریقا سے نکلا تو زمین کے کسی بھی گوشے میں زندگی گزارنے کی سوج بوجھ حاصل کرچکا تھا۔ غاروں میں بنی اس دور کی تصاویر کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت انسان نے کائناتی سوالات پر غور و فکر شروع کردیا تھا۔ 

  بعض ماہرین کا خیال ہے کہ انسانی ذہانت میں آنے والی تبدیلیاں بھی موروثی ارتقا ہی کا نتیجہ ہیں لیکن ان کا دورانیہ بہت مختصر ہے۔ ابھی سو برس قبل ہی intelligence quotient یا آئی کیو کے فارمولے کے ذریعے ذہانت معلوم کرنے کا طریقہ ایجاد ہوا ہے۔ اس طریقہ کار میں کسی بھی فرد کی حساب کتاب ، مختلف پیٹرنز کو سمجھنے اور الفاظ کی شناخت وغیرہ سے متعلق صلاحیت کو بنیاد بنا کر ذہانت پیمانہ تشکیل دیا گیا۔ آئی کیو کو عمومی ذہانت سے متعلق پیمانہ قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ یہ کسی انسان کی مجموعی دماغی صلاحیت بتا سکتا ہے۔ 

اگرچہ آئی کیو نکالنے کے طریقہ کار کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا ہے تاہم یہ مختلف کام کرنے کی ذہنی صلاحیتوں کے بارے میں ضرور بتاتا ہے۔ تعلیمی نتائج سے متعلق پیش گوئی کرنے کے لیے آئی کیو مدد گار ثابت ہوسکتا ہے اور ابتدائی طور پر اس کی تشکیل بھی اسی لیے ہوئی تھی، اسی طرح کوئی مہارت سیکھنے کی صلاحیت کا اندازہ لگانے سے متعلق بھی یہ مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ کسی شخص کی کام یابی کے امکانات کا انحصار محض آئی کیو پر نہیں ہوتا لیکن یہ سیکھنے کی صلاحیت اور پیچیدہ معلومات کو سمجھنے کے اعتبار سے کسی شخص کے امتیاز کوظاہر کرنے کا ذریعہ ہے۔ اگرچہ آئی کیو کی اہمیت بیسویں صدی کے آغاز میں عروج پر تھی لیکن حال ہی میں ماہرین نفسیات اس پر ایک بار پھر متوجہ ہوئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بتائی جاتی ہے کہ اب اس کے اسکور کے ’’معیارات‘‘ متعین ہوچکے ہیں۔ اس کی آزمایش سے گزرنے کے بعد آبادی کی اوسط کا 100آئی کیو رکھتی ہے اور اس طریقہ کار کو عالمی سطح پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔اس کے بعد مختلف ادوار کے اوسط آئی کیو اسکور کے موازنے سے یہ معلوم کرنے کی کوششیں بھی ہوتی رہیں۔ بالخصوص جیمز فلین نے مختلف ادوار کے موازنے پر بڑی عرق ریزی سے تحقیق کی اور ہر دہائی کے بعد اوسط ذہانت میں اضافے کے حوالے سے باقاعدہ ایک تصور پیش کیا جسے ’’فلین افیکٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق بعض ممالک میں اوسط ذہانت کے اسکور میں 30پوائنٹس تک کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اگرچہ فلین افیکٹ کے کئی پہلو ماہرین کے نزدیک بحث طلب ہیں اور اسے محض جینیاتی تبدیلیوں تک محدود کرنے کے بجائے دیگر محرکات کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔

 انسانوں میں جینیاتی  تبدیلیوں کے لیے ایک ثبوت یہ پیش کیا جاتا ہے کہ آج ہم اوسطاً انیسویں صدی کے انسانوں سے پانچ انچ تک زیادہ قد آور ہیں۔ لیکن اس سے یہ مراد نہیں لیا جاسکتا کہ کوئی بڑی جینیاتی تبدیلی رونما ہوئی ہے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ مجموعی صحت کی صورت حال تبدیل ہوئی ہے۔  اس کے علاوہ ان تغیرات کے دیگر محرکات بھی ہیں۔ طب کے شعبے میں ترقی، چھوٹے بچوں کی بیماریوں کا فوری علاج، خوراک میں غذائیت کا تصور وغیرہ جیسے محرکات نے ہماری جسمانی اور دماغی صحت کو ماضی کے مقابلے میں بہتر بنایا ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ آئی کیو میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اب پیٹرول میں لیڈ کی مقدار کم ہوئی ہے۔ فضا میں لیڈ کی مقدار بڑھنے سے ماضی میں دماغی نشو و نما متاثر ہوئی۔ اس لیے یہ تصور بھی عام ہوا کہ ایندھن جتنا ماحول دوست ہوگا، انسانوں کی ذہانت بھی اتنی ہی بڑھے گی۔ 

لیکن اسے مکمل تصویر نہیں کہا جاسکتا، انسانی معاشروں میں کئی دیگر تبدیلیوں نے  بھی مجموعی انسانی ذہانت کو عروج بخشا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ آج سے چند صدیاں قبل تک ابتدائی عمر میں تجریدی یا تخیلیاتی انداز میں سوچنا نہیں سکھایا جاتا تھا۔ آج کے تعلیمی نظام میں بچوں کو کسی خیال یا تصور کی بنیاد پر تقسیم کی گئی معلومات فراہم کی جاتی ہے۔ مثلاً آج اسے جانوروں کے بارے میں ممالیہ اور غیر ممالیہ کی تقسیم سمجھائی جاتی ہے اور وہ حیوانات کو اس تصور کی بنیاد پر تقسیم کرکے دیکھتے ہیں۔ اسی طرح ٹیکنالوجی کی ترقی نے بھی تجریدی یا تخیلاتی انداز میں سوچنے کے مواقع بڑھا دیے۔ صرف کمپیوٹر ہی کو دیکھیے ، اس میں کوئی سادہ سا کام کرنے کے لیے بھی کئی علامتوں کو اور ان کے باہمی تعلق کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے اور  بیک وقت انھیں استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اس قبل انسانوں عام زندگی میں سوچنے کی ایسی مشق نہیں کرنا پڑتی تھی، یہی سبب  ہے کہ گزشتہ دہائیوں میں انسانوں کی اجتماعی ذہانت میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 

فلین افیکٹ کے اسباب جو بھی رہے ہوں تاہم اب یہ شواہد سامنے آرہے ہیں کہ انسانوں کی بڑھتی ہوئی آئی کیو کا عہد اختتام پر پہنچنے کو ہے بلکہ اس میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے۔ فن لینڈ، ناروے اور ڈنمارک جیسے خوشحال ممالک ہی کی مثال لی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نوے کی دہائی کے وسط ہی میں وہاں بڑی تبدیلی کا آغاز ہوچکا تھا۔ ان گزشتہ تین دہائیوں کے جائزون کے مطابق ان ممالک میں اوسط ذہانت یا آئی کیو میں فی برس اعشاریہ دو پوائنٹس کی کمی واقع ہورہی ہے۔ اس اعبتار سے آئندہ آنے والی ہر نسل میں سات پوائنٹس کا فرق پڑتا رہے گا۔ چوں کہ یہ صورت حال سامنے آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا یہی وجہ ہے کہ اس حالیہ رجحان کو بیان کرنا ، فلین افیکٹ کے اسباب بیان کرنے سے بھی زیادہ دشوار ہے۔ ماہرین کے نزدیک ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ تعلیم کی ترغیبات پہلے جیسی نہیں رہیں یا کم ازکم اب تعلیمی نظام طلبا کو ایسی سرگرمیوں کے مواقع فراہم کرنے میں ناکام ہورہا ہے جو ذہانت میں اضافے کے لیے ضروری تصور ہوتے تھے۔ اوسلو یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ  آج کے طلبہ میں بنیادی حساب کتاب یا جمع تفریق کی مہارت تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے، یہ صلاحیت آئی کیو اسکور کے لیے بنیادوں میں شامل تھی، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اب طلبا عام جمع تفریق کے لیے بھی اپنے ذہنی صلاحیت استعمال کرنے کے بجائے کیلکیولیٹر کا استعمال کرنے کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔   

برسوں کی تحقیق اور صدیوں کے مشاہدے سے یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارا کلچر انتہائی پُراسرار انداز میں ہمارے دماغ اور سوچنے سمجھنے کی  صلاحیت کی تشکیل کرتا ہے۔ جب کہ سائنسدان آئی کیو میں آنے والی تبدیلیوں سے یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ ہماری سوسائٹی پر کیا اثرات مرتب کریں گی۔ اس حوالے سے حال ہی میں کورنل یونیورسٹی کے ماہر نفسیات رابرٹ اسٹرنبرگ نے ایک تحقیقی جریدے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا :’’یہ بات درست ہے کہ بیسویں صدی کے خاتمے کے ساتھ سامنے آنے والی ایجادات ، موبائل فون اور دیگر تکنیکی ایجادات کا پیچیدہ استعمال عام لوگوں نے جلد  سیکھ لیا۔ اس کے نتیجے میں آئی کیو کے اسکور میں ابتدائی طور پر اضافہ بھی ہوا اور اوسط 30پوائنٹس کا اضافہ ایک خوشگوار حیرت ثابت ہوا تاہم بعد کے حالات سے یہ جوش کم ہوتا چلا گیا۔ 2016کے امریکی صدارتی انتخاب ہماری تاریخ کا سب سے زیادہ بچکانہ انتخاب تھا۔ مزید یہ کہ آئی کیو کے زیادہ اسکور نے ہمیں دنیا یا اپنے ملک کو درپیش بڑے مسائل اور چیلنجز کا حل تلاش کرنے میں کوئی مدد فراہم نہیں کی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں ایک جانب  آئی کیو اور انسانوں کی اوسط ذہانت کے بارے میں دعوے کیے جارہے تھے، اسی دور میں انسانوں میں آمدن کے اعتبار سے طبقاتی فرق ، غربت میں اضافہ ہوا، ماحولیاتی تغیرات کی رفتار تیز ہوگئی، آلودگی، تشدد اور اس  سے ہونے والی ہلاکتوں میں بھی ہولناک اضافہ ہوا۔‘‘

فلین ایفیکٹ پر تنقید کرتے ہوئے ، بعض ماہرین کے خیال میں، اسٹرنبرگ نے کچھ زیادہ ہی قنوطیت سے کام لیا ہے۔ طبی تحقیق کی وجہ سے نومولود اورکم سن بچوں کی اموات کی شرح میں عالمی سطح پر کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی طرح یہ بات تو درست ہے کہ عالمی سطح پر انتہائی غربت ختم تو نہیں ہوسکی لیکن اس صورت حال میں بھی کسی  حد تک بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ انسانی ذہانت کے فوائد میں ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی کو تذکرہ کرنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ گزشتہ دو دہائیوں میں انسانی ذہانت نے اس کے کئی کرشمے دکھائے ہیں جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ اسٹرنبرگ نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ فلین ایفیکٹ ہماری مجموعی ذہانت میں بہتری یا دماغی صلاحیتوں میں اضافے سے متعلق درست معلومات فراہم کرتا بھی ہے یا نہیں۔ تاہم جیمز فلین کا اپنا استدلال یہ ہے کہ آئی کیو میں ہونے والا اضافہ مخصوص ذہنی صلاحیتوں تک محدود ہے۔ اس کی مثال یہ دی جاتی ہے کہ  جیسے خاص قسم کی ورزشیں ہمارے جسم کے پٹھوں کو مضبوط کرتی ہیں لیکن اسے مجموعی ’’تندرستی‘‘ کے لیے کافی پیمانہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسی طرح آج کی نوجوان نسل کو تعلیم میں خاص مہارتیں سیکھنے کے مواقع تو مل رہے ہیں لیکن کیا اس کے ساتھ ساتھ ان میں دنیا کو درپیش مستقبل کے بڑے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے مطلوبہ صلاحیت اور غور و فکر کی استعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اس کا جواب واضح نہیں !

عام طور پر اس سے تخلیقیت یا کریٹیوٹی لیا جاتا ہے۔ ہم عام طور پر  تخلیقیت کو فن کارانہ صلاحیتوں تک محدود تصور کرتے ہیں۔ لیکن تخلیقیت عام زندگی سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔اس مراد یہ  بھی ہے کہ کسی انتہائی اہم مسئلے کا درست اور بروقت حل تجویز کیا جائے۔ اس کے علاوہ تصور کی سطح پر آئندہ حالات کا حقیقت کے قریب قریب تصور قائم کرکے اس کا حل بھی پہلے ہی تلاش کرنا تخلیقیت کے زمرے میں آتا ہے اور آج انسانوں کی اس کی ضرورت تاریخ میں شاید سب سے زیادہ ہے۔ اسی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ذہانت کو ہماری عملی مدد کے لیے زیادہ تخلیقی ہونا چاہیے لیکن گزشتہ کئی برسوں کے جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑھتی ہوئی آئی کیو کے ساتھ انفرادی سطح پر تخلیقی فکری صلاحیتوں میں ویسا ہی اضافہ نظر نہیں آتا۔ فلین ایفیکٹ کے اسباب جو بھی رہے ہوں لیکن اس بات کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے کہ غور و فکر کے نئے اور زیادہ حقیقی طریقوں پر کام کیا جائے۔ 

اس کے بعد ذہانت اور منطقی طرز فکر کے مابین تعلق کا اہم سوال بھی غور طلب ہے۔ منطقی طرز فکر کا سادہ سے مفہوم یہ ہے کہ فیصلوں میں ٹھوس شواہد کو کتنا وزن دیا جاتا ہے اور غیر متعلقہ معلومات کی کانٹ چھانٹ کیسے کی جائے۔ ہمارا شاید عام تصور یہ ہوگا کہ جو شخص جتنا ذہین ہوگا ، اتنا ہی منطقی بھی ہوگا۔ لیکن یہ اس قدر سادہ بات نہیں۔ آئی کیو میں بنیادی ریاضی وغیرہ کی مہارت شامل ہے، جس کی مدد سے اعداد و شمار کی مدد 

سے اندازے وغیرہ تو لگائے جاسکتے ہیں لیکن منطقی طرز فکر کا اس سے براہ راست تعلق نہیں۔ اس کی مثال دیکھیے کہ ایک سروے کے مطاب اگر لوگوں کو بتایا جائے کہ کھانے کی کوئی شے چکنائی سے ’’95فیصد پاک‘‘ ہے جب کہ دوسری جانب کہا جائے کہ اس میں ’’پانچ فیصد‘‘ چکنائی شامل ہے تو عمومی طور پر لوگ پہلی شے کو زیادہ صحت مند تصور کرتے ہیں۔ حساب کتاب کے اعتبار سے یہ درست نتیجہ ہے لیکن اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آئی کیو زیادہ ہونے کے باوجود اندازِ فکر میں ایسے سقم ہوسکتے ہیں ، جو فیصلہ سازی پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسے ’’فہم کے تعصب‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ انسانوں میں پہلے سے طے شدہ رائے سے میل کھاتی معلومات کو آسانی سے قبول کرنے کا فطری رجحان پایا جاتا ہے اور اسی طرح اپنی رائے سے متضاد حقائق کو نظر انداز کرنا اس رجحان کا حصہ ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت خاص طور پر درپیش ہوتا ہے جب سیاست جیسے موضوعات زیر بحث ہوں۔ 

ایسے تعصبات سے گریز یا ان کے خلاف داخلی مزاحمت کی کتنی صلاحیت عام انسان میں پائی جاتی ہے، اس بحث سے قطع نظر  عمومی تنقیدی فکر کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ تنقیدی فکر سے مراد اپنے قائم کردہ تصورات کو خود ہی چیلنج کرکے ، ناقص و نادرست  معلومات کی نشان دہی اور حاصل شدہ نتائج کی صورت میں متبادل کی تلاش اور فیصلہ سازی ہے۔ فکری صلاحیت میں اس کی بنیادی اہمیت ہے لیکن اس کا کوئی براہ راست تعلق نہ تو زیادہ آئی کیو سے ہے اور نہ ہی اعلیٰ تعلیم سے۔ حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد میں بھی تنقیدی فکر کے حوالے سے کوئی غیر معمولی بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔ امریکا ہی میں مختلف تحیققی رپورٹس اور اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کے سرسری جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر انسانوں کی فیصلہ سازی کی صلاحیت میں آئی کیو کے اوسط اسکور بڑھنے کے باجوود کوئی بہتری نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مالی فراڈ کام یاب ہورہے ہیں اور لوگ سبز باغ دیکھ کر اسی طرح بے وقوف بن رہے ہیں یا بیماریوں کے علاج کے لیے اتائیوں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں۔ انسانوں کی عمومی تنقیدی فکر میں زوال کی ایک اور بڑی مثال جعلی یا ’’فیک نیوز‘‘ کا بڑھتا ہوا چیلنج ہے۔ سوشل میڈیا تک رسائی تو عام ہوگئی، آج قدرے کم تعلیم یافتہ لوگ بھی بہ آسانی مختلف سوشل میڈیا فورمز کا استعمال کرلیتے ہیں لیکن دوسری جانب ہم روزانہ بنیادوں پر دیکھتے ہیں کہ اچھے خاصے سمجھدار افراد جعلی خبروں کے فریب سے نہیں بچ پاتے۔ روز ہی ایسی کوئی نہ کوئی جعلی خبر اچانک فیس بک، ٹوئیٹر اور واٹس ایپ وغیرہ پر پھیلتی ہے اور ایک بڑی تعداد سوچے سمجھے بغیر اسے آگے بڑھا دیتی ہے۔ دوسری جانب فیک نیوز اس عہد کا اتنا بڑا چیلنج تصور کیا جاتا ہے کہ اس کے نتیجے میں سیاسی و معاشی عدم استحکام، فسادات پھوٹنے سمیت کئی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور ہوئے بھی ہیں۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مجموعی انسانی ذہانت یا آئی کیو تو ایک جانب بڑھ رہی ہے لیکن دوسری جانب لوگ اسکرین پر نمودار ہونے والی ہر بات کو یا تو درست تسلیم کرلیتے ہیں یا اس پر توجہ ہی نہیں دیتے۔  اس چیلنج کو مد نظر رکھتے ہوئے کئی مغربی ممالک میں کریٹیکل تھنکنگ یا تنقیدی طرز فکر کی صلاحیت میں بہتری کے لیے اسے باقاعدہ نصاب میں شامل کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس بات کی تشخیص ایک بڑی کام یابی ہے۔ منطقی و انتقادی طرز فکر کے فروغ پر متوجہ ہونا بھی ایک اہم پیش رفت ہے تاہم اس کے نتائج برآمد ہونے میں وقت لگے گا۔ لیکن فلین ایفیکٹ میں انسانی ذہانت کے جس عروج کی بات کی گئی تھی، صورت حال اب ویسی نہیں رہی۔ انسانی ذہانت کا سنہرا دور اگرچہ ختم نہیں ہوا لیکن اس کے خاتمے کا آغاز ضرور ہوچکا ہے!