سوشل میڈیا پر ایک اودھم مچا ہے۔ شائستہ اطوار لوگ بھی موجود ہیں مگر اکثریت ان کی ہے جنہیں دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے واقعی ہر رہنما اپنے حصے کے بے وقوف ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ہر قائد انقلاب کے حصے کے یہ بے وقوف سیاسی اختلاف پر ایک دوسرے کی عزت نفس کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں اور اس بات پر قدرت رکھتے ہیں کہ برسوں کے تعلقات ایک لمحے میں ختم کر دیں۔ یہ صرف اپنے اپنے رہنما کے حصے کے مجاور ہیں۔ ان لشکریوں کو سوشل میڈیا پر چاند ماری کرتے دیکھتا ہوں تو ایک سوال دامن سے آن لپٹتا ہے: جس سیاست پر یہ لوگ پہروں ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں اس سیاست میں ان کا مقام کیا ہے؟ پاسِ وضع میں قلم بوجھل نہ ہو جاتا تو پوچھتا اس سیاسی نظام میں ان کی اوقات کیا ہے؟ ووٹ کو عزت دو ، تبدیلی آ رہی ہے اور روٹی کپڑا اور مکان سے لے کر قوم پرستی اور اسلامی انقلاب کے نعرے اپنے حصے کے بے وقوفوں کو مزید بے وقوف بنانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔روایتی سیاست کا طریق واردات تو آپ کو معلوم ہے ہی ذرا ان کی بات کر لیتے ہیں جن کا دعوی ہے وہ دوسروں سے اخلاقی طور پر برتر ہیں اور اعلی روایات رکھتے ہیں۔اسلامی انقلاب کا مطلب یہاں یہ ہے کہ مرحوم قاضی حسین احمد امیر ہوں تو سمیعہ راحیل ایم این اے بن جائیں اور مولانا فضل الرحمن کی سیاسی بصیرت کمال پر ہو توان کے صاحبزادے اسعد محمود ایم این اے بن جائیں ، ان کے بھائی مولانا عطا الرحمن سینیٹر بن جائیں ، ان کے سمدھی حاجی غلام علی سینیٹر بن جائیں ، ان کے بھائی مولانا لطف الرحمن کے پی کے اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بن جائیں اور خاندان کی کچھ خواتین بھی رکن پارلیمان بن بیٹھیں۔ پرویز خٹک خود وفاقی وزیر ہیں ، ان کے داماد عمران خٹک بھی رکن قومی اسمبلی ہیں،ان کی قریبی عزیزہ نفیسہ خٹک اور بھتیجی ساجدہ بیگم بھی مخصوص نشستوں پر ایم این اے ہیں۔ان کے بھائی لیاقت خٹک کے پی میں وزیر ہیں۔ایک اور بھائی ابراہیم خٹک بچ گئے تھے انہیں بھی ایم پی اے بنوا دیا گیا۔ چند گھرانے ہیں جنہوں نے اپنی بادشاہت قائم کر رکھی ہے ۔دادو میں جتوئی اور پیروں کا گھرانہ،جیکب آباد ، کندھ کوٹ کشمور میں جاکھرانی، بجارانی اور مہر خاندان ہے ، سانگھڑ میں پگاڑا ، بالا میں مخدوم ، ٹھٹھہ اور بدین میں شیرازی اور مرزا ، تھر میں سید اور ارباب ، خیر پور میں سید اور وسان ، شکار پور میں مہر اور درانی اور نواب شاہ میں زردادی خاندان کی بادشاہت قائم ہے۔ڈیرہ غازی خان میں لغاری ، کھوسہ ، دریشک اور بزدار ، ملتان میں مخدوم ہی مخدوم یا بوسن، راجن پور میں گورچانی اور مزاری، مظفر گڑھ میں کھر ، جتوئی ، دستی اور قریشی ، رحیم یار خان میں گوریجے اور مخدوم، لودھراں میں کانجو ، بلوچ یا ترین ، جھنگ میں بھروانہ اور مخدوم ، خانیوال میں سید اور ہراج ، بھکر میں شوانی ، نوانی اور ڈھانڈلے اور گجرات میں چودھری اپنی اپنی ریاستوں کے بادشاہ ہیں۔ بلوچستان میں اچکزئی ، رئیسانی ، بگتی ، مینگل اور زہری خاندان نے اپنے اپنی سلطنتیں بنا رکھی ہیں۔ یہی حال کے پی کے کا ہے ۔ان قبیلوں اور خاندانوں میں سے بھی ایک دو گھرانے ہیں جن کی بادشاہی ہے ۔قبیلوں کے باقی لوگوں کو صرف خوش ہونے کی اجازت ہے اور وہ ایسے ہی بغلیں بجاتے ہیں کہ ہم اقتدار میں ہیں جیسے موجودہ حکومت میں تحریک انصاف والے بجاتے ہیں۔ان گھرانوں کی آپس میں رشتہ داریاں بھی ہیں۔یہی الیکٹیبلز کہلاتے ہیں۔ پہلے یہ واردات صرف جاگیردار گھرانوں نے ڈالی ، اب عالم یہ ہے کہ سعد رفیق اپنے بھائی سلمان رفیق اور اہلیہ غزالہ سمیت اسمبلیوں میں جلوہ افروز ہوتے ہیں اور اسد عمر تبدیلی کے فضائل پڑھتے ہیں جب کہ ان کے بھائی جان محمد زبیر بیانیے کے فضائل کا ابلاغ کرتے پائے جاتے ہیں۔بھائی ایک جماعت میں ہوتا ہے بھابھی دوسری جماعت میں ، چچا تیسری جماعت میں اور پھوپھو جان چوتھی جماعت میں۔ حکومت کسی کی بھی ہو اقتدار انہی گھرانوں میں رہتا ہے۔ ن لیگ کی حکومت میں ننھیال کا اقتدار ، پیپلز پارٹی کی حکومت مین ددھیال کا اقتدار اور تحریک انصاف کی حکومت میں سسرال کا اقتدار۔ان کے حصے کے بے وقوف البتہ ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑ رہے ہوتے ہیں ، گالیاں دے رہے ہوتے ہیں اور یہ اپنے اہل و عیال سمیت مزے کر رہے ہوتے ہیں۔ یہاں قیادتیں مشکوک وصیت پر وراثت میں منتقل ہوتی ہیں۔ کسی کی دختر نیک اختر کسی قلم فروش کی لکھی تقریر سے چند جملے اچھے پڑھ لے تو گدا گران سخن دھمال ڈالنے لگتے ہیں رعایا کو مستقبل کی قیادت مل گئی اور کسی کا فرزند ارجمند اسمبلی میں رٹے ہوئے چار جملے دہرا دے تو اہل دربار دیوان لکھتے ہیں قوم کو ایک اور بھٹو مل گیا۔اے این پی ولی خان مرحوم کے گھر کی لونڈی ہے اور جے یو آئی مولانافضل الرحمن کے گھر کی کنیز۔ن لیگ نواز شریف کی ذاتی جاگیر ہے اور پیپلز پارٹی زرداری خاندان کی میراث۔ پختونخواہ میپ محمود اچکزئی کا مال غنیمت ہے اور تحریک انصاف عمران خان کے لیے بنائے گئے بھان متی کے تازہ کنبے کی بہت ساری ریاستوں کے ان عالی جاہوں کا موسمی ’ کرش‘ ہے جو تاحکم ثانی عمران خان کی قیادت پر متفق ہو چکے ہیں۔ اس بندو بست پر سوال اٹھایا جائے تو جواب آتا ہے یہ موروثی سیاست تو امریکہ اور بھارت میں بھی ہے۔بالکل ہے لیکن کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ کس تناسب سے ؟ امریکی کانگریس میں6 فیصد ، بھارت میں اس وقت 18 فیصد جب کہ پاکستان میں57 فیصد۔ سوال اب یہ ہے یہ جمہوریت ہے یا چند خاندانوں کے ہمیشہ اقتدار میں رہنے کا ایک شیطانی بندوبست جس میں دولت فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے؟ گلی محلے اور سوشل میڈیا پر ایک دوسرے سے الجھنے والا سیاسی کارکن کیا اس سوال پر بھی کبھی غور فرمائے گا کہ اس سیاسی بندو بست میں اس کی اپنی حیثیت کیا ہے ؟ ویسے ایک بات پوچھوں ، مارو گے تو نہیں،کیا آپ بھی کسی کے حصے کے بے وقوف ہیں؟