بانی جماعت اسلامی سیدابوالاعلی مودودی کی خوش اخلاقی اور دلنوازی کا عکس جمیل جماعت اسلامی کے ہرقائد کی شخصیت میں نمایاں طور پر دکھائی دیتاہے۔ جماعت والے جب اس خوئے دل نوازی کیساتھ اپنی تقریبات میں شرکت میں تبادلہ خیال کیلئے بلاتے تو ہم بھی چلے ہی جاتے ہیں جب اس طرح پیام آئے گزشتہ روز سینٹرسراج الحق کی دوسری مدت امارت کی تقریب حلف برداری بلاشبہ جماعت اسلامی کی روایات کے عین مطابق انتہائی باوقار اور منعظم تھی۔جماعت اسلامی کی سیاسی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی آئی یا نہیں مگر منصورہ کی عمومی فضا میں ہمیں خاصی کشیدگی اور خوشگوار تبدیلی محسوس ہوئی۔سینٹر سراج الحق نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا کہ جنرل ایوب خان یحیی خان جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف سب نے اپنے ذاتی مقاصد اور اقتدارکے عوام کیلئے جمہوریت دستورٍٍِ قانون پارلیمنٹ عدلیہ اور ملکی وقار کو نقصان پہنچایا ۔ اپنوں نے کہا کہ اب بھی پس پردہ قوتیں متحرک ہیں اس لئے حکومت بے بس دکھائی دے رہی ہے ۔ وفاقی کابینہ میں پرویز مشرف کے درجن بھر وزیر جمہوری نظام کا مذاق اڑا رہے ہیں ۔ سینیٹر سراج الحق نے قائداعظم کا قول دہرایا کہ ریاستی اور ملکی ادارے اپنی اپنی حدود اپنا متعین کردار ادا کریں اور دوسروں کے کام میں دخل اندازی نہ کریں ۔ امیر جماعت اسلامی نے پاکستانی سیاست کے بارے میں بڑا لائوڈ اور کلیئر میسج دیا اورکہا کہ صرف چند لوگوں یا خاندانوں کا نہیں ان 436 افراد اور کمپنیوں کا احتساب بھی ہونا چاہیے کہ جن کے نام پانامہ لیکس میں آئے تھے ۔ سینیٹر سراج الحق نے اپنے خطاب میں بھی کہا کہ ’’ہمارے بارے میں یہ تاثر درست نہیں کہ ہم نے اپنی تمام تر توانائی سیاست کی پرپیج زلفوں کو سنوارنے میں لگا رکھی ہیں اور ہم جماعت کے تحریکی اور دعوتی پیغام کو بھول گئے ہیں‘‘ انہوں نے غالباً اس تاثر کو دور کرنے کیلئے اپنی تقریر میں بار بار بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابوعلی مودودی کا تذکرہ کیا ۔ علامہ اقبال نے دوقومی نظریہ پیش کیا جبکہ قائداعظم محمد علی جناح نے کئی برسوں کی انتھک جدوجہد سے مسلمان ہند کو ایک الگ وطن کے کردیا مولانا مودودی نے مسلمانوں کی اس اسلامی روایات کے خدوخال واضح کرنے اور اس کے اسلامی دستور کے قابل ختم خطوط متعین کرنے کیلئے زبردست فکری رہنمائی فراہم کی ۔ مولانا مودودی کے سیاسی افکار میں ان کا تصور حاکمیت کلیدی اہمیت رکھتا ہے ۔ اپنوں نے واضح کیا کہ کوئی شخص خاندان طبقہ یا ساری برادری مل کر بھی حاکمیت کی مالک نہیں ۔ اصل حاکمیت تو اللہ کی ہے جبکہ انسان کی حیثیت صرف نائب کی سی ہے ۔ ریاست کا اسلامی تصور مغربی جمہوریت کی نفی کرتا ہے ۔ حاکمیت اعلی کے بارے میں سید مودودی کا واضح کردہ اسلامی تصور قرار داد مقاصد سے لے کر 1973ء کے متفقہ دستور تک ہر آئین کی بنیادی روح ہے۔ گزشتہ روز کی تقریب حلف برداری سندھ سے لیکر خیبرپختونخوا تک کی جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت موجود تھی۔ سامنے جو حضرات نظر آئے ان میں سندھ سے اسداللہ بھٹو داکٹر معراج الھدیٰ صدیقی اسلام آباد سے میاں اسلم اور شاہد شمسی اور خیبر پی کے سے پرویز ابراہیم اور قاضی حسین احمد کے صاحبزادے آصف لقمان قاضی موجود تھے ۔ چندہفتے قبل جماعت اسلامی نے اگلی انتخابی وسیاسی جنگ تن تنہا لڑنے کا اعلان کیا تو ہمارا خیال تھا کہ تقریب حلف برداری کے موقعے پر ساری مرکز ی قیادت کی موجودگی میں ایک بار پھر منتخب امیرجماعت اسلامی اپنی نئی سیاسی پالیسی کا اعلان کریںگے سینیٹر سراج الحق کا جذبہ ولولہ تو نیا تھا مگر انہوں نے کوئی نیا پروگرام نہیں دیا ۔ جماعت اسلامی کے قائدین کو اندازہ ہونا چاہیئے کہ بلاشبہ دین وسیاست میں دوئی نہیں یکجائی ہے مگر سیاست میں حصہ لینے کا مقصد سیاسی کامیابی ہے۔ جماعت اسلامی کو غوروفکر کرنا چاہیئے کہ عوام کو جوکچھ درکار ہے وہ جماعت اسلامی کے قائدین وارکان میںبدرجہ اتم موجود ہے۔ 1970ء سے لے کر اب تک جماعت اسلامی کے درجنوں حکمران اسمبلی منتخب ہوئے ان میں سے کچھ مرکزی اور صوبائی وزراکے مناصب تک پہنچے ۔ خود سینیٹر سراج الحق ایک بار نہیں دوبار خیبرپختونخوا کے وزیر خزانہ رہے مگر جماعت اسلامی سے منسوب کسی فرد کے وطن پر مالی اخلاقی یا سیاسی کرپشن کا کوئی ادنیٰ سا بھی داغ نہیں ہے ۔ اتنے اجلے کردار کے مالک، قوم کیلئے سچی غمخواری کا جذبہ رکھنے والے بیباک اور نڈر مخلص پاکستانیوں کو قوم اپنی وسیع تر وفاقی وصوبائی نمائندگی کیلئے منتخب کیوں نہیں کرتی ؟ یہ وہ ملین ڈالر سوال ہے جس کا جواب سینیٹر سراج الحق اور جماعت کی مرکزی مجلس شوری کے ذمے ہے ۔ سید مودودی نے جب 1941 ء میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی تو اس وقت اپنوں نے عصری تقاضوں کے مطابق اسلام کی تعبیر جدید پیش کی تھی ۔ آج تقریباً 80برس گزرجانے کے بعد جماعت اسلامی کو پاکستان میںجدید تقاضوں کے مطابق جماعت اسلامی کے دستور اور طریق کار میں نمایاں تبدیلیاں کرنی چاہئیں مگرہمیں جماعت میں ایسا عملی نہ سہی سیاسی مجدد بھی دکھائی نہیں دیتا جو جرات رندانہ سے کام لے کر جماعت کی سیاسی کامیابی کیلئے کوئی آؤٹ آف باکس حکمت عملی سامنے لائے ۔ اگر جماعت اسلامی لکیر کی فقیر بن کررہے گی اور کوئی نئی حکمت عملی اختیار کرنے سے ڈرتی رہے گی تواس دوران سوسائٹی کی سماجی گروتھ اور جماعت اسلامی کی قدیم روش میں بہت زیادہ فاصلہ پیدا ہوجائے گا علامہ اقبال ؒنے اسی لیے فرمایا تھا آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پر اڑنا منزل کٹھن یہی ہے قوموں کی زندگی میں پاکستان میں بھرپور انتخابی کامیابی کیلئے گزشتہ پانچ دہائیوں سے تین چیزیں ضروری ہیں ۔ نمبر ایک اسٹیبلیشمنٹ کا دست شفقت نمبر 2 الیکٹ ایبلز نمبر3 عوامی مقبولیت پاکستان کی تمام بڑ ی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ( ن) اور پی ٹی آئی کی تاریخ یہی بتاتی ہے ان حالات میں اگر جماعت اسلامی بوجوہ ان تین شرائط کو اختیار نہیں کرتی اور ترکی تیونس اور الجزائر کی اسلامی تحریکوں کی طرح اپنے دعوتی وسیاسی شقوں کو الگ نہیں کرتی تووہ عوامی مقبولیت کے ذریعے سیاسی کامیابی کیسے حاصل کرپائے گی۔ تحریک انصاف نے جس طرح اپنے وعدوں کو پاؤں تلے روندا ہے جس طرح صرف آٹھ ماہ میں اپنے دیئے ہوئے خوابوں کو کرچی کرچی کیا ہے اور جس طرح عوام کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے ان حالات میں اجتماعی دانش پر یقین رکھنے والی اور ون مین شو کی نفی کرنے والی جماعت اسلامی ہی پاکستانی ووٹروں کی اگلی چائس ہونی چاہیئے مگر جماعت اسلامی اپنے طرز کہن اور 64 فیصد یوتھ کے انداز نو کے درمیان حائل خلیج کو باٹنے کا کوئی پروگرام نہیں دے گی تو عوامی مقبولیت کیسے حاصل کرے گی ۔ بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی کی لیڈرشپ دعوت اور سیاست کے شعبوں کو ترکی کے طیب اردوان کی طرح الگ الگ کرنے کا نعرۂ مستانہ لگانے کا رسک نہیں لے گی ۔ یہی رسک متعین کرے گا کہ اگلی حکومت جماعت اسلامی کی ہو گی یا نہیں۔