چند خوش قسمت لوگوں کو خبر اور نظر کی نعمتیں بیک وقت عطا ہوتی ہیں۔ ایک ایسے ہی اہل خبر اور اہل نظر سے ہماری یاد اللہ ہے۔میں گزشتہ دو تین روز سے ان کی تلاش میں تھا وہ ہمیشہ کال کا جواب دیتے ہیں‘ مصروفیات کی بنا پر بعض اوقات قدرے تاخیر سے۔ گزشتہ شب اسلام آباد سے ان کی کال آ گئی۔ وہ بات کو چبا چبا کر یا گھما پھرا کر کرنے کے عادی نہیں۔ سوال کا سیدھا جواب دیتے ہیں۔ میں نے دعا سلام کے بعد بغیر کسی تمہید کے پوچھا؟ کیا جنگ ہو گی؟ ان کا دو ٹوک جواب تھا جنگ نہیں ہو گی‘ عرض کیا کہ خبریں یا افواہیں ہیں کہ ایک اور جنگ ستمبر تیار کھڑی ہے۔اہل خبر اور اہل نظر کا کہنا تھا کہ میری معلومات اور میری رائے کے مطابق بظاہر کسی جنگ کے امکانات نہیں۔ میرا اگلا سوال یہ تھا کہ کیا پاکستان وہ کچھ کر رہا ہے جو اسے کرنا چاہیے؟ صاحب خبر کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت نیم دلی سے ادھورے انداز میں وہ اقدامات کر رہی جو اسے پروایکٹو ہو کر انتہائی زور شور سے کرنے چاہئیں۔ عرض کیا وہ کیا اقدامات ہیں‘ ان کا جواب تھا کہ پاکستان دوست ممالک بالخصوص امریکہ پر اور برادر اسلامی ملکوں پر زور دے کہ وہ مودی کو کرفیو اٹھانے پر فی الفور آمادہ کریں یا مجبور کریں۔ کچھ باتیں آف دی ریکارڈ تھیں مگر امید افزا تھیں۔ میرا تیسرا اور آخری سوال مقبوضہ کشمیر کی تحریک مزاحمت کے بارے میں تھا‘ اہل نظر کا جواب تھا کہ مودی کے ان ظالمانہ و جابرانہ اقدامات کے نتیجے میں یہ تحریک اور بھڑکے گی‘ اور بڑھے گی۔ اس کے دب جانے کا کوئی امکان نہیں۔ شیخ عبداللہ نے قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں کشمیر کاز کو بے پناہ نقصان پہنچایا تھا وہ 1905ء میں پیدا ہوئے تھے۔ آج کے نوجوان قارئین کو معلوم نہ ہو گا کہ شیخ عبداللہ 1939ء سے پہلے کشمیری مسلمانوں کے محبوب رہنما تھے۔چہرے پر خوبصورت داڑھی تھی اور ان کی تلاوت قرآن وجد آفرین تھی اور وہ نعت ایسی خوش الحانی سے پڑھتے کہ ہزاروں کے مجمع پر ایک سحر طاری ہو جاتا۔ 1939ء میں شیخ صاحب پر گاندھی اور نہرو کا جادو چل گیا۔ انہیں کہا گیا کہ اگر مسلم کانفرنس غیر ’’فرقہ وارانہ‘‘ تنظیم بنا دی جائے تو وہ مہاراجہ کے خلاف ان کی مدد کریں گے۔ اس مفاہمت کے بعد شیخ صاحب نے اپنی داڑھی صاف کی اور جموں و کشمیر نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی۔ جواہر لعل نہرو نے قیام پاکستان کے بعد کشمیر کا وزیر اعظم بنایا اور پھر 1953ء میں انہیں گرفتار کر لیا پھرکہیں 1965ء میں جا کر ان کی رہائی عمل میں آئی۔ شیخ عبداللہ کے بعد ان کے صاحبزادے فاروق عبداللہ اور ان کے پوتے عمر عبداللہ بھی کشمیر کے کٹھ پتلی وزرائے اعلیٰ رہے۔ مودی نے 5اگست 2019ء کو بھارتی آئین سے دفعہ 370اور 35اے کی تنسیخ کے بعد کشمیر میں بدترین کرفیو نافذ کر دیا۔ اس دوران حریت کانفرنس کے قائدین ہی کو نہیں کٹھ پتلی کشمیری لیڈروں کو بھی گرفتار کر لیا۔ان بھارت نواز کشمیری قائدین نے بھارتی دبائو کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا ہے اور اپنی گرفتاری سے پہلے علی الاعلان کہا تھا کہ ہم نے بھارت پر اعتبار کر کے بہت بڑی غلطی کی تھی۔ اسوقت ہر کشمیری حریت کانفرنس کی تحریک مزاحمت کا سپاہی ہے۔ آج 5ستمبر ہے اور آپ کو یاد ہو گا کہ 6ستمبر 1965ء کو پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ یہ جنگ آسیبی یادوں کی طرح بھارتی لیڈروں کے حافظے میں محفوظ ہے جنگ ستمبر کے دوران پاکستان کی بری‘ فضائی اور بحری افواج نے جرات و شجاعت کے وہ ابواب رقم کئے تھے جو جنگوں کی عالمی تاریخ میں آج تک یادگار ہیں۔ جنگ کا محاذ تو کشمیر تھااور پاکستان کو یقین تھا کہ انڈیا بین الاقوامی بارڈر پر چھیڑ چھاڑ نہ کرے گا۔مگر بھارت نے 6ستمبر 1965ء کو رات کے اندھیرے میں لاہور پر تین اطراف سے حملہ کر دیا۔ 10اور 11ستمبر کی درمیانی شب کو بھارت نے پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ حملہ کیا جس میں میجر عزیز بھٹی نے رات بھر اس حملے کو روکے رکھا جو کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ اس جنگ میں بھارت نے 500ٹینکوں اور 50ہزار فوج کے ساتھ سیالکوٹ پر بھی حملہ کیا۔ پاکستان نے اس ٹڈی دل کا مقابلہ صرف 125ٹینکوں اور 9ہزارجوانوں سے کیا اور دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ اسی طرح چونڈہ کے محاذ پر بھی بھارتی ٹینکوں کا مقابلہ پاکستانی پیدل بٹالین نے کیا اور دشمن کے 150فوجی گرفتار کرلئے۔ پاکستان کی محیر العقول فضائی کامیابی کا تو میں ایک ’’لڑکے‘‘ کی حیثیت سے عینی شاہد ہوں۔سرگودھا میرا شہر ہے۔ سیٹلائٹ ٹائون میں ہمارا گھر سرگودھا ایئر بیس سے زیادہ سے زیادہ پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر تھا جنگ ستمبر کے آغاز کے دنوں میں ہم نے بچشم خود اس تاریخ ساز فضائی ڈاگ فائٹ کو دیکھا جس میں پائلٹ ایم ایم عالم نے ایک منٹ سے کم وقت میں دشمن کے 5ہنٹر طیارے مار گرائے۔ یہ ایک عالمی ریکارڈ تھا۔ جنگ ستمبر کی کامیابی کا سب سے بڑا راز قومی یگانگت ‘ و یکجہتی تھی۔ فوج نے اپنا محاذ سنبھالا۔ سب سیاست دانوں کا آج کی اصطلاح میں ایک ہی بیانیہ تھا۔ ٹیلی ویژن ابھی تھا نہیں۔ مولانا مودودی نے ریڈیو پر مسلمانوں کی عظمت رفتہ کے حوالے سے اور غازیوں اور شہیدوں کے تذکرے سے مجاہدین میں اسلامی روح جہاد پھونک دی۔ اپنے اہل خبر اور اہل نظر دوست کی انفارمیشن اور تجزیہ سر آنکھوں پر مگر نریندر مودی ایک ایسا شخص ہے کہ جو فی الواقع مسلمانوں کے خون کا پیاسا ہے۔ اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں اس نے گجرات میں 2200مسلمانوں کو انتہائی سفاکی کے ساتھ میں موت کے گھاٹ اتارا۔ اس انسانیت سوز اور شرمناک حرکت پر اس نے اپنے ضمیر میں ہلکی سی خلش بھی محسوس نہ کی۔ حکومت پاکستان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر مودی عالمی دبائو پر بھی کشمیر میں کرفیو نہیں اٹھاتا اور مزید خونریزی کرتا ہے اور خواتین کی بے حرمتی جاری رکھتا ہے تو پھر پاکستان چاہے یا نہ چاہے اسے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی بھر پور عملی مدد کرنا ہو گی۔ کشمیریوں کو حالات کے رحم و کرم اورمودی کے ظلم و ستم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ پاکستانی فوج آج 1965ء سے بڑھ کر جذبہ جہاد سے سرشار اور جنگ کے لئے تیار ہے مگر حکومت وقت نے دیگر سیاستدانوں کے ساتھ ابھی تک یگانگت کا وہ ثبوت نہیں دیا جو 1965ء میں ایوب خان نے دیا تھا۔ گزشتہ جمعتہ المبارک کو 12بجے والا کشمیر کے لئے احتجاج ایک سرکاری احتجاج تھا جسے بیورو کریسی نے حسب روایت سکولوں کے بچوں‘ دفتروں کے افسروں اور کلرکوں اور دیگر ورکروں سے ترتیب دیا تھا۔ اتوار کو کراچی میں لاکھوں افراد پر مشتمل جماعت اسلامی کی ریلی حقیقی عوامی ریلی تھی۔ جس میں دیگر کئی جماعتوں کے قائدین بھی شامل تھے۔ اس ریلی نے کشمیریوں کے ساتھ زبردست یکجہتی کا ثبوت دیا اور دنیا کو پیغام دیا کہ اہل پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ نریندر مودی ہندو توا کا شیدائی ہے۔ ہندو توا کیا ہے؟ ہندو توا ایک نظریہ ہے۔ جس کے مطابق جو بھی ہندوستان میں رہے گا اسے ہندو بن کر رہنا ہو گا یا اسے ہندوستان چھوڑنا ہو گا۔ نریندر مودی اگر کشمیریوں کی نسل کشی کرے گا تو پھر پاکستان کے پاس جنگ کے علاوہ کوئی آپشن نہ بچے گا۔ عین ممکن ہے کہ پاکستان کو ایک اور جنگ کشمیر لڑنا پڑ جائے۔ جناب عمران خان کو چاہیے کہ وہ بھی ایوب خان کی طرح ساری قوم کو اکٹھا کریں۔ مکمل قومی یگانگت کے بغیر کوئی جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔