1948ء سے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے اسی لیے اقوام متحدہ اور اس کے رکن ممالک پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔مگر افسوس کہ اقوام متحدہ نے آج تک اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے نہ تو کوئی ٹھوس قدم اٹھایا اور نہ ہی کبھی بھارت پر دباؤ ڈالا کہ وہ اسے حل کرنے کے لیے کوشش کرے۔اسی طرح اقوام متحدہ کے اراکین ممالک نے بھی ہمیشہ بے حسی دکھائی۔ اسی لئے بھارت اپنی من مانی کرتا چلا آیا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی مرتبہ اعلیٰ سطح پر بھی مذاکرات ہو چکے ہیں مگر آج تک ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور مسئلہ جوں کا توں چلا آرہا ہے۔ اب اگرپاکستان میں انتخابات 2018ء کے نتیجے میں ممکنہ طورپر بننے والی حکومت کے سربراہ عمران خان نے بھارت کو مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کی دعوت دی ہے تومودی نے بھی انتخابات جیتنے پر مبارکباد دیتے ہوئے پاکستان کیساتھ تعلقات میں نئے دور کے آغاز پر تیار ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ بات چیت کے ذریعے تنازعات کے حل کی تدبیر کی جانی چاہئے ۔جنگیں اور خونریزی سے تناعات کے حل کی بجائے المیے جنم لیتے ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام کو غربت کے بے رحم شکنجے سے نکالنے کیلئے حکومتوں کو مشترکہ تدابیر کرنا ہوں گی۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں بھارت سمیت تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کا عندیہ دیا اور بھارت کے ساتھ بالخصوص تجارتی تعلقات بڑھانے کی بات کی۔ تاہم انھوں نے آگے بڑھنے کے لیے کشمیر کے پْر امن حل کی بھی بات کی جو شاید بھارت کے لیے قابل قبول نہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے عمران خان کی بھارت کو دعوت کو جہاں اندرون ملک پذیرائی ملی وہاں مقبوضہ کشمیر میں بھی اسے خراج تحسین ملا۔ حریت پسند کشمیری لیڈر میر واعظ عمر فاروق نے عمران خان کی تقریر پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی طرف سے مسئلہ کشمیر کا حل بات چیت سے نکالنے کا بیان خوش آئند ہے۔ عمران خان نے کشمیریوں کے درد و کرب کو محسوس کیا ہے۔امید ہے بھارتی حکومت ان کے بیان کا مثبت جواب دے گی۔عمران خان کی دعوت کے جواب میں کچھ بھارتی دانشوروں نے بھی اس کی حمایت کی ہے۔ سابق بھارتی سفارتکار مانی شنکر ایر کا کہنا ہے کہ عمران خان کی تقریرحالات کے مطابق تھی۔ اگر وہ کشمیر کی بات کر رہے ہیں تو کیا حرج ہے۔ بھارت کو پاکستان سے مذاکرات شروع کرنے چاہئیں۔دنیا کو بھی اس حقیقت کا ادراک کر لینا چاہیے کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا پاک بھارت تعلقات میں بہتری نہیں آ سکتی۔ اس لیے اس کو مذاکراتی عمل سے مائنس کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ پاکستان بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے لیکن بھارت کا جارحانہ اور متعصبانہ رویہ اس سلسلے میں مسلسل رکاوٹ بن رہا ہے۔اب تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کی حکومت بھی انتہا پسند اور جنونی ہندوؤں کا ساتھ دے رہی ہے اور وہ انھیں روکنے کے لیے کوئی مناسب اقدام نہیں کر رہی۔ بہر حال تنازعہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کا رویہ ہمیشہ سے تاخیری رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی مذاکرات کا ماحول بنا بھارتی لیڈر شپ نے حیلوں بہانوں سے تنازعہ کشمیر پر گرما گرمی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ادھر بھارتی دانشور یہ کہنا شروع ہو جاتے ہیں کہ تنازع کشمیر کو ایک طرف کر کے تجارتی معاملات کو آگے بڑھایا جائے۔یہی وہ رویہ ہے جو دو طرفہ تعلقات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ اور پاک بھارت مذاکراتی ایجنڈے میں شامل ہے۔ اس پر پاکستان کے موقف میں تبدیلی کا تاثر بے بنیاد ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ جب بھی پاکستان اور بھارت کے مابین مذاکرات ہوں گے مسئلہ کشمیر اس میں شامل ہو گا۔ گو کہ بھارت کی موجودہ حکومت ایک عرصے سے یہ کوشش کر رہی ہے کہ پاکستان کے ساتھ جب بھی مذاکرات کا عمل شروع ہو اس میں مسئلہ کشمیر کو شامل نہ کیا جائے جو کہ ناقابل قبول ہے۔ تجارت، راہداری اور آپس کا میل ملاپ مذاکرات کا موضوع بنیں مگر بیچ میں مسئلہ کشمیر نہ ہو۔ مسئلہ کشمیر کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ خود بھارت کا منفی رویہ ہے۔ 2014ء میں نریندر مودی نے برسراقتدار آنے کے بعدمسئلہ کشمیر پر وہی روایتی رٹ لگانا شروع کر دی تھی کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے لہٰذا وہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان سے بات چیت کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوگا۔ مسئلہ کشمیر نہیں تو بات چیت یا مذاکرات بے معنی ۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے بھارت کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے آئے روز بے بنیاد، اشتعال انگیز اور غیرذمہ دارانہ بیانات داغنے سے پرہیز کرنے کی صلاح دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کے دل ودماغ پر صرف جنگی جنون چھایا ہوا ہے جوکہ بر صغیر کے خرمن امن کو بارود اور ایٹمی بموں سے تہس نہس کرنے کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ حریت چیئرمین نے بھارت کے ارباب اقتدار کو ریاست جموں کشمیر کی پچھلے 70 برسوں سے چلی آرہی زمینی صورتحال سے جان بوجھ کر چشم پوشی کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ نام نہاد جنگ بندی لائن کے آر پار بلا لحاظ مذہب وملّت جو انسانی خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے اس سے کوئی سبق حاصل کرنے کے بجائے بھارت صرف اور صرف فوجی زبان میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے طوطے کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ حریت چیئرمین نے مسئلہ کشمیر پر بھارت کے موقف کو سیاسی، اخلاقی اور تاریخی اعتبار سے انتہائی کمزور اور خلاف حقائق قرار دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر کشمیریوں کا ہے اور ہر کشمیری کسی بھی طاقت کے سامنے سرینڈر کرنے کے بجائے بے سروسامانی میں بھی اپنی مزاحمتی تحریک کو اپنے منطقی انجام تک لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کے لیے پچھلے 70سال کی تاریخ گواہ ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کا دعویٰ کرنے والے ملک کو ایک گولی کے جواب میں گولیوں کی بوچھاڑ کرنے کی فوجی زبان میں بات کرنا زیب نہیں دیتا ہے۔ جون 2018 ء میں اقوام متحدہ نے پہلی مرتبہ کشمیر کے متنازع خطے سے متعلق تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں اس علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر تشدد کے سلسلے کو بند کر کے معنی خیز مذاکرات کے عمل سے حل ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کی رپورٹ میں پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں سے اپیل کی گئی ہے کہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرکے انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکا جائے اور اظہار رائے اور مذہب کی آزادی کو بحال کیا جائے۔اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کی رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام دونوں کشمیر میں ماضی میں اور موجودہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا خاتمہ ہو اور تمام لوگوں کو انصاف مہیا کیا جائے جو گزشتہ سات دہائیوں سے اس تنازع کا سامنا کر رہے ہیں جس نے علاقے کے لوگوں کی زندگیوں کو برباد کر دیا ہے۔