ہندوستان جل رہاہے مودی حالت کنٹرول کرنے میں ناکام ہوچکاہے اسے اس کے سوا کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔کہیں وہ ایل اوسی پرکوئی مس ایڈوانچر نہ کربیٹھے۔جس کی صدائے باز گشت بھارتی آرمی چیف بپن راوت کی اس تازہ دھمکی میں سنائی دے رہی ہے کہ جس میں وہ کہتے ہیںکہ لائن آف کنٹرول پر صورتحال کسی وقت بھی سنگین ہو سکتی ہے۔ادھرافواج پاکستان کے ترجمان کاکہناہے کہ کسی فالز فلیگ آپریشن یا حملے کی کوشش کی گئی تو پاکستانی افواج تیار ہیں اور حملہ آور ہونے کی کوشش پر مناسب جواب دیا جائے گا۔ سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ اور نیشنل رجسٹریشن آف سیٹیزن کے نام پر پورا ہندوستان ہنگامہ زن ہے۔دہلی سے کنیاکماری تک بے چینی اوربے قراری ہے، اس کی اندھیر نگریچوپٹ راج کی صدائے بازگشت بیرون ممالک میں بھی سنائی دے رہی ہے۔اقوام متحدہ نے اسے غیر منصفانہ قانون قرار دے دیا ہے، اور اسے جلد سے جلد واپس لینے کا مشورہ دیا ہے، آکسفورڈ اور کیمرج جیسی عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹیز میں احتجاج ریکارڈ ہورہے۔بھارت کی کئی ریاستوںمیںطوفان کی آہٹ ہے، جامعات میں سب سے زیادہ ہنگامہ ہے۔دہلی پولیس اورآرایس ایس کے غنڈوں کا ظلم ہر کسی کے سامنے ہے، بچوں کو لائبریریوں میں گھس کر پڑھائی کے دوران مارا گیا ہے، باتھ روم میں بھی زور دستی دکھائی گئی ہے، پیلٹ گن استعمال کی گئی ہے،جس سے بعض کی آنکھیں چلی گئی ہیں۔ آج ہندوستان کااصل چہرہ پوری طرح بے نقاب ہوچکاہے۔مودی حکومت نے مسلمانان ہندوستان کے خلاف مورچہ سنبھال رکھا ہے اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ ویڈیوز اور تصاویر سے صاف پتہ چلتا ہے؛ کہ ہندوستان میں مسلمان کس بے بسی کا شکارہیں۔ ہر جگہ ان پرلاٹھیاں برس رہی ہیں، ان کے سر پھوڑے جا رہے ہیں۔مسلمانان ہندوستان سے متعلق تیارشدہ منصوبوں اورسازشوں کے خلاف جامعہ ملیہ دہلی سے شروع ہونے والے صدائے احتجاج بلندہواتو جواہرلال نہرویونیورسٹی ،علی گڑھ یونیورسٹی بنارس کی ہندو یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی، پوڈوچری سمیت بھارت کی کئی جامعات کے طلبا اٹھ کھڑے ہوچکے ہیں اور جامعہ کے طلبا کا ساتھ دینے کیلئے وہ یکسواوریک رخ ہوچکے ہیں، یہ یونیورسٹیاںقابل تعریف ہیں کہ جنہوں نے حق و ناحق کا میزان پکڑا، اورمودی حکومت کی تمام مسلم کش کارروائیوںکے خلاف کھڑے ہوگئے، تادم تحریرکئی جانیں جا چکی ہیں۔ اس وقت ضرورت ہے کہ مسلم امہ کی طرف سے بھارتی مسلمانو ںسے کہاجائے کہ تم حق کا راگ چھیڑتے چلے جائو۔صبح بے نور کا انکار کرتے جائو۔ایسے دستور کو مٹاتے جائو۔ظلم کی ہمنوائی کو مت مانو۔اے نوجوانوں۔تم تاریخ کا سنہرا باب رقم کر رہے ہو۔جو محروم ہیں یہ ان کی حرماں نصیبی ہے، مگر تمہاری سعادت ہے کہ تم نسلوں میں زندہ رہوگے، اگر مر بھی گئے تب بھی دوام پائوگے، صبح قیامت تک تم چمکتے دمکتے رہو گے، معصوم عوام ہمیشہ بار احسان تلے دبی رہے گی۔یونہی بڑھتے جائو۔ایک حدی خواں کا نغمہ سنواور قدم سے قدم ملاتے جائواور کہتے جائو۔ ادھر آ ستمگر ہنر آزمائیں تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں واضح رہے کہ ہندوستان میں شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف بھارت کے پانچ صوبوں پنجاب،کیرالہ ، مغربی بنگال، چھتیس گڑھ اورمدھیہ پردیش کے وزرائے اعلیٰ کاموقف ہے کہ وہ اس متنازع قانون کو اپنی ریاست میں نافذ نہیں ہونے دیں گے۔واضح رہے کہ بھارت کی 29 ریاستوں میں سے 16میں بی جے پی یا اس کے اتحادیوں کی حکومتیں ہیں۔جبکہ 13ریاستوں میں بی جے پی یا اس کے اتحادیوں کی حکومتیں نہیں ہیں۔مغربی بنگال میں برسر اقتدار ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی نے جمعہ 13دسمبرکو ایک پریس کانفرنس میں کہاکہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور کوئی بھی پارٹی اس کی نوعیت کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ ہماری ریاست میں کسی کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی آپ کو باہر نہیں نکال سکتاہے۔ میری ریاست میں کوئی بھی اس قانون کو نافذ نہیں کرسکتا۔ممتا بنرجی سے قبل وزیر اعلیٰ پنجاب کیپٹن امریندر سنگھ نے ٹویٹ کیا تھا کہ کوئی بھی قانون جو لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرتا ہے وہ غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہے۔ انڈیا کی طاقت اس کے تنوع میں ہے اور شہریت ترمیمی قانون اس کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔اس لئے میری حکومت پنجاب میں اس پر عمل درآمد نہیں ہونے دے گی۔ جبکہ کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنرائی وجین نے بھی ٹویٹ کیا کہ شہریت ترمیمی بل غیر آئینی ہے اور کہا ہے کہ وہ ریاست میں اس پر عمل درآمد نہیں ہونے دیں گے۔انھوں نے ٹویٹ کیا کہ مودی حکومت بھارت کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ مساوات اور سیکولرزم کو ختم کر دے گی۔انھوں نے لکھا کہ مذہب کی بنیاد پر شہریت کا تعین کرنا بھارتی آئین کو مسترد کرنا ہے۔ اس سے ہمارا ملک بہت پیچھے رہ جائے گا۔ بہت جدوجہد کے بعد ملنے والی آزادی دائو پر لگی ہوئی ہے۔انگریزی کے روزنامہ دی ہندو کے مطابق انھوں نے کہا کہ اسلام کے خلاف امتیازی سلوک کرنے والے اور فرقہ وارانہ طور پر پولرائز کرنے والے قانون کی کیرالہ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔اس کے علاوہ دو دیگر ریاستیں جن کے وزرائے اعلیٰ نے اس پر بیان دیا ہے وہ چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش ہیں۔ ان دونوں ریاستوں میں کانگریس کی حکومتیں ہیں۔چھتیس گڑھ کے وزیر اعلی بھوپش بگھیل اور مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ کمل ناتھ نے کہا ہے کہ وہ اس قانون سے متعلق کانگریس پارٹی کے فیصلے کے منتظر ہیں۔ان کے علاوہ بہار کے وزیر اعلیٰ نے شہریت کے بل پر تو کچھ نہیں کہا ہے لیکن انھوں نے یہ ضرور کہا ہے کہ وہ اپنی ریاست میں (NRC)نیشنل رجسٹر آف سیٹیزن نہیں ہونے دیں گے۔