اپنی لگ بھگ دو دہائیوں پر محیط صحافتی زندگی میں کالم نگاری سے عشق رہا۔ اخبارات سے تعلق کی ابتدا یہیں سے ہوئی اور پھر یوں کہیں کہ کہیں کے نہیں رہے۔ مطلب ، ملازمت کی بھی تو اس لیے کہ کالم نگاری چلتی رہے۔ ایک فائدہ یہ ہوا کہ اس صحافتی "رگڑے" سے بچ گیا جواس وقت نواردوں کو لگتا تھا۔ رپورٹنگ کی طرف مجھے اسلام آباد سے نکلنے والے ایک اخبار ، جس سے میں نے کالم نگاری کی ابتدا کی تھی ،کے چیف ایڈیٹر لائے۔ انہوں نے مجھے دو شعبوں میں سے ایک چننے کا کہا۔ کرائم اور پاک سیکریٹیریٹ۔ پہلے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ وہ بڑے چاہ اور اہتمام سے یہ بیٹ دیتے تھے کہ شہر میں جرم کی روک تھام میں انکا اخبار بھر پور کردار اداکرے۔ لیکن انکے رپورٹر اس نقطے کو بھول کر پولیس اور مجرموں سے دل لگا بیٹھتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ انکے اخبار میں یہ بیٹ ہمیشہ بغیر رپورٹر کے رہتی تھی۔ یہ کہہ کر انہوں نے مجھے امید بھری نظروں سے دیکھا ، ان کے تحفظات اور خدشات واضح تھے ، میں نے پاک سیکریٹریٹ پر اکتفا کرلیا۔ پوسٹنگز اور ٹرانسفرز میں انکی دلچسپی تھی اور یہ کام میں ایک عرصے تک کرتا رہا۔ بیچ میں اپنے ایک رپورٹر دوست کے توسط سے ایک دوسرے انگریزی اخبار کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر سے ملازمت کی خواہش کی تو انہوں نے مجھے کرائم رپورٹنگ کی آفر کی ۔ میری معذرت سے انہیں ایک طرح کی مایوسی ہوئی کہ رپورٹر اس بیٹ کی لیے سفارشیں کرتے تھے اور میں تھا کہ اس سے بھاگ رہاتھا۔ ایک اردو اخبار اسلام آباد میں دھوم دھڑکے سے لانچ ہوا تو وہا ں بھی یہی صورتحال تھی کہ کرائم رپورٹر نہیں تھا۔ بطور سٹی ایڈیٹر اس معاملے پر رپورٹنگ میری ذمہ داری ٹھہری۔ سی ڈی اے اور شہری انتظامیہ کے معاملات میری دلچسپی تھی لیکن پولیس کو بھی بیچ میں لپیٹ گیا۔ میری سامنے اب کرپشن ، فرائض سے پہلو تہی اور ان کے نتیجے میں ابھرنے والے سکینڈل تھے۔ چوری ، ڈکیتی اور قتل جیسے جرائم کو انتظامی پیرائے میں دیکھتے دیکھتے ، پارلیما نی کمیٹیوں تک جا نکلا وہاں جرم کے سدباب میں دلچسپی تو نہ ملی لیکن یہ پتہ لگ گیا کہ معزز ارکان پارلیمان شہری انتظامیہ، پولیس اور سی ڈی اے کے افسران بالا کو باربار کیوں طلب کرتے تھے۔ خیر ، نئے ریذیڈنٹ ایڈیٹر آئے تو انہوں نے مجھے ڈیسک کے ساتھ باندھ دیا۔ کرائم رپورٹر بھرتی کرلیا گیا اور تین دن پولیس کا روزنامچہ ہی رپورٹ ہوا تو میں نے اسے سرزنش کی کہ کم ازکم کوئی فالو اپ ہی دے دو۔ بحث ہوئی تو چیف نیوز ایڈیٹر صاحب متوجہ ہوئے اور مجھے سمجھایا کہ میرے کام کی نوعیت تبدیل ہوگئی تھی۔ ایک دوست نے تھنک ٹینک بنایا ، میگا سکینڈلزاور احتسابی اداروں کی کارروائیاں میں انکی دلچسپی تھی۔ یہاں سے ہوتے ہوئے ایک دوست کے ایف ایم کیحالات حاضرہ کے پروگرام "میڈیا ہٹ" تک جا نکلا۔ پاناما سکینڈل آچکا تھا اور حکمران پارٹی عتاب میں تھی۔ سوال اٹھا کہ عرصہ دراز سے باگ ڈور ہاتھ میں لیے لوگ اگر مجرم ثابت ہوگئے تھے تو وہ کیسے ان اہم عہدوں پر پہنچے۔ الیکشن لڑنے کے لیے صادق و امین کی کڑی شر ط کی موجود گی میں الیکشن کمیشن کی چھلنی کیوں کام نہیں کررہی تھی۔ چوری اور رسہ گیری کا تعلق ابھر کر سامنے آیا تو نگاہ ابھرتی سیاسی پارٹی پر ٹک گئی جس نے معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کا نعرہ لگا دیا تھا اور قومی خزانے کی ایک ایک پائی وصول کرنے کی قسم کھا بیٹھی تھی۔ اتخابات ہوگئے ، نئی حکومت بھی آگئی ، عددی کمزوری کے باوجود احتساب پر سمجھوتہ نہ کرنے کا عہد ، ایک پختہ عزم کا پتہ دیتا تھا۔ اپوزیشن کی سراسیمگی اور مظلومیت کی داستانیں اپنی جگہ لیکن جہاں تک احتساب کا معاملہ تھا بات کچھ بن نہیں پارہی تھی کہ کورونا آگیا اس دوران میری ڈیوٹی بلوچستان کے ادارتی صفحات پر لگ گئی۔ جرم کا سوال یہاں پھر سامنے آکھڑا ہوا۔ ہمارے دوست مسعود کھبیکی، جنہوں نے جرم کو بطور مضمون (کریمنالوجی) پڑھا ہے اور وہ پولیس افسران کی تربیت بھی کرتے ہیں ۔ انکے درجنوں مضامین ، اخبار کے ادارتی صفحوں کی زینت بنے ،کا لب لباب یہ تھا کہ جرم کسی معاشرے کے لیے دیمک سے کم نہیں ہے، اندر ہی اندر اسے کھوکھلا کردیتا ہے۔ انگریز بہادر نے جو قوانین ہمارے لیے بنائے ان کا مطمع نظر مجرم کی تذلیل تھی مگر انکے اپنے ملک میں اصلاح۔ ظاہر ہے ہر دوصورتوں میں پولیس کا کردار مختلف بنتا ہے۔ فورس ہونے کا مطلب مجرموں پر دہشت طاری کرنا ہوتا ہے جبکہ سروس کا مطلب ہے عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ۔ مسعود کھبیکی صاحب کا اصرار تھا، بلکہ ہے، کہ جرم کی نوعیت مقامی ہے اور اسے مقامی طور پر ہی اسے نمٹا جاسکتا ہے۔ یوں وہ جرائم کی روک تھام کے لیے نہ صرف اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے قائل ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ پولیس کو مقامی حکومتوں کے ماتحت ہونا چاہیے ۔ جیلیں مجرموں کو سزا دینے کے لیے نہیں بلکہ انکی اصلاح کے لیے ہونا چاہییں جو نہ صرف مجرموں کو کار آمد شہری بنائیں بلکہ بعد از رہائی معاشرے میں انکی قبولیت کا بھی بندوبست کریں۔ وبا سے آئے اقتصادی بحران اور بڑھتی بے یقینی میں جرم خطرنا ک حد تک بڑھ گیا ہے۔اپنی حد تک اسے اپنے اردگرد گھومتا ، پھرتا اور منڈلا تادیکھتا ہوں۔ پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ جرم آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہوجاتا ہے اور قرب وجوار سے ہمدردی کے بول نہیں بلکہ سمجھوتے کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ ایسے موقعوں پر مجھے سید پور گاوں کے بابا منیر یا د آتے ہیں جن کا کہنا تھا کہ دنیا پْٹھی (الٹی) ہوگئی ہے اور اسے سیدھا کرنا ممکن نہیں ہے۔ میری حیرانی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اسے سیدھا کرنے کے لیے بندے کو الٹا ہونا پڑے گا اور اب تم ہی بتا و کہ کسی کو سیدھا کرنے کے لیے انسان خود کو اْلٹا کیوں کرے ؟ مطلب ، سمجھوتا کرنے اور دفع کرنے میں فرق ہے!