حالات کیسے بھی ہوں، سماعتوںپر کتنے ہی پہرے ہوں، آواز رستہ ڈھونڈ لیتی ہے۔ تاریخ افراد کو چن لیتی ہے۔ بات چھپانے سے تاریخ کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا اور بحران کو پردے کے پیچھے چھپایا نہیں جا سکتا۔ جاسوسی کے معتبر اداروں کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسد درانی نے بھارتی جاسوسی کے ادارے کے سابق سربراہ اے ایس دُلت کے ساتھ جو مکالمہ کیا ہے اس نے ایک بات واضح کردی ہے کہ امن کا راستہ مفاہمت کی کٹھن وادیوں سے گزرتا ہے اور اس کے لیے دونوں اطراف ابھی تیار نہیں ہیں۔ لیکن دونوں ملکوں کے درمیان تنائو ان کے اندرونی سیاسی معاملات پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے۔ دونوں ملکوں میں اس کی صورت مختلف ہے۔ بھارت میں سنگھ پیریوار کی انتہا پسند جماعتیں مسلمان اقلیت کو سیاسی اور سماجی دبائو میں رکھنے کے لیے پاکستان کارڈ کھیلتی ہیں اور اکثریتی جذبات کو ایک خاص رخ دے کر اسے اپنی سیاسی قوت میں تبدیل کرتی ہیں۔ پاکستان میں سیاسی اور عسکری اداروں کے مابین عدم توازن کی بڑی وجہ ہمسایہ ممالک سے تعلقات پر مختلف نقطہ نظر ہیں۔ جنرل اسد درانی نے دلت کے ساتھ مکالمے میں اپنے موقف کو دہرایا ہے وہ یہ باتیں مختلف عوامی فورمز پر کہہ چکے ہیں اور ان پر خاصی بحث بھی ہو چکی ہے۔ خواہ وہ موضوع اسامہ بن لادن کی ہلاکت میں پاکستان کے خفیہ اداروں کے مبینہ کردار سے تعلق ہوں۔ لال مسجد یا ایک حد تک کشمیر سے متعلق بھی ان کا موقف جانا پہچانا ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ واحد فوجی افسر ہیں جن کا یہ موقف ہے۔ بات آئی گئی ہو جاتی اور ان کی جی ایچ کیو میں پیشی نہ ہوتی اگر یہ بات ایک مخصوص ماحول میں نہ ہوئی ہوتی۔ جس دن مکالمے پر مشتمل کتاب کی تقریب رونمائی دہلی میں ہوئی۔ اس روز تھائی لینڈ کے دارالحکومت بینکاک میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس تھا اور پاکستان نے مالیاتی تبادلے کی گرے لسٹ سے بچنے کے لیے ایکشن پلان دیا تھا جس پر دہشت گردی سے متعلق لین دین کے معاملات پر نظر رکھنے والے ادارے نے تحفظات کا اظہار کیا اور اسے ترامیم کے ساتھ آٹھ جون تک دوبارہ جمع کروانے کو کہا ہے۔ وہ ترامیم کیا ہوسکتی ہیں؟ ایک عام سوجھ بوجھ رکھنے والا شہری سمجھ سکتا ہے وہ پاکستان میں کالعدم تنظیموں اور خاص طور پر جماعت الدعوۃ پر موثر گرفت سے متعلق ہی ہو سکتی ہیں۔ اس سے چند ہفتے قبل ہی سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے غیر ریاستی عناصر سے متعلق بات کی تھی۔ یہ بھی کوئی راز نہیں کہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں ایک اہم حریف غیر ریاستی عناصر کو سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان عالمی برادری کو مسلسل کہہ رہا ہے کہ دہشت گردی میں سب سے اہم کردار اسی نے ادا کیا ہے اور ان گروپوں کے متعلق بھی وہ اقدامات کر رہا ہے لیکن عالمی ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کو ابھی اس محاذ پر مشکلات کا سامنا ہے۔ انہی چند مشکلات کا ذکر سابق وزیراعظم نے انگریزی اخبار ڈان سے انٹرویو میں کیا تھا۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ غیر ریاستی عناصر کے ذکر پر بھڑک اٹھتی ہے لیکن یہ مسئلہ جان چھوڑ نہیں رہا۔ ڈان لیکس ہوں یا میموگیٹ اس کے پیچھے یہی کہانی نکلتی ہے۔ عسکری اور سویلین قیادت کے درمیان بداعتمادی پیدا کرتی ہے۔ اسے جتنا دباتے ہیں وہ کسی نہ کسی صورت دوبارہ ظاہر ہو جاتی ہے۔ کبھی بیرونی دبائو سے اور کبھی اندر کی شکایتوں سے۔ اس مسئلے سے ایک ہی بار جان کیوں نہیں چھڑوا لی جاتی۔ اس کے لیے میاں نوازشریف ایک ایسے کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں سب سچ بولیں اور اس کے بعد آگے کا راستہ طے کیا جائے۔ لیکن کیا یہاں فریق سچ بولنے کے لیے تیار ہیں؟ خاص طور پر جب ایک فریق بہت زیادہ ہی طاقتور اور حاوی ہو۔ وہ ایک کمزور فریق کے ساتھ ایسا مکالمہ کیوں کرنا چاہے گا؟ لیکن سوال یہ بھی ہے تو پھر مکالمے کے علاوہ چارہ کیا ہے؟ ممکن ہے کہ کہا جائے جب پالیسی بدلتی ہے تو سب کو نظر آتی ہے لیکن یہ مسئلہ جتنا گھمبیر بن گیا ہے وہ ایک نظرثانی کی بڑی مشق کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کے لیے اندرونی مضبوطی درکار ہے اور یہ ایک دیانتدارانہ مکالمے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اگر پاکستان ایک مخصوص سیاسی بحران سے نہ گزر رہا ہوتا تو جنرل درانی اور ایس کے دُلت کے مکالمے کو علاقائی تناظر میں ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں بھی لیا جاسکتا تھا۔ پاکستان کی بدولتی ہوئی سٹریٹجک اور سیاسی اہمیت میں سی پیک کا نمایاں کردار ہے اور چین کے علاوہ ہمارے عسکری امور کے ماہرین کا بھی خیال ہے کہ سی پیک کے صحیح پوٹینشل کو استعمال میں لانے کے لیے اندرونی اور علاقائی استحکام بہت ضروری ہے۔ اندرونی سلامتی کی بہتر ہوتی صورتحال سے پاکستان، چین اور دیگر غیر ملکی سرمایہ کاروں کا پاکستان میں سرمایہ کاری کے بارے میں اعتماد بحال ہونا شروع ہوا ہے اور اعتماد کی مکمل بحالی اور سرمائے کے تحفظ کے لیے پرامن افغانستان اور پاکستان کے بھارت سے معمول کے تعلقات کو اہم تصور کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر جب پاکستان چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی طرز پر اپنا علاقائی جڑت (Connectivity) کا منصوبہ تیار کر رہا ہے۔ گزشتہ چند مہینوں میں پاکستان کے عسکری اور سفارتی حلقوں سے بھارت کو سی پیک میں شمولیت اور اس سے فائدہ اٹھانے کی دعوت دی گئی ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ چین ہمیں اس طرز کی سفارت کاری کی طرف مائل کررہا ہے۔ اس تناظر میں جنرل درانی اور دُلت کی کتاب اعتماد سازی کا ایک قدم قرار دی جا سکتی تھی جہاں دو خفیہ اداروں کے سربراہ جاسوسی کے شعبے کے تعاون کی بات کر رہے ہیں۔ یہ کتنا ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن اسے اعتماد سازی کے لیے کی جانے والی بات چیت کے طورپر لیا جاسکتا تھا لیکن جنرل درانی کی جی ایچ کیو میں طلبی نے اس تاثر کو زائل کیا ہے۔ لگتا ہے کہ میاں رضا ربانی اور میاں نوازشریف کی تنقید اور قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ بلانے کے مطالبے کے علاوہ بھی کچھ وجوہات ہیں اور عسکری قیادت اس قسم کا کوئی تاثر دینا نہیں چاہتی کہ جنرل درانی کے اقدام کوا ن کی رضا مندی حاصل ہے۔ اگر عدم اعتماد ہے تو اس کی وجوہات سامنے آنی چاہئیں۔ لیکن ابھی ایک اور مسئلہ درپیش ہے کچھ حلقوں کو لگتا ہے کہ میاں نوازشریف پر ڈان کو انٹرویو سے جو دبائو بڑھا تھا وہ اس کتاب کے بعد کم ہو گیا ہے بلکہ میاں نوازشریف نے اگر آئندہ انتخابی مہم چلائی تو وہ اسے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ اس کتاب سے کچھ حلقوں کے انتخابی حساب کتاب اور جوڑ توڑ پر خاصا اثر پر سکتا ہے۔ آئندہ انتخابات کا نتیجہ جو بھی نکلے اور جو بھی قومی قیادت سامنے آئے اسے ترجیحی بنیادوں پر اس اہم سوال کا سامنا کرنے اور اس کا جواب تلاش کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ اداروں کے درمیان توازن، پاکستان کا استحکام اور اس کی علاقائی اور عالمی معاملات میں حیثیت کا تعلق اس سوال سے جڑا ہے۔ یہ سوال بھارت اور پاکستان کے تعلقات سے متعلق نہیں ہے نہ ہی افغانستان کے اندرونی معاملات سے متعلق۔ اس کا تعلق اداروں کے خلوص اور ان کی حکمت عملی سے بھی نہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ غیر ریاستی عناصر پاکستان کے اندرونی خلفشار اور اس کے علاقائی مفادات کے لیے خطرہ کیوں بن جاتے ہیں؟ اس سوال کا جواب مشکل نہیں ہے اور نہ ہی یہ ایسا سوال ہے کہ قومی ضمیر پر بوجھ بن جائے بس اسے مناسب فورم پر زیر بحث لانا ضروری ہے یہ فورم پارلیمنٹ ہی ہوسکتی ہے جہاں سب اپنی اپنی سچائیاں سامنے لائیں اور ان سچائیوں سے ایک نئی تاریخ رقم کریں ورنہ تاریخ کب خاموش رہتی ہے۔