کچھ دیر کے لیے وزیر اعظم کو چھوڑ کر دیکھیے۔ زرداری صاحب اور میاں صاحب کو بھی اپنے مسائل سے خود نمٹنے دیجیے، کچھ وقت ہمیں اپنے لیے بھی نکالنا چاہیے۔ہم کون ہیں؟کوئی ہمارا آگا پیچھا بھی ہے یا نہیں؟کیا ہمارے ہیرو صرف وہی ہیں جو کرکٹ کھیلتے ہیں اور فلموں میں کندھے اچکا کر رٹے رٹائے ڈائیلاگ بولتے ہیں، ایک صاحبزادے سے جنہوں نے او یا اے لیول میں بہت سے اے(A)لیے تھے، پوچھا غالب کا کوئی شعر سنائیے۔ بھلا ہو گلزار کا کہ غالب کی زندگی پر ڈرامہ لکھا اور فلمایا۔ کچھ غزلیں اس میں گائی گئیں۔ ان میں سے ایک دو شعر صاحبزادے نے سنائے۔ غنیمت ہے کہ یہ فلم نما ڈرامہ انہوں نے دلچسپی سے دیکھا تھا۔ چنانچہ ان کی پیٹھ تھپکی اور شاباش دی۔ چلیے، اب آپ یہ بتائیے مومن کون تھے؟ کب تھے؟کہاں تھے؟ آپ سے یہ سوال پوچھتے ہوئے بیس پچیس سال پہلے کا ایک انٹرویو یاد آ رہا ہے جو اس کالم نگار نے ایک سرکاری ادارے میں امیدواروں کا لیا تھا۔ اکثریت امیدواروں کی چودہ اور سولہ جماعتیں پاس تھی۔ اچھے نمبروں سے بی اے کر کے آنے والے ایک امیدوار سے پوچھا اقبال کیوں مشہور ہیں۔ ایک سیکنڈ کی تاخیر سے جواب، پورے اعتماد کے ساتھ، دیا کہ چمڑے کے تاجر تھے۔ ہو سکتا ہے ہونہار بچے نے اقبال کے نام کے ساتھ شیخ کا لفظ دیکھا ہو۔ اس سے اپنے تئیں درست اندازہ لگایا ہو گا کہ شیخ تجارت ہی تو کرتے ہیں اور پھر سیالکوٹ میں چمڑے کا کاروبار تو ہے! اس سے حفیظ جالندھری کا واقعہ یاد آیا۔ اندازہ ہے کہ یہ واقعہ درست ہو گا۔آپ ریل کے ڈبے میں سفر کر رہے تھے۔ سنا ہے حفیظ صاحب ذرا خود پسند تھے۔ فخر سے سامنے بیٹھے مسافر کو بتایا کہ میں حفیظ ہوں۔ اس نے سنی ان سنی کر دی۔ پھر کہا کہ میں وہی حفیظ ہوں جس نے شاہ نامۂ اسلام جیسی عظیم الشان شعری کتاب تصنیف کی ہے۔ اس پر بھی اس مردِ ناداں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اب حفیظ صاحب نے ترپ کا پتہ پھینکا کہ قومی ترانے کا خالق بھی میں ہوں۔ اب بھی اُس نامعقول، حق ناشناس نے کسی تپاک کا اظہار نہ کیا۔ تنگ آ کر حفیظ صاحب نے کہا بھائی میں حفیظ ہوں۔ حفیظ جالندھری! یہ لفظ کہنے کی دیر تھی کہ ڈبے میں جیسے بھونچال آ گیا۔ وہ شخص اٹھا، حفیظ صاحب کو اٹھایا۔ بھینچ کر سینے سے لگایا اور کہا، اخاہ!تو آپ بھی جالندھر کے ہیں۔ کچھ روز پیشتر ایک ٹیلی ویژن چینل پر ایک من چلا اُن خواتین کے جنرل نالج کو بے نقاب کر رہا تھا جو منتخب ایوانوں کی زینت بنی ہیں۔ سوال تھا پاکستان کا پہلا صدر کون تھا؟ کوئی لیاقت علی خان کا نام لے رہی تھی۔ کوئی قائد اعظم کا! اب قارئین کا امتحان کیا لینا کہ مومن کون تھے۔ ملا نصرالدین کی طرح یہ مشورہ بھی نہیں دیا جا سکتا کہ جو جانتے ہیں وہ انہیں بتا دیں جو نہیں جانتے۔ یقیناً بہت سے قارئین خوبصورت ادبی ذوق کے مالک ہوں گے اور لکھاری سے زیادہ علم رکھتے ہوں گے۔ مومن خان مومن غالب کے ہم عصر تھے۔ یوں کہیے کہ غالب کی بہت زیادہ شہرت نے ان کے جن ہم عصروں کی یاد کچھ کچھ دھندلا دی ہے، ان میں مومن سرفہرست ہیں۔ خوش شکل اور خوش لباس مومنؔ 1800ء میں پیدا ہوئے والد غلام نبی خان حکیم تھے۔ حکیم کا مدار خان اور حکیم نامدار خان دو بھائی مغلوں کے آخری عہد میں کشمیر سے ہجرت کر کے دہلی آ بسے اور شاہی طبیبوں میں شامل ہوئے۔ حکیم نامدار خان مومن کے دادا تھے۔ مومن اکاون سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کے خاندان کو شاہ عبدالعزیز دہلوی سے خاص عقیدت تھی۔ مومن کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سید احمد شہید کے مرید تھے۔ ’’مثنوی بمضمون جہاد‘‘ میں کہتے ہیں ؎ وہ نورِ مجسم وہ ظلِ اِلٰہ کہ سایہ سے جس کے خجل مہر و ماہ زہے سید احمد قبولِ خدا سرِ امّتانِ رسولِ خدا نِکو گوہری کا نہ پوچھو شرف علیؓ و حسینؓ و حسنؓ کا خلف خدا نے مجاہد بنایا اسے سرِ قتلِ کفار آیا اسے حبیبِ حبیبِ خداوند ہے خداوند اس سے رضا مند ہے امامِ زمانہ کی یاری کرو خدا کے لیے جاں نثاری کرو الٰہی مجھے بھی شہادت نصیب یہ افضل سے افضل عبادت نصیب کرم کر نکال اب یہاں سے مجھے ملا دے امامِ زماں سے مجھے مشہور روایت ہے کہ غالب نے کہا تھا مومنؔ میرا پورا دیوان لے لیں اور ایک شعر مجھے دے دیں۔ مومن کا یہ شہرۂ آفاق شعر یوں ہے ؎ تم مرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا کم از کم مومن کی یہ غزل تو اکثر نے سنی ہو گی۔ وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو محبت کے معاملات کو مومنؔ عجب پیرائے میں شعر کرتے ہیں۔ بعض اشعار تو اس قدر جدید ذائقہ رکھتے ہیں جیسے آج کے کسی شاعر نے کہے ہیں ؎ اس کے کوچے سے چلا آئے ہے اُڑتا کاغذ پھاڑ کر پھینک دیا کیا مرے خط کا کاغذ سب نوشتے ترے اغیار کو دکھلائوں گا جانتا ہے تو مرے پاس ہیں کیا کیا کاغذ اس شرط پر جو لیجے تو حاضر ہے دل ابھی رنجش نہ ہو فریب نہ ہو امتحاں نہ ہو چل پرے ہٹ، مجھے نہ دکھلا منہ اے شبِ ہجر! تیرا کالا منہ شبِ غم کا بیان کیا کیجے ہے بڑی بات اور چھوٹا منہ پھر گئی آنکھ مثلِ قبلہ نما جس طرف اُس صنم نے پھیرا منہ مومنؔ نے اپنے تخلص کا خوب خوب استعمال کیا اور اس قدر، جیسے استحصال کر رہے ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر بار نیا مضمون لائے۔ اللہ رے گمرہی،بت و بت خانہ چھوڑ کر مومنؔ چلا ہے کعبے کو اک پارسا کے ساتھ دشمنِ مومنؔ ہی رہے بُت سدا مجھ سے مرے نام نے یہ کیا کیا مومنِ دیندار نے کی بت پرستی اختیار ایک شیخِ وقت تھا سو بھی برہمن ہو گیا بوسہ صنم کی آنکھ کا لیتے ہی جان دی مومنؔ کو یاد کیا حَجَراُلاَسْود آ گیا ہر گز نہ رام وہ صنمِ سنگدل ہوا مومنؔ ہزار حیف کہ ایماں گیا عبث مومنؔ تو مدتوں سے ہوئے پر بقول دردؔ دل سے نہیں گیا ہے خیالِ بتاں ہنوز خدا کی بے نیازی ہائے مومنؔ ہم ایماں لائے ہیں زلفِ بتاں سے اے تپِ ہجر دیکھ! مومنؔ ہیں ہے حرام آگ کا عذاب ہمیں بت خانۂ چیں ہو گر ترا گھر مومنؔ ہیں تو پھر نہ آئیں گے ہم مومن حکیم تو تھے ہی، ریاض اور نجوم کے بھی ماہر تھے۔ موسیقی میں بھی دلچسپی تھی۔ اپنے دونوں ہم عصروں غالبؔ اور ذوقؔ کے برعکس، بادشاہوں کی قصیدہ خوانی نہیں کی۔ عزتِ نفس کے معاملے میں حساس تھے۔ واسوخت غضب کی لکھتے تھے۔ ایک طویل حمد ایسی لکھی کہ قلم توڑ کر رکھ دیا۔ پروردگارِ عالم کی صفت اور اپنے گناہوں کا ذکر!اور اس روانی سے جیسے پتھروں اور چٹانوں کے درمیان ایک دریا بہہ رہا ہے۔کچھ اشعار دیکھیے اور کلیات مومنؔ میں یہ حمد پوری پڑھیے۔ کیا غضب کی شاعری ہے ؎ کیوں شکر کریں نہ آلِ دائود افسونِ شہنشہی سکھایا اللہ رے تیری بے نیازی یعقوب کو مدتوں رلایا یوسف سے عزیز کو کئی سال زندانِ عزیز میں پھنسایا یاں شعلے کو سرکشی کی کیا تاب ابلیس کو خاک میں ملایا اللہ!غمِ بتاں میں یک چند بے فائدہ جان کو کھپایا یہ عشق وہ بد بلا ہے جس نے ہاروت کو چاہ میں پھنسایا کرتے رہے شکرِ بختِ بیدار ساتھ اپنے صنم نے گر سلایا کتنی ہی قضا ہوئیں نمازیں پر سر کو نہ پائوں سے اٹھایا آیا نہ کبھی خیال حج کا تلوا سو بار گر کھجایا نیت ہی تھی توڑنے کی گویا گر اس نے نماز میں ہنسایا افسوس! شکستِ صوم یک سُو صد شکر کہ اس نے ساتھ کھایا اللہ مرے گناہ بے حد وہ ہیں کہ شمار کو تھکایا وہ عشق دے جس کا نام اسلام وہ شیوہ نبیؐ نے جو بتایا مجھ کو بھی بچا لے جیسے تو نے یوسف کو گناہ سے بچایا وہ رفعتِ حال دے کہ جس نے منصور کو دار پر چڑھایا مومنؔکہے کس سے حال آخر ہے کون ترے سوا خدایا!