اسکرینیں دیکھ لیں۔ ۔۔ اخبارات کے صفحہ ٔاول کی شہ سرخیاں دیکھ لیں۔ ۔ ۔ اقوام ِ متحدہ میںہمارے وزیر اعظم عمران خان کی 27ستمبر کو دھواں دا ر تقریر کی بازگشت ہر آنے والے دن کے ساتھ دھیمی پڑتی جارہی ہے۔Poorمحاورے کی زبان میں کہہ رہا ہوں مظلوم کشمیری جن کی شہادتیں ایک لاکھ سے بڑھ گئی ہیں اور جو اپنی خونی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ لڑتے ہوئے 60ویں دن بھی کرفیو میں محصور ہیں ،اب ہمارے میڈیا میں ’’بریکنگ نیوز‘‘ سے نکل کر ایک دو پیکجوں اور اخبارات کے آخری صفحات پر دو تین کالموں کی روایتی سرخیوں میں آگئے ہیں۔لگتا ہے، بلکہ حقیقت ہے کہ ایک بار پھر72سال سے بھارت کے زیر تسلط محکوم کشمیریوں کے ساتھ ہاتھ ہوگیا۔ اور پھر اُس سے بھی بڑا المیہ یہ کہ آٹھ ہفتوں سے کشمیریوں سے یکجہتی کیلئے خون پسینہ بہا دینے والے حکمرانوں کا رخ سفید براق شلوار کرتوں،کالی واسکٹوں اور سرخ و سفید چہروں کے سروں پرکلاہ باندھے طالبان کی جانب ہو گیا ہے۔تو دوسری طرف اپوزیشن مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں 27اکتوبر سے حکومت گراؤ مہم میں سرگرم ِ عمل ہوگئی ہے۔اسکرینیں دیکھ لیں،اخبارات اٹھا لیں۔ ۔ ۔ ہیڈ لائن یعنی شہ سرخی میں مظلوم کشمیری OUT۔ ۔ ۔ مولانا کا مارچ اور طالبانIN۔ ۔ ۔ مگر یہ پہلی بار تو نہیں ہوا ۔آج کولڈ وار یعنی سرد جنگ کا لفظ ملکی اور بین الاقوامی سیاسی تاریخ کی ڈکشنری سے کبھی کا نکالا جاچکا ہے۔اشتراکی روس اور سرمایہ دار امریکہ بہادر کے دوران جو ساری دنیا چار دہائی تک تقسیم رہی ،اور جس میں نوابزادہ لیاقت علی خان سے لے کر جنرل ایوب خان تک اور پھر یحیٰی خان سے بھٹو تک ہمارا پلڑا امریکہ بہادر کی طرف ہی جھکا رہا۔جس کے سبب ہماری معیشت تو تباہ و برباد ہوئی ہی مگر اس سے زیادہ ملبہ یہ گرا کہ پہلے ہم نے ڈھاکہ گنوایا،دوسرے آج ہم کشمیریوں کے رستے خون پر مگر مچھ کے آنسو بہا نے تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ دوسری طرف جواہر لال نہرو سے لے کر نریندر مودی کا چالاک و مکار بھارت نام نہاد غیر جانبداری کا ڈھونگ رچا کر دونوں سپر پاور ز کی دفاعی اور معاشی امداد سے جھولیاں بھر کر آج دنیا کی تیسری بڑی معاشی قوت بن بیٹھا ہے۔ خارجی محاذ پر دسمبر1947ء کی رائے شماری یعنی ریفرنڈم پر دوٹوک قرارداد کے باوجود دشمن ممالک تو چھوڑیں،دوست ممالک تک کو بھارت نے اپنے تجارتی اور سفارتی جال میں اس طرح جکڑا ہے کہ ابھی تین ہفتے پہلے 46میں سے 16ممالک جن میں مسلم ممالک کی اکثریت تھی اس بات پر تیار نہیں ہوئے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ذیلی تنظیم کی مذمتی قرارداد پر رسماً ہی دستخط کردیتے۔۔ ۔ معذرت کے ساتھ ، ہر سوال کا چرب زبانی سے جواب دینے والے ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس پر بھی بڑے فخر سے سینہ ٹھونکتے ہیںکہ در اصل یہ ہماری حکمتِ عملی تھی ۔اقرار نہیں کرتے کہ منہ کی کھانے کے خوف سے جنیوا میں قرارداد کا متن جیب میں لیے بیٹھے رہے۔ سیاسی تاریخ کا ایک طالب علم ہوں،اوراق الٹتا ہوں تو ہماری ماضی کی حکومتوں کی تاریخ ایسی حکمت ِ عملیوں بلکہ مصلحت پوشیوں سے بھری پڑی ہے۔جب جب لاکھوں بھارتیوں کی بٹوں اور بوٹوں کا مقابلہ کرتے کشمیریوں کی تحریک کامیابی سے چند قدم پر رہ جاتی ہے۔ ۔ ۔ تو اس پر پیچھے سے چھرا گھونپنے والاکوئی اور نہیں ،یہ ہمارے اسلام آباد کے مجاہد ِ صف شکن ہی ہوتے ہیں۔ 1948ء کی کشمیر کی جنگ کا بار بار اپنے کالموں میں حوالہ دے چکا ہوں۔کہ جب جموں سے پونچھ روانہ ہونے والے کشمیریوں کے قافلے پر مہاراجہ کی فوج نے دہلی سرکار کی ملی بھگت سے شب خون مارا ۔ ۔ ۔ اور جس میں ہزاروں بچوں اور عورتوں کو تہہ ِ تیغ کرنے کی خبر ڈو میل سے قبائلی علاقوں تک پہنچی تو ہزاروں کی تعداد میں اس طرف کے پر جوش کشمیریوں اور قبائلیوں کے قافلے ٹرکوں میں سوار ازمنہ ٔ وسطیٰ کے دور کے ہتھیار اٹھاکر 72گھنٹے میں چکوٹی کا پل پھلانگتے سرینگر سے محض دو میل پر رہ گئے تھے۔مہاراجہ بھاگ کردہلی میں پناہ لے چکا تھا۔جواہر لال نہرو جیسا اسٹیٹسمین بچاؤ بچاؤ کی دہائی دیتا اقوام ِمتحدہ پہنچ گیا اور ادھر ہم معذرت کے ساتھ ،محلاتی سازشوں میں مصروف ،متروکہ املاک پر قبضہ کرنے کی دوڑ میں لگے تھے۔ ۔ ۔ حقیقت لکھنے میں حرج نہیں کہ اُس صورتحال میں اُس وقت کے ’’شیر ِ کشمیر ‘‘شیخ عبداللہ کے پاس بھارت کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں رہ گیا تھا۔یہ اور بات ہے کہ بعد میں شیخ عبداللہ نے اس کی سزا بھی بھگتی۔90ء کی عظیم الشان کشمیرکی قومی ابھارکی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ اُس کی بھاری قیمت ایک بار پھرکشمیریوں کو چکانی پڑی۔رہی سہی کسر 9/11نے پوری کردی۔90ء کے ابھار کی حریت قیادت نے دو دہائی غیر ملکی دوروں اور گھروں میں نظربندی میں گزار دیئے۔مگر ،جولائی 2016ئمیں کشمیریوں کی تیسری نسل کا یہ برہان وانی تھاجس نے ایک بار پھر دہلی سرکار کو ہی نہیں دہلایا بلکہ جس کی گونج ساری دنیا میں سنائی دینے لگی۔۔ ۔ چہروں سے نقابیں اتار کر زیر زمین تحریک کو ایک بار پھربرہان وانی نے سرینگر کے لال چوک پر کھڑا کردیا۔ پُر تعیش دوروں پر اراکین پارلیمنٹ کو بھیج کر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کا وقت گزر چکا۔۔ ۔ کہ یہ کام تو مولانا کی کشمیر کمیٹی برسہا برس سے کررہی ہے۔اورہاں،یہ جو ثالثی کی بات کی جارہی ہے، اس میںتیسرا یعنی حقیقی فریق کہاں ہے؟ جب تک سرینگر میں قید حریت قیادت اور برہان وانی کے وارث کسی ثالثی کی نشست میں برابری کی بنیاد میں شریک نہیں ہوتے تو یہ کشمیریوں کیساتھ محض دھوکہ نہیں ۔ اُن کے خون کا سودا کرنا سمجھا جائے گا۔مسلسل ساٹھ دن تک کرفیو سے سرینگر میں موت کاسناٹا مسلط کر کے بھارت کشمیر کھو چکا ہے! اب کسی قسم کی بھی ثالثی برہان وانی کی نہتی فوج کو گھر نہیں بھیج سکتی۔ سات نہیں ،دس لاکھ کی فوج انہیں کچلنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ مسٹر پرائم منسٹر،یہ آخری موقع ہے۔۔ ۔قومی آزاد ی کی جنگیں ،جنیوا اورنیویارک میں تقریروں اور قراردادوں سے لڑی جاتیں تو آج ویتنام ،ہوچی منہ کا نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ ساؤتھ افریقہ پر نیلسن منڈیلا کا پھریرا نہیں لہرا رہا ہوتا ۔ ۔ ۔