گزشتہ دنوں جب نیب کے زیر حراست میاں نواز شریف کی متعدد بیماریاں تشویشناک صورت اختیار کر گئیں تو انہیں فی الفور لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا۔ اس موقع پر جناب وزیر اعظم عمران خان نے اپنی روایتی گرم گفتاری تج کر خالصتاً انسانی ہمدردی کا رویہ اختیار کیا اور پنجاب حکومت کو حکم دیا کہ ان کے علاج معالجے کے سلسلے میں ہر ممکن تعاون کیا جائے۔ جناب عمران خان نے شوکت خانم سے ایک ڈاکٹر کو بھیجا اور ایک ڈاکٹر کوکراچی سے بھی بلایا گیا۔ بعدازاں جب مختلف طبی رپورٹوں سے یہ واضح ہوا کہ پلیٹ لیٹس کے اتار چڑھائو کے پیچیدہ مرض کی تشخیص بیرون ملک ہو سکتی ہے تو جناب وزیر اعظم نے انہیں فی الفور بیرون ملک بھیجنے میں بھی رکاوٹ کے بجائے سہولت دینے کا تاثر دیا۔ وزیر اعظم کی اس بات کو کہ ’’صحت پر کوئی سیاست نہیں‘‘ کو ہر جگہ بہت سراہا گیا۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ یکایک اسلام آباد کا موسم بدل گیا اور بقول شاعر: مری زباں کے موسم بدلتے رہتے ہیں میں آدمی ہوں مرا اعتبار مت کرنا وہی وزراء کہ جنہیں جناب عمران خان نے بیماری پر بیان بازی سے منع کیا تھا وہ ایک بار پھر شعلے اگلنے لگے۔ نہ جانے کس ’’سرگوشی‘‘ کے نتیجے میں عمران خان بھی آفٹر تھاٹ کی لپیٹ میں آ گئے اور ان کا خوبصورت انسانی ہمدردی کا رویہ ایک بار پھر سنگدلی میں بدل گیا۔ ہر سطح پر یہ اعتراف کیا گیا کہ جناب میاں نواز شریف زندگی اور موت کی کشمکش کا شکار ہیں۔ ان کی متعدد بیماریاں انتہائی تشویشناک صورت اختیار کر چکی ہیں یہ بھی اعتراف کیا گیا کہ ان کی صحت کو کسی خوفناک اور بھیانک انجام سے محفوظ رکھنے کے لئے ہر گزرتا ہوا لمحہ انتہائی اہم ہے۔ اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا کہ ذرا بھی تاخیر کسی بہت بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ ان نازک ترین لمحات میں ہر صاحب فہم و فراست اپنا بیان تاریخ کے صفحات پر ریکارڈ کروا رہا ہے۔ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر علی ظفر اور ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر سیف نے بانڈ کے حکومتی مطالبے کو دو ٹوک الفاظ میں غیر قانونی قرار دیا ہے۔ گزشتہ دو تین روز سے سینئر سیاست دان اور سابق وزیر اعظم چودھری شجاعت حکومت کو بڑی درد مندی سے متوجہ کر رہے ہیں کہ وہ میاں نواز شریف کو بلا مشروط علاج کے لئے باہر جانے دے۔ انہوں نے جناب عمران خان کو متنبہ کیا کہ وہ اپنے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ نہ لگوائیں جسے بعدمیں دھونا ممکن نہ ہو گا۔ یہی بات سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے بھی انتہائی پر زور طریقے سے کہی ہے کہ ایک طرف انسانی ہمدردی کی بات اور دوسری طرف پیسوں کا مطالبہ متضاد ہے۔ حالات تیزی سے ان کی دسترس سے نکلتے جا رہے ہیں‘ مگر نہ جانے عمران خان بکھرتے ہوئے حالات میں بھی اپنا زاویہ نگاہ اور لب و لہجہ بدلنے کو آمادہ نہیں۔ جناب افتخار عارف نے ایسی یہ صورت حال کے بارے میں کہا تھا: خود کو بکھرتے دیکھتے ہیں کچھ کر نہیں پاتے ہیں پھر بھی لوگ خدائوں جیسی باتیں کرتے ہیں چودھری برادران ’’حقیقت پسندانہ سیاست‘‘ کرتے ہیں اور سیاست میں رومینٹک اپروچ سے کام نہیں لیتے۔ انہوں نے گزشتہ روز جو بیانات دیے ہیں ان کے بین السطور مطالب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ان بیانات میں چشم بینا کو بہت کچھ ایسا نظر آتا ہے کہ جو خطرے سے خالی نہیں۔ چودھری شجاعت نے کہا ہے کہ تین ماہ بعد کوئی بھی وزیر اعظم بننے کو تیار نہ ہو گا۔ ان کے بیان کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں زبردست مہنگائی اور بے روزگاری عروج پر ہے۔ تین ماہ بعد یا زیادہ سے زیادہ 6ماہ بعد حالات اتنے بگڑ جائیں گے کہ کوئی بھی انہیں سدھار نہیں سکے گا اور بگڑے ہوئے حالات میں کوئی بھی وزیر اعظم بننے کا رسک نہیں لے گا۔ اہل نظر بخوبی سمجھ سکتے ہیںکہ جب کوئی سیاست دان یہ ذمہ داری قبول نہیں کرے گا تو خلا کون پر کرے گا؟ اس کاجواب تحریک انصاف کی ینگ ٹیم کو معلوم ہو یا نہ ہو جناب عمران خان کو اچھی طرح معلوم ہو گا۔ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چودھری پرویز الٰہی نے مزید وضاحت کر دی کہ وزیر اعظم جان لیں کہ بہتر سیاسی ماحول سے ہی معیشت میں بہتری آئے گی۔ چودھری برادران کے بیانات میں بہت سا سامان نصیحت بھی ہے اور خطرے کی گھنٹیاں بھی ہیں۔ میاں نواز شریف کے آخری ایام پارلیمنٹ سے لے کر اب تک سیاست دانوں اور حکمرانوں نے سارے معاملات کو پارلیمنٹ سے اٹھا کر عدالتوں کے حوالے کر دیا ہے۔ پانامہ لیکس کے بارے میں اس وقت کئی سینئر سیاست دانوں نے میاں نواز شریف کو سمجھایا کہ اسے پارلیمنٹ کے اندر رہنے دیں عدالت نہ لے جائیں۔ پاناما غالباً دو چار روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سیاست دانوں کو نصیحت کی کہ وہ اپنے معاملات پارلیمنٹ میں سلجھائیں اورہر چھوٹے بڑے معاملے کو ہم تک نہ لائیں۔ اس معاملے میں درجنوں مثالیں ہیں مگر تازہ ترین دو مثالوں کو ہی لے لیتے ہیں۔ قمر زمان کائرہ اور پیپلز پارٹی کے چند سینئر رہنما اڈیالہ جیل میں سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری سے ملاقات کے خواہاں تھے۔ اس ملاقات کے لئے انہوں نے جیل قواعد و ضوابط کے مطابق درخواست دی مگر ان کی شنوائی نہ ہوئی۔ بالآخر کائرہ صاحب نے لاہور ہوائی کورٹ سے رجوع کیا جس نے انہیں اور دیگر پارٹی رہنمائوں کو 25نومبر کو جیل میں ملاقات کی اجازت دے دی۔ کیا یہ روٹین کا معاملہ جیل حکام کو حل نہیں کر لینا چاہیے تھا۔ حکومت کو ملاقاتوں پر پابندی لگانے کی کیا ضرورت تھی۔ اسی طرح میاں نواز شریف کے بیرون ملک سفر اور ای سی ایل سے ان کا نام نکالنے کا معاملہ ہے۔ جب خود وزیر داخلہ نے بہت پہلے کہا کہ اگر وہ بیرون ملک جانا چاہیں گے تو اس کا راستہ نکال لیا جائے گا۔ انسانی ہمدردی‘ سیاسی رواداری اور ہماری تہذیبی روایات کا تقاضا تھا کہ جناب وزیر اعظم اپنی ابتدائی فراخدلی برقرار رکھتے اور رخنے ڈالنے والوں کی خود ہی تشفی کر دیتے نہ کہ ایک مستحسن فیصلے کو متنازع بنا دیتے۔ جو کام بڑی حکمت و دانائی سے پارلیمنٹ میں حل ہو سکتا تھا اسے عدالت کی طرف کیوں دھکیلا گیا۔ بات بات پر جب سیاست دان عدالتوں کا رجوع کرتے ہیں تو اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ اپنے معاملات کو خود حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ لیڈر شپ کا کام مستقل مزاجی ہے نہ کہ آفٹر تھاٹ اور آفٹر شاکس۔ تبھی تو شاعر نے کہا ہے کہ ع ہرلرزش صبا کے کہے پر نہ جائیے تحریک انصاف کے سینئر رہنما دوچار پرجوش ینگ لیڈرزکو یہ بات کیوں نہیں سمجھا پائے کہ میاں نواز شریف کی سب سے بڑی ’’ضمانت‘‘ ان کی سیاست ہے۔ جولائی میں میاں نواز شریف اپنی انتہائی بیمار بیگم کو لندن میں چھوڑ کر خود اور ان کی صاحبزادی جیل جانے کے لئے وطن لوٹ آئے۔ اگر وہ نہ آتے تو ان کی سیاست کو شدید دھچکا لگتا اور اب بھی ایسا ہی ہے۔ ماورائے قانون بانڈز طلب کر کے تحریک انصاف کو اپنے بارے میں ناانصاف ہونے کا تاثر نہیں دینا چاہیے۔ اس وقت حکومت کو دو تین شدید ترین نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ پہلا بے حال معیشت مہنگائی اور بے روزگاری‘ دوسرا مسئلہ کشمیر اور تیسرا مولانا فضل الرحمن کے ملک بھر میں دھرنے۔ معاشی خوش حالی و ترقی کے لئے سیاسی استحکام بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور سیاسی استحکام کے لئے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے۔ حکومت کو نیک نیتی اور خوش دلی کے ساتھ پارلیمنٹ کے اندر حزب اختلاف کی شمولیت سے معاملات حل کرنے کی طرف آنا چاہیے تاکہ عدالتوں کی طرف جانے کی حوصلہ شکنی ہو۔