کئی دہائیوں سے پاکستانی معیشت کو ایک طرف قرضوں اور سود کی ادائیگی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ کمر توڑ رہا ہے،دوسری جانب کالے دھن کی معیشت اسے اندر سے کھائے چلی جا رہی ہے۔ماہرین معیشت کے پاس معیشت کو اس سود کے چنگل سے نکالنے کا کوئی حل نہیں ۔73برس میں کئی حکومتیں بدل چکیں بہت سے وزرائے خزانہ اپنی باریاں لگا چکے لیکن نہ تو محنت کشوں کی حالت بہتر ہو ئی نہ ہی ملک سے قرضوں کا بوجھ اتر سکا۔کالے دھن کے معیشت میں سرایت کر جانے کی وجہ سے جہاں معیشت کا کردار بدلا وہاں ریاست اور سیاست کا کردار بھی تبدیل ہو چکا ۔حکمران اور مالیاتی ادارے معاشی مسائل کے حل کیلئے غیر ملکی سرمایہ کاری کو اہمیت دیتے ہیں ۔ایسی سرمایہ کاری کیلئے اپنے ملک کو پر کشش بنانے کیلئے اپنے ملک کی لیبر کو سستا کر دیتے ہیں ۔لیبر جتنی سستی ہو گی سرمایہ کاروں کو اتنا ہی فائدہ ہو گا۔ان کا منافع بڑھتا چلے جا ئے گا۔۔پاکستان میں پہلی بار تحریک انصاف کی حکومت آئی،حکومتی دعوئوں کے مطابق وزیر اعظم عمران خان طرز حکمرانی بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔وہ عوام کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیںحکومت کے ابلاغی مشیروں کے مطابق پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو ملکی معاشی حالات اتنے بہتر نہیں تھے،پھر کورونا آ گیا لیکن اب معاشی صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔کورونا کو شکست دینے کے بعد پاکستان کی معیشت کی بحالی کا کام جاری ہے۔اسی دوران ٹیکس آمدن میں اضافہ ہو رہا ہے،ایکسپورٹ بہتر ہو رہی ہیں،صنعتی سیکٹر لارج اسکیل مینو فیچر نگ اور روپے کی قدر میں بھی بہتری آ رہی ہے،زر مبادلہ کے ذخائر میں استحکام دیکھنے میں آ رہا ہے،اس کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل، سیمنٹ، اسٹیل،کھاد اور دیگر شعبوں میں بھر پور پرو ڈکشن ہو رہی ہے،کورونا کی وجہ سے تعطل ہوا اب صنعتی سیکٹر میں تیزی آ رہی ہے۔اس کی پیداوار میں مسلسل بہتری آ رہی ہے، پچھلے ماہ پاکستان کی ایکسپورٹ ایک ارب نوے کروڑ ریکارڈ کی گئی۔جو گزشتہ سال ایک ارب 77کروڑ کے مقابلے میں تقریباً 6فیصد زیادہ ہے،ٹیکسٹائل، گارمنٹس اور سرجیکل شعبوں میں بھی جو انٹرنیشنل بائر ہیں ان کے آرڈرز میں بہتری آ رہی ہے،پرانے آرڈرز بحال ہو گئے ہیں۔ستمبر میں سیمنٹ کی ریکارڈ کھپت ہو ئی ہے،سیمنٹ کی مجموعی فروخت 5.2ملین ٹن ہو گئی ہے ،پچھلے سال کے مقابلے میں مقامی سطح پر اس میں 17فیصد اضافہ ہوا ہے۔سیمنٹ کی ایکسپورٹ میں بھی ریکارڈ 40فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔کنسٹرکشن کے متعلق اسٹیل سمیت 40صنعتوں کا پہیہ تیزی سے گھوم رہا ہے۔پہلی سہ ماہی میں ایف بی آر نے ایک کھرب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا جو ہدف سے 29ارب روپے زیادہ ہے۔نئے مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں سیلز ٹیکس کی وصولی پچھلے سال کے مقابلے میں 422ارب کے مقابلے میں477ارب ریکارڈ کی گئی اس میں 13فیصد اضافہ ہوا۔پہلی سہ ماہی میں 48ارب کے ریفنڈ بھی دئے گئے، جو پچھلے 30ارب کے مقابلے میں 59فیصد زیادہ ہیں۔لارج اسکیل مینو فیکچرنگ میں 5فیصد اضافہ ہوا۔ پچھلے ماہ 9فیصد اضافہ ہوا تھا۔آٹو سیکٹر بھی بحال ہو چکا،ہر ماڈل کی گاڑیاں لاکھوں روپے کی پریمیم پر فروخت ہو رہی ہیں۔گذشتہ تین ماہ سے شرح سود 7فیصد پر مستحکم ہے۔ شرح سود میں کمی سے بنکوں کی کار فنانسنگ میں دو ماہ میں 40فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔سمندر پار پاکستانی تین ماہ سے اوسطً2ارب ڈالر ماہانہ بھیج رہے ہیں۔اس وجہ سے بنکوں کے ڈیپازٹ ایک دہائی کی بلند ترین سطح 16.05کھرب روپوں تک پہنچ چکے۔ڈالر بھی آہستہ آہستہ نیچے آرہا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ بہتر ہو رہی ہے۔ڈالر سستا ہونے سے ملکی اور بیرونی قرضوں میں 450ارب روپے سے زائد کی کمی ہو ئی ہے۔کورونا کے بعد ملکی معیشت کااحیائے نو ہو رہا ہے سیمنٹ کی فروخت میں 20فیصد اضافہ ہوا،کھاد کی پیداوار میں5سے7فیصد اضافہ ہوا ہے،موٹر سائیکل کی پیداوار اور مانگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین پاکستان کے تمام اشاریے مثبت قرار دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر پاکستان میں بجلی اور گیس مزید سستی ہو جائے تو معیشت اور بہتر ہو جا ئے گی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ بجلی اس لئے مہنگی ہے کہ پچھلی حکومتوں نے ایسے معاہدے کئے جس سے مہنگی بجلی پیدا ہوئی ۔ٹرانسمیشن پر پیسے نہیں لگائے، آ ج ملک میں35ہزار میگا واٹ بجلی بنانے کی صلاحیت ہے لیکن22ہزار میگا واٹ سے زیادہ بجلی تقسیم نہیں کر سکتے۔حکومت صورت حال کی بہتری کے لئے بھی کام کر رہی ہے جب کہ بجلی گھروں سے کچھ نئے معاہدے ہو ئے ہیں،جس سے حکومت کو امید ہے کہ بجلی سستی ہو جائے گی،اطلاعات کے مطابق ستمبر 2020میں بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر 2ارب30کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں۔ یہ گزشتہ سال ستمبر کے مقابلے میں 31فیصد زائد اور اگست کے مقابلے میں 9فیصد زائد ہیں اور چار ماہ میں اوسطاً 2ارب ڈالر ماہانہ کی رقم بنتی ہے،یہ خوش آ ئند بات ہے۔ایک اندازے کے مطابق سعودی عرب میں 19لاکھ پاکستانی ہیں جنہوں نے اس سال تقریاًساڑھے چار ارب ڈالر پاکستان بھجوائے اس طرح اوسط ایک پاکستانی نے 2300ڈالر سالانہ بجھوائے،جبکہ جاپان میں موجود 17ہزار پاکستانی ہیں۔ ایک پاکستانی نے اوسطاً14000ڈالر بجھوائے جاپان میں زیادہ تر پاکستانی کاروبار کرتے ہیں تو حکومت کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے کہ گلف ممالک کی بجائے پاکستانیوں کوجاپان،کوریا،ترکی،انڈونیشیا،ملائشیا بجھوایا جائے۔ وہاں سے زر مبادلہ زیادہ آ ئے گا،بیرون ملک رہنے والے بھارتی سالانہ 86ارب ڈالر بجھوا رہے ہیں جبکہ پاکستان میں10واںحصہ بھی نہیں آ رہا،اب جاپان نے اعلان کیا ہے کہ وہ 10ہزارپاکستانیوں کو نوکری دے گا اور تعدادبڑھتے بڑھتے تین لاکھ تک جائے گی۔ حکومت معیشت کو بہتر بنانے کے لئے ایک اقدام اور کر رہی ہے، معیشت کو دستاویزی بنانے میں مصروف ہے۔ معیشت دستاویزی ہو گئی تو ملک کی تقدیر بدل جائیگی۔پاکستان میں کیش معیشت ختم ہو جائے گی۔پنجاب میں ریونیو اتھارٹی نے سروسز سیکٹر کے لئے مختلف مراعات کا اعلان کیا ہے،بیوٹی پارلر اور ریسٹورنٹ میں اب ادائیگی کارڈ کے ذریعے ہو گی اور اس ادائیگی پر سیلز ٹیکس 16فیصد سے کم کر کے5فیصد کردیا گیا ہے۔یعنی گاہک کو کسی بھی ادائیگی میں 11فیصد کی چھوٹ مل جائے گی۔ 10000کی ادائیگی پر 16پرسنٹ سیلز ٹیکس پر اسے 1600ادا کرنے ہوں تو کارڈ کے ذریعے ادائیگی پر سیلز ٹیکس500دینا ہو گا یعنی اسے1100کا فائدہ ہو گا۔اگر اس سسٹم کو پورے پاکستان میں لاگو کردیا جائے ،پٹرول پمپس،گراسری کی خریداری پر تو نہ صرف گاہک کو بلکہ حکومت کو بھی فائدہ ہو گا ۔معاشی بہتری کے فوائد عوام کو کب منتقل ہوں گے یہ اب بھی سنجیدہ سوال ہے‘ عام شہری آٹے ‘ چینی‘ گھی‘ دودھ ‘ گوشت اور انڈے کی مہنگائی سے تنگ ہے۔ ایک زرعی ملک میں اشیائے خورو نوش کی مہنگائی شرمناک ہے۔ یہ اعلیٰ سطح پر ناقص منصوبہ بندی اور بُرے طرز حکمرانی کا مظہرہے لہٰذا حکومت عوام کو اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں الجھانے کے بجائے چینی‘آٹے ‘ گھی‘ دودھ ‘ بجلی‘ گیس کی قیمتیں کم کرے اور دعائیں لے۔ اپوزیشن کو ناکامی سے دوچار کرنے کی واحد صورت بھی یہی ہے۔ ورنہ پی ڈی ایم کے ہاتھ سنجیدہ ایشو آ گیا ہے اور وہ حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتا ہے۔