نتھیا گلی کے نواح میں ایک گوشہ عافیت میں صبح اتر نے کو ہے۔ کووں کی کائیں کائیں اور چڑیوں کی چہچہاہٹ نے جگا دیا ہے۔صبح کے پانچ بجے ہیں اور پرندوں کی موسیقی سے ماحول گویا مہک رہا ہے۔بچپن یاد آ رہا ہے ۔گھر کے صحن میں سنبل ، امرود اور کینو کے درخت تھے۔ چڑیوں کے شور اور مرغ کی اذان سے آنکھ کھل جاتی تھی۔تب بہت غصہ آتا تھا ، اب بہت یاد آتی ہے۔ ساون کا مہینہ ہے ، بادل دھند کی صورت امڈ امڈ آ رہے ہیں ۔رات ایک کھڑکی کھلی رہ گئی، اب ہر چیز نم ہے اور موبائل کے ٹچ سسٹم نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ شام استاد غلام علی کا فون آیا : کیا کر رہے ہیں؟ اتفاق سے اس وقت گاڑی میں انہی کی غزل بج رہی تھی ، کہا آپ ہی کو سن رہا ہوں۔اب صبح دم بیٹھاسوچ رہا ہوں ،پرندوں کی موسیقی بھی ریکارڈ کر لوں ، آلودگی سے وجود ٹوٹنے لگے تو سن لیا کروں۔ جنگلوں کے اپنے بھید ہوتے ہیں،ہمیں کیا خبر ان میں بھی کوئی شہنشاہ غزل اور ملکہ ترنم ہو، ہوا کے دوش پر اڑنے والے ننھے موسیقاروں کے غول جب وادی میں اترتے ہیں توان کی چہچہاہٹ سے جنگل میں جلترنگ بج اٹھتے ہیں۔ نتھیا گلی کا تجربہ ناران سے مختلف ہے۔ وہاں جھیلیں اور آبشار یں گندگی سے بھر گئی ہیں ۔ یہاں صفائی ہے۔ کل بازار سے گزرا تو اسے صاف پایا۔ معلوم ہوا گلیات ڈیویلپمنٹ اتھارٹی اس معاملے میں بہت سنجیدہ ہے۔جگہ جگہ گاربیج بِن رکھے گئے ہیں ۔ سڑک کنارے بنے ہوٹلوں میں سیاح بالکونی سے کوڑا کرکٹ نیچے وادی میں پھینک دیتے ہیں، چند ہوٹلوں کو دیکھا ان کا عملہ نیچے جنگل سے بھی شاپر ، ریپر اور بوتلیں اٹھا رہا تھا۔ ایک ریستوران میں چائے پینے کے لیے رکا تو ساتھ ایک فیملی بیٹھی تھی اور والد بچوں کو بتا رہا تھا کہ کوئی چیز یہاں نہیں پھینکنی، اس سے وادی گندی ہو جائے گی۔ جو بھی کھائیں ، پئیں ، کوئی ریپر ہو یا بوتل ہو سب گاڑی میں رکھیں اور جہاں گاربیج بن نظر آئے اس میں ڈالیں۔ہم وادی میں سیر کرنے آئے ہیں اسے گندا کرنے نہیں آئے۔ رویوں کے اس واضح فرق کا تعلق سماجیات اور تہذیب سے ہے۔میرے پیش نظر اس وقت سوال یہ ہے نصاب تعلیم میں ہم ’ سماجیات‘ کو ایک مضمون کے طور پر متعارف کیوں نہیں کرا دیتے؟ ہمارے ہاں تعلیم تو وافر ہے۔ میٹرک کے حالیہ نتائج بتا رہے ہیں کہ یہ اب اتنی وافر ہو چکی ہے سنبھالی نہیں جا رہی۔تربیت کا البتہ کوئی انتظام نہیں ہے۔معاشرے میں کیسے رہنا ہے ، میل ملاپ کے تقاضے کیا ہیں، شائستگی اور حفظ مراتب کی کیا اہمیت ہے ، اختلاف رائے کے آداب کیا ہیں، بڑوں سے کیسے پیش آنا ہے ، چھوٹوں سے کیسا برتائو کرنا ہے ، کردار کی کیا اہمیت ہے اور اس کا تحفظ کتنا اہم ہے، اصول اور آدرش کیا ہوتے ہیں، نشست و برخواست کے آداب کیا ہیں ، بطور میزبان ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں اور بطور مہمان ہمیں کن چیزوں کا خیال رکھنا ہے، ماحول کی صفائی کی اہمیت کیا ہے، برداشت ، تحمل اور رواداری کیا ہوتی ہیں۔۔۔۔۔یہ اور ان جیسی ڈھیروں چیزیں بتانے والا کوئی نہیں۔ کمانے کے لیے روبوٹ تو تیار کیے جا رہے ہیں ، تربیت اور تہذیب نفس کا کوئی اہتمام نہیں۔تربیت اور تہذیب کے کچھ روایتی ادارے ہوا کرتے تھے۔ والدین تھے ، گھر اور خاندان کے بزرگ تھے ، محلے کے بزرگ تھے، مساجد تھیں ، سکول میں اساتذہ اس کا قدم قدم پر خیال رکھتے تھے۔کمرشلائزیشن کے طوفان نے سب ملیا میٹ کر دیا۔والدین کے پاس اب وقت نہیں ہے ، محلے کے بزرگ تو خیر بہت دور کی بات ہے اب گھر کے بزرگ بھی ڈانٹ دیں تو ’’ ماما‘‘ کے خیال میں ’’ بے بی‘‘ کا ’’ انڈیویجوئلزم‘‘ متاثر ہو جاتا ہے۔رہی سہی کسر موبائل نے پوری کر دی ہے۔ گھروں میں سرشام سجنے والی محفلیں قصہ پارینہ ہوتی جا رہی ہیں۔ہر فرد اب اپنی ہی ذات میں انجمن ہے۔ تعلیم اب کاروبار ہے۔ استاد کا احترام نہیں رہا اور خود استاد بھی اپنے مقام پر نہیں ہے۔ جب میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ایم اے انگریزی کا طالب علم تھا،میں نے مشاہدہ کیا سمر سمسٹر سے پہلے اساتذہ اہتمام سے اتنے طلباء کو ضرور فیل کر دیا کرتے تھے کہ سمر سمسٹر کی مطلوبہ تعداد پوری ہو جائے اور تین مہینے یہ اساتذہ کرام ’’ بے روزگار‘‘ نہ ہو جائیں۔مکمل ستیا ناس ہونے میں جو کمی رہ گئی تھی وہ ہمارے اہل سیاست کے اسلوب گفتگو نے پوری کر دی ہے۔ تربیت کے ان روایتی اداروں کا منہدم ہو جانا ایک المیہ ہے۔تہذیبی قدریں جب اتنی تیزی سے ختم ہو رہی ہوں تو ہمیں تربیت کے متبادل طریقوں پر غور کرنا ہو گا۔ اس کے بہت سارے حل ہو سکتے ہیں اور ان میں سے ایک ’ سماجیات‘ کا مضمون ہے۔نصاب کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے۔ پچپن میں جو چیز پڑھ لی جائے وہ کسی نہ کسی صورت میں ساری زندگی آپ کے ہمرکاب رہتی ہے۔ نصاب میں عشروں پہلے ’ کیلے کا چھلکا‘ پڑھا تھا۔ اس کے اثرات سے آج تک نہیں نکل سکا۔ کہیں سڑک پر یا گلی میں کیلے کا چھلکا پڑا نظر آ جائے تو اسے نظر انداز کر کے آگے بڑھنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ پچپن میں پڑھا وہ سبق یاد آ جاتا ہے کہ کیلے کے چھکے سے حادثہ ہو جائے گا۔ کتنا اچھا ہو ،نصاب میں بچوں کی فکری صلاحیتوں کے مطابق سماجیات کو مضمون متعارف کرایا جائے جہاں پہلی جماعت سے ہی ان کی تربیت اور تہذیب نفس شروع ہو جائے۔ اس ضمن میں بنیادی کام ادارہ برائے علم و تحقیق برادرم خورشید ندیم کی نگرانی میں کر چکا ہے۔سماجیات کے نام سے ایک کتاب تشکیل دی گئی ہے جس میں انتہائی خوبصورت انداز سے بچوں کی تہذیب نفس اور تربیت کے اسباق شامل کر دیے گئے ہیں۔چند نجی تعلیمی اداروں میں یہ نصاب کا حصہ بن چکی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ ایک ابتدائی کوشش ہے۔ حکومت چاہے تو سماجیات کے نام سے ایک جامع نصاب تیار کر سکتی ہے ۔تعلیمی بنیادی سوال یہی ہے کہ ریاست اپنی نئی نسل کی تربیت و تہذیب کرنا چاہتی ہے یا اس نے صرف تعلیم یافتہ روبوٹ تیار کرنے ہیں؟