امروز کے لکھے ہوئے امرتا کے خطوط پڑھ رہی تھی، ایک خط لکھتے ہوئے امرتا لکھتی ہے ’’سیاست کی دنیا اور ہوتی ہے انسانیت کی اور!‘‘ اور اس ایک جملے نے گویا مجھے آکٹوپس کی طرح جکڑ لیا۔ میں بار بار یہی سوچتی رہی کہ سیاست کی ساری بدصورتیاں جو اس وقت دنیا کو جہنم بنائے ہوئے ہیں۔ ان ساری بدصورتیوں کو امرتا نے اس ایک جملے میں سمو دیا ہے۔ سیاست کا انسانیت سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا۔ وہ عالمی سیاست ہو یا پھر ملکوں کی اندرونی سیاست ہو۔اگر انسانیت کو مقدم جانا جاتا ہو تو پھر سیاست کی شکل شاید مختلف ہوتی۔ کل اپنے وزیر اعظم صاحب جس طرح اپنی تقریر میں عدم انصاف پر مبنی نظام کا ذکر کررہے تھے اس کے پیچھے انسانیت کا درد نہیں ، ان کی فرسٹریشن بھی عیاں تھی۔ وزیر اعظم کی تقریر انقلابی تھی۔ وہ انصاف اور عدلیہ پر عوام کے اعتماد کی بات کر رہے تھے۔ ہمیشہ کی طرح ان کی تقریر عظیم انسانی آدرشوں سے بھری ہوئی تھی کہ عوام کا اعتماد عدلیہ پر بحال ہو۔ ایک کمزور شخص کو بھی یقین ہو کہ قانون میرے لیے کھڑا ہو گا۔ مجھے انصاف ملے گا۔ انصاف اور عدلیہ پر عوام کے اعتماد کا خیال اس وقت آیا کہ ان کے دعوئوں کے برعکس ان کے حریف اول کو عدلیہ سے ریلیف ملا۔ کمزور آدمی کے لیے انصاف اور قانون کی طاقت کا خیال ہمارے وزیر اعظم کو سانحہ ساہیوال کے متاثرین، تین معصوم یتیم بچوں کے لیے کیوں نہ آیا۔ کاش ایسی جوش خطابت کا مظاہرہ کسی غریب کے حق میں بھی کیا ہوتا اور اسی طرح کے لاکھوں اور کیسز ہیں جہاں ایک عام پاکستانی انصاف اور عدل کے حصول میں ذلیل و خوار ہو جاتا ہے لیکن انصاف اسے نہیں مل پاتا۔ یہ سیاست کی خرابیوں سے لتھڑا ہوا معاشرہ ہے! سیاست کیا ہے۔ طاقت اور اقتدار کا استعارہ۔ طاقت، اقتدار اور اختیار کا مظہر۔جن معاشروں میں نظام صرف اہل اقتدار و اختیار کی سہولت کے لیے بنایا جائے وہاں انسان اور انسانیت اسی طرح خوار ہوتی ہے۔ یہاں احتساب مخالفین سے انتقام کا دوسرا نام ہے۔ سیاست، محض نفس، ہوس اور مفاد کے گرد طواف کرنے کو کہتے ہیں اور اس حمام میں سبھی ایک جیسے ہیں۔ اگر کوئی نیت اور انسانیت کے جذبے سے سیاست کرنے والا ہوتا تو تو معاشرے کی تصویر اتنی بدرنگ نہ ہوتی۔ نظام اتنا بدبودار نہ ہوتا۔ خالص مارشلائوں سے لے کر جمہوری مارشلائوں تک۔ شریفوں، زرداریوں، مولانائوں اور عمرانیوں تک سب کے سب تقریروں میں خوابوں کے خوش رنگ محل تعمیر کرنے والے نکلے مگر عمل کی دنیا میں سب کے سب اقتدار کی ہوس کے اسیر۔ اپنے مفاد کے تابع، عوام جن کے لیے کیڑے مکوڑوں سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔ اب بھی صرف چہرے بدلے ہیں۔ دل اور نیتیں نہیں بدلیں مجھے دلی ہمدردی ہے ان نوجوانوں سے جو تبدیلی پر یقین رکھتے تھے اور آج جب بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں تو وہ نوجوان مفاد اور نظریہ ضرورت میں لتھڑے ہوئے اس بدلائو کا جواز تراشنے کے لیے لفظ ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں۔ پوری ایک نسل ہے جو Disillusion کا شکار ہوئی۔ کاش کہ دعوے ایسے بلند بانگ نہ کیے ہوتے۔ آسمانوں کو چھوتی بڑھکیں نہ ماری ہوتیں، ریاست مدینہ کے خواب نہ دکھائے ہوتے اور المیہ تو یہ ہے کہ اقتدار میں آئے سوا سال ہو چکا ہے ان سے وابستہ امیدوں اور توقعات کے شیش محل چکنا چور ہو چکے ہیں۔ عوام ان کرچیوں پر بیٹھے ان امیدوں کا لہو رستا دیکھ رہے ہیں تقریر اب بھی وہی ہے۔ تازہ ترین تقریر میں جس طرح غم و غصہ کا اظہار کیا وہ منصب کے مطابق نہیں۔ تقریر میں مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کا ہی مذاق اڑایا اور بڑے فخر سے بتایا کہ دھرنے کا ماہر میں ہوں۔ اسی لیے تو وہی اپوزیشن والا جلالی پن موجود ہے۔ سیاست کی دنیا اگر انسانیت کی دنیا سے مختلف اور کوسوں دور نہ ہوتی تو اہل اقتدار کے ایجنڈے میں سرفہرست ان غریب پاکستانیوں کے مسائل ہوتے جو بے پناہ مہنگائی، بے روزگاری اور دیہاڑی نہ لگنے سے جنم لینے والے مسئلوں سے دوچار ہیں۔ ان میں سب سے بڑا مسئلہ بھوک کا ہے۔ اس بھوک کے ہاتھوں لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ اپنے بچوں کو قتل کر رہے ہیں۔ چوری چکاری، ڈاکے اس طرح کے جرائم بڑھ چکے ہیں۔ عیاشی اور آسائش میں زندگیاں بسر کرتے اہل سیاست و حکومت تک بھوک کی یہ شدت نہیں پہنچتی۔ مریخ سے آئی مخلوق 17روپے کلو ٹماٹر اور 5روپے کلو مٹر بکنے کی نوید سناتی ہے۔ ان کی احساس پروف کھوپڑیوں میں یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ خلق خدا کس عذاب میں ہے۔ اسے پیٹ بھرنے کے لیے جھوٹے اور کھوکھلے وعدوں کی نہیں روٹی کی ضرورت مگر ہے اہل اقتدار کی بے حسی دیکھ کر یقین آ جاتا ہے کہ سیاست کی دنیا اور ہے انسانیت کی دنیا اور!