مسلم امہ کی تعداد کتنی ہے؟ یہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہے؟ اس پر دانشور جو بھی کہے کچھ اہل نذر کا کچھ اور خیال بھی ہے۔قرآن مجید میں ارشاد ہو رہا ہے’’اے محمدؐ اپنی امت سے کہہ دو کہ میں تم کو ظلمت کفر سے نکال کر نور اور سلام سے مشرف کیا۔ میں اس کا اجر نہیں چاہتا مگر اہل بیت کی دوستی۔ اور وہی آقائے دو جہاں جن کی وجہ سے ہم دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ وہ جو اللہ کا پیغام ہم تک لائے۔ وہ ہی فرما رہے ہیں‘‘ حسین منی و انا من الحسین۔(حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں) عقل کے پجاریوں سے کوئی تو پوچھے۔ کربلا کو پاور پلے قرار دینے والوں سے آقاؐ کے اس فرمان کی توجہیہ پوچھی جائے۔ حسینؓ مجھ سے ہے تو ٹھیک ہے مگر میں حسین سے ہوں کا معنی اور مفہوم کیا ہے۔؟مگر وہ جو صرف دنیاوی عقل پر بھروسہ کرتے ہیں ان ہی کے لئے شاید اقبال نے کہا تھا: صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرائیل نے جو عقل کا غلام ہے وہ دل نہ کر قبول یہی جبرائیل امین تھے جو کربلا کی مٹی لے کر آقائے دوجہاں کے پاس حاضر ہوئے۔ سرکار رسالت ﷺوہی مٹی لے کر بی بی ام سلمیٰ ؓکے پاس تشریف لے گئے اور مٹی دیتے ہوئے کہا’’جب یہ مٹی خون آلود ہو جائے تو سمجھ لینا کہ میرا حسینؓ اس دنیا سے چلا گیا‘‘آپ کو علم تھا کہ جب میرا پیارا نواسہ اس دنیا سے جائے گا تو اس وقت بی بی ام سلمیٰؓ ہی زندہ ہوں گی۔صبح عاشور امام حسینؓ نے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا ’’ہر مصیبت کے وقت تجھ یہ پر بھروسہ ہے اور ہر سختی میں تجھ ہی سے امید ہے۔ ہر مشکل میں تو ہی میرا چارہ ساز اور سہارا ہے اور پھر بلند آواز میں لشکر یزید سے مخاطب ہوئے۔’’لوگو مجھے پہچانتے ہو؟ دیکھو میں کون ہوں؟ کیا مجھے قتل کرنا اور میری حرمت کو پامال کرنا تمہارے لئے جائز ہے؟ کیا میں تمہار پیغمبر کا نواسہ نہیں ہوں؟ کیا تم نے سنا نہیں کہ رسول اللہ ؐ نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا تھا کہ ہم دونوں جوانان جنت کے سردار ہیں۔ اگر تمہیں اس حدیث میں شبہ ہے تو کیا اس میں بھی شبہ ہے کہ میں رسولؐ کا نواسہ ہوں؟ آپ کی شہادت نے حق اور باطل کے درمیان ایک حد فاضل قائم کر دی۔ تاقیامت مختلف نقابوں‘ مکھوٹوں اور رنگوں میں ایک طرف حق ہوتا ہے اور ایک طرف باطل۔ باطل کو دلیل کی ایڑیوں والی جوتیاں پہنا کر حق کے وکٹری سٹینڈ کی اونچائی کو کم کرنے کی کوشش تاقیامت جاری رہیں گی۔ رسولؐ کا دین نہ ماننے والے اگر اسے پاور پلے قرار دیں تو سنا جا سکتا ہے اور کہا جا سکتا ہے یہ ہمارے دین سے بغض رکھتے ہیں اور پیغمبر سے بغض رکھتے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہمارے دین سے بغض رکھتے ہیں اور اس دین کو لانے والی ہستی سے بغض رکھتے ہیں مگر المناک حیرت ان پر ہوتی ہے جو مسلمان ہونے کے دعویٰ بھی رکھتے ہیں۔ نبیؐ سے محبت کا دعوہ بھی ہے اور حسین ؓکی قربانی کے خلاف دلیل بھی دیتے ہیں۔ آقاؐ سے محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ جس سے آپ محبت کرتے ہیں اس سے محبت کی جائے اور جس سے آپ بیزاری کا اظہار کرتے ہیں اس سے گریز کیراہ اپنائی جائے مگر ہم تو اسی عقل کو حد فاضل سمجھتے ہیں جو صرف اور صرف حواس خمسہ سے اخذ کی جاتی ہے۔ قرآن کہہ رہا ہے کہ اللہ انہیں کو ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔ طبری اور دوسرے مورخین نے لکھا ہے کہ شہادت کے بعد لشکری چاہتے تھے کہ بیمار کربلا کو بھی شہید کردیا جائے کہ خیمے لٹ ہی چکے تھے مگر ابن سعد نے روک دیا۔ سید سجاد نے کوفہ کے ہجوم سے کہا کہ میں اس کا بیٹا ہوں جس کا دریائے فرات کے کنارے پر سر قلم کردیا گیا۔ ہمارے لیے یہی فخر کافی ہے۔ لوگ حیران تھے کہ دنیاوی اعتبار سے شکست کھا کر فخرکیوں کر رہے ہیں مگر وقت کی کمان مالک اور خالق کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اسی وقت نے ذکر حسینؓ کو اور بھی نکھار دیا۔ بی بی زینب کا دریا یزید میں خطبہ فصاحت و بلاغت اور حق و باطت کے امتیاز کا ایک نادر نمونہ ہے۔ السلام اے نور اول کے نشاں السلام اے راز دار کن فکاں السلام اے داستان بے کسی السلام اے چارہ ساز بیکیاں السلام اے دست حق باطل شکن السلام اے تاجدار ہر زماں …… عصر کی تشنہ لبی یاد آئی وقت کی بوالعجبی یاد آئی ابر بر ساجو کہیں پر محسن مجھ کو اولاد نبیؐ یاد آئی …… مرضی ہے تیری فکر میں ترمیم کر نہ کر سلطان عقل و عشق کو تسلیم کرنہ کر بچپن میں دیکھ لیں ذرا دوش رسولؐ پر پھر تو میرے حسین کی تعظیم کر نہ کر وہ امت جو خدا کا پیغام بھلا دے۔ اپنے نبیؐ کے نواسے کو خون میں نہلا دے۔ ایک نہیں کئی موڑ پر در پر غلط مڑ جائے۔ وہ در بدر ہو جاتی ہے‘ وہ بددعائی جاتی ہے‘ بھٹک جاتی ہے۔ وقت اور مقام اسے راستہ نہیں دیتے۔ مسلمانوں کو زوال سے دوچار یورپ کے صنعتی انقلاب نہیں‘ سائنس کی حقانیت نے نہیں قرآن اور رسولؐ سے روگردانی نے راندہ درگاہ کردیا ہے۔ یہ اتفاق نہیں ہو سکتا کہ جہاں جہاں مسلمان ہیں وہاں وہاں ہی زوال ہے۔ اللہ غالب‘ مالک‘ خالق ہے اور اس کے محبوبؐ کی امت مغلوب کیوں؟ آپ سوچیں کہ ٹوٹا ہے کہاں پیڑ‘ کہاں شاخ جلی ہے؟